اور جب لکھنوی تہذیب سے پردہ اٹھتا ہے…


یہ بات کس سے چھپی ہے کہ حکومت جس کی رہی, وہ کمینہ رہا ہے۔ نظام حکومت آمرانہ ہو یا جمہوری۔ ایک میں دھاندلی کے ساتھ اور دوسرے میں عوام کو بے وقوف بنا کر، ان کی آنکھوں میں دھول جھونک کر، مختلف رنگ کی پٹیاں پہنا کر محکوم افراد کو لوٹا جاتا ہے۔ تاریخ کا مطالعہ کم از کم ایک فریب کی حقیقت دماغوں پر روشن کر دیتا ہے اور وہ یہ ہے کہ کسی بھی زمین، کسی بھی علاقے، کسی بھی زبان، رنگ، نسل، فرقے یا انسان پر فخر سوائے بے وقوفی اور گھامڑ پن کے اور کچھ نہیں ہے۔ فخر کا عفریت اس لیے لوگوں کے دماغوں پر حاوی کیا جاتا ہے، تاکہ وہ اپنے مذہب اور تہذیب کے نامزدکردہ مقدس لوگوں کے بارے میں سوال نہ کرسکیں، ان کی حقیقت نہ تلاش کر سکیں۔ لوگ ہمارے یہاں اپنی زبان کی شیرینی و نفاست کا سرٹیفیکٹ جن سکولوں سے حاصل کرتے ہیں، ان میں اودھ سکول بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ مگر ایک ایسے معاشرے میں جہاں عیاش نوابوں کی ٹپکتی ہوئی رال نے تقریبا ہر عورت کو کوٹھے پر سجانے کا پختہ ارادہ کرلیا تھا۔ وہاں جنسی سامان کی اتنی افراط بھی ہوس کے ناگ کو ایک عام سی کھتری بچی کو نوالہ بنانے سے نہ روک سکی۔

یہ واقعہ تاریخ نہیں ہے۔ یہ واقعہ ہمارا آج ہے، جہاں موقع بہ موقع ہمارے دور کے اہل حکومت بھی ایسی ہی کھتری بچیوں کی تلاش میں رہتے ہیں، جن کا تعلق اقلیت سے ہو، سچ ہے اقلیتیں خاص طور پر مشرق میں کسی دور، کسی وقت اور کسی طرح سے محفوظ نہیں رہی ہیں۔ ہمارے ایک دوست ہیں محمد علی، اسلامیات کے طالب علم ہیں اور اپنے سبجیکٹ پر گہری نظر رکھتے ہیں، مطالعہ کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اسلام میں باندیوں کے چلن نے اہل عرب کو اتنا عیش کوش بنادیا تھا کہ وہ بازار سے اپنی پسند کی عورتیں لایا کرتے، ان کے ساتھ جنسی عمل کرتے، مگر انہیں حاملہ نہ ہونے دیتے۔ جب تک دل چاہتا، مزے کرتے اور بعد میں انہیں کسی اور کے ہاتھ فروخت کر دیتے۔ پھر آپ ہم سے پوچھتے ہیں کہ ہم مذاہب کو پتھروں کے دور کی ایجاد کیوں مانتے ہیں۔ ہم تاریخ پڑھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ کسی بادشاہ نے اپنے حرم میں ہزار عورتیں رکھ چھوڑی تھیں، کسی نے سو۔ خیر جس کی جتنی وسعت، قدرت۔ اس کے پاس اتنی عورتیں۔

علاوالدین خلجی کے ایک وزیر کے پاس دو ہزار عورتیں بطور غلام موجود تھیں۔ اسی طرح مرقع دہلی میں ایک واقعہ لکھا ہے کہ جب نادرشاہ دہلی آیا تو اس نے محمد شاہ رنگیلے کے ایک وزیر سے پوچھا کہ تمہارے پاس کتنی عورتیں ہیں، اس نے بتایا کہ آٹھ سو ترانوے (یااس سے کچھ زیادہ)، نادر شاہ نے اپنے وزیر سے طنزیہ لہجے میں کہا کہ انہیں ایک سو تین عورتیں اور عطا کرکے منصب ہزاری بخش دو۔

بہرحال ہم بات کررہے تھے لکھنوی تہذیب کے ایسے نقش کی، جس کا عیب اس کی ظاہری نفاست و رنگارنگی نے ڈھانپ رکھا ہے۔ یہاں ہندوستان میں میں جب بھی دیکھتا ہوں کہ ہندو مغلوں کو برا بھلا کہتے ہیں تو انہیں بتاتا ہوں کہ بھائی! مغل تو پھر بھی ہندوؤں کے حق میں بہتر تھے، سلاطین اور نوابین کے دور کے بارے میں پڑھ لو گے تو نسلوں تک پیدا ہونے والی نفرت کی خلیج پاٹنا مشکل ہو جائے گی۔ دراصل عورتوں کے پاس مردوں کا ہونایا مردوں کے پاس عورتوں کا ہونا اتنا بڑا مسئلہ نہیں جتنا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہ تمام تر واقعات جو ہوتے رہے اور اب بھی ہمارے سماجوں میں ہوتے ہیں، عورتوں کی مرضی جانے بغیر بلکہ ان کی مرضی کے خلاف ہوتے ہیں۔ امیر طبقے کے لیے آج بھی اپنی پسند کی عورت اٹھالے جانا، اس کا ریپ کردینا اور بچ جانا اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ اور ہم تب تک ان مسائل کا شکار رہیں گے، جب تک اپنی تاریخ، اپنے مذہب، اپنے سماج اور اپنی زندگیوں میں موجود ایسے لوگوں کی نشاندہی کرکے ان کی گندگی اور غلاظت کا انہیں احساس نہ دلائیں۔ انہیں یہ نہ بتائیں کہ وہ شاہی دور گزر گیا جب کسی عورت کو اس کی مرضی کے بغیر یا اس کی مجبوری کا فائدہ اٹھا کر ہاتھ لگانا ایک نہایت واہیات اور کریہہ عمل نہیں سمجھا جاتا تھا۔ پھر چاہے آپ کا مذہب آپ کو چار شادیوں کی اجازت دیتا ہو یا آپ کا طرز زندگی آپ کو سو عورتوں کو گٹھلیوں کی طرح چوس کر پھینک دینے کی سہولت عطا کرتا ہو۔ بہرحال یہ واقعہ پڑھیے۔ یہ واقعہ ہماری تہذیبوں کو عریاں کرنے والا محض ایک اشارہ ہے، تاریخ ایسے سنگ دل معاملات سے اٹی پڑی ہے۔

“ایک دن نواب شجاع الدولہ ہاتھی پر سوار ہوکر شہر میں ایک رستے سے نکلے ایک محلے میں ایک کوٹھے پر اٹھارہ برس کی ایک لڑکی کھڑی تھی، اس پر نظر جا پڑی۔ اس کی دلفریب صورت دیکھ کر فریفتہ ہوگئے۔ بعد اس کے مخبروں سے کہا کہ اس مکان کے مالک کا پتا لگائیں۔ تحقیقات سے معلوم ہوا کہ وہ گھر ایک کھتری کا ہے۔ نواب وہاں سے اپنے مکان میں پہنچے مگر عشق کی وجہ سے پلنگ پر بے چین رہے اور رات بھر کچھ نہ کھایا۔ دوسرے روز راجہ ہمت بہادر نے ہندو مذہب کی دو کٹنیاں نواب سے ملائیں نواب نے ان کو انعام و عنایات کا امیدوار کرکے اس عورت کا پتہ دریافت کرنے کے لیے بھیجا انہوں نے سب حال معلوم کرکے نواب کی خدمت میں عرض کرایا اور تین روز کے بعد راجہ نے اپنے ہمراہی چند نانگے آدھی رات کے وقت اس کھتری کے مکان پر بطور چوروں کے بھیجے اس عورت کے گھر کے آدمی خوف سے سہم گئے یہ لوگ اس کا پلنگ اٹھا کر نواب کے پاس لے آئے۔ نواب کی عمر اس وقت تیئس یا چوبیس سال کی تھی اس سے صحبت کرکے رخصت کردیا۔ وہ گرتی پڑتی اپنے گھر کو گئی۔ وارثوں نے دریافت کیا کہ شب کہاں رہی اور کیا بلا پیش آئی۔ اس نے تمام حال بیان کیا۔ گھر والوں نے قرینے سے دریافت کرلیا کہ وہ آدمی نواب شجاع الدولہ کے ایما سے آئے تھے کوئی ان میں سے چور نہ تھا بلکہ نانگے تھے جن کو ہمت بہادر نے بھیجا ہوگا۔ پس چند آدمیوں نے متفق ہوکر راجہ رام نرائن دیوان کے پاس جاکر زمین پر پگڑیاں ڈال کر کہا کہ رعیت پروری اسی کا نام ہے۔ ہم یہاں سے جلا وطن کریں گے۔ ہماری سکونت یہاں ممکن نہیں۔

راجہ رام نرائن اور اس کا بھتیجا جگت نرائن دس بارہ ہزار کھتریوں کا مجمع لے کر ننگے سر اور ننگے پاؤں اسمعیل خاں کابلی کے پاس گئے اور عرض کیا کہ والی ملک نے رعیت کے آزار پر کمر باندھی ہے۔ ہم آپ کو صفدر جنگ کی جگہ جانتے ہیں۔ اب آپ ہم کو اجازت دیں کہ یہاں سے نکل کر اور کسی ملک میں چلے جائیں یا ہماری فریاد رسی کرنی چاہیے۔ اسمعیل خاں نہایت ناراض ہوا اور کئی مغل سرداروں کو بلا کر یہ سارا ماجرا ان سے بیان کیا اور سب کو اس بات پر آمادہ کیا کہ ہمت بہادر اور اس کے بھائی کو نواب سے لے کر سزادینی چاہیے۔ اگر نواب ان کے سپرد کرنے پر راضی ہوئے تو بہتر ہے نہیں تو محمد قلی خا ن کو الہ آباد سے بلا کر مسند نشین کردینا چاہیے اور نواب کے لیے جاگیر مقرر کردی جائے۔ سب نے اسمعیل خان کی رائے سے اتفاق کرکے نواب کو پیام دیا کہ ہمت بہادر اس کے بھائی کو ہمارے حوالے کردینا چاہیے۔ نواب نے کہا ہمت بہادر میرا محکوم ہے اس نے جو کچھ کیا ہے میرے حکم سے کیا ہے تم کو مجھ سے باز پرس کرنی چاہیے نہ ہمت بہادر سے۔ اور یہ بات بخوبی یقین کرلو کہ جب تک میں زندہ ہوں کسی کی یہ مجال نہیں کہ ہمت بہادر کو ایذا پہنچاسکے۔ میں ایسی ریاست کا خواہاں نہیں۔ ایسی مسند سے فقیر کا بوریا ہزار درجہ بہتر ہے تم کو اپنی جمیعت پر ناز ہے۔ میں اس تھوڑی سی جماعت سے مقابلے کو حاضر ہوں۔ جب ارادہ کرو گے ادھر سے کمی نہ پاؤ گے۔ مغلیہ سرداروں نے محمد قلی خان کو لکھ کر الہ آباد سے طلب کیا اور دربار میں اپنی آمد و رفت موقوف کردی۔

شجاع الدولہ کی والدہ نے رام نرائن کو اپنی ڈیوڑھی پر بلا کر پردے کی آڑ میں اس سے کہا کہ اپنے آقا زادے کے ساتھ یہی سلوک کرنا چاہیے تھا۔ لاکھوں روپے جس کے باپ کے ہاں سے پائے۔ کیا تم کو صفدر جنگ نے اسی دن کے لیے پرورش کیا تھا۔ ایک ادنیٰ ہندو کے واسطے اتنی ہنگامہ آرائی مناسب نہ تھی۔ مانا کہ محمد قلی خان صفدر جنگ کا بھتیجا ہے لیکن ہر شخص کا نام بیٹے سے باقی رہتا ہے نہ بھتیجے سے۔ رام نرائن نے کہا کہ اگر صاحبزادے میری جان چاہیں تو حاضر ہے۔ مگر جو رویہ انہوں نے اختیار کیا ہے اس سے ملک ویران ہوجاتے ہیں۔ دوست دشمن بن جاتے ہیں۔ یہ جو کچھ شورش تھی اس سے صرف یہ مقصود تھا کہ آئندہ ایسی حرکت نہ کریں جس سے بدنامی ہندوستان میں ہوگی جبکہ بیگم صاھبہ نے رام نرائن کو اپنے شوہر کے احسانات جتاکر قائل و معقول کیا تو اس نے کہا میں تابعدار ہوں اگر مجھ کو معلوم ہوتا کہ اس معاملے کو اتنا طول ہوگا تو کھتریوں کو پہلے ہی راضی کر لیتا۔ اب آپ اسمٰعیل بیگ اور دوسرے سردارن مغلیہ کو بلاکر اسی طرح تالیف کردیں تو امید اصلاح کی ہے چنانچہ انہوں نے سب کو بلا کر اسی طرح کے کلمات کہے کہ سب محجوب ہوئے اور معزولی کے ارادے سے باز آئے۔ “

تاریخ اودھ، حصہ دوم کے صفحہ تین، چار اور پانچ پر ایسا دلسوز واقعہ لکھنے کے بعد پتہ نہیں کیسے نجم الغنی خود کو یہ لکھنے پر راضی کر پائے کہ ’(شجاع الدولہ) عیاشی میں بجز شراب نوشی کے منہمک رہتے تھے۔ اکثر عورتوں کی مباشرت میں راغب اور لہو ولعب میں مصروف رہتے تھے۔ لیکن مزاج میں حیا و شرم اور عفو و اغماض اور ترحم تھا۔ ‘ جبکہ آگے یعنی صفحہ پندرہ پر ان کی صفات مردانہ کا ذکر اس طرح فرمایا گیا ہے

۔ ۔ ۔ دیو نفس سے بے حد عاجز تھے کہ خواہش نفسانی اور غلبۂ شہوانی کے وقت بے حواس ہوجاتے تھے۔ آنکھوں میں دنیا اندھیر ہوجاتی تھی۔ یہاں تک کہ اکثر ایسا وقت ہوتا کہ راستے میں سواری چلی جاتی اور شہوت سے بے تاب ہوکر عورتوں کے ساتھ صحبت کرکے آگے کو روانہ ہوتے اس لیے ہر وقت اور ہر جگہ عورتیں ان کے لیے مہیا رہتیں رات دن میں عورتوں کے ساتھ مباشرت کی نوبت دس پندرہ بار تک پہنچ جاتی تھی۔ چند کٹنیاں مقرر تھیں کہ جا بجا سے خوبصورت عورتوں کو تلاش کرکے ہزاروں روپے خرچ کرکے نواب کے واسطے لاتیں ان کی مدخولہ عورتوں کی تعداد دو ہزار سے زیادہ پہنچ گئی تھی کثرت مباشرت سے اکثر امراض مزمنہ میں گرفتار ہوگئے تھے اور آخر کار بد کے عارضے سے انتقال کیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).