چیف جسٹس نے سعد رفیق کو ”لوہے کے چنوں‘‘ سمیت روسٹرم پر طلب کرلیا


لاہور: چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریلوے میں 60 ارب روپے خسارے کے از خود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق کو ”لوہے کے چنوں‘‘ سمیت روسٹرم پر طلب کرلیا۔

چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں فاضل بنچ نے سپریم کورٹ رجسٹری میں ریلوے میں 60 ارب روپے خسارے کے از خود نوٹس کیس کی سماعت کی، سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ خواجہ سعد رفیق صاحب روسٹرم پر آئیں اور لوہے کے چنے بھی ساتھ لے کر آئیں، جس پر خواجہ سعد نے کہا کہ آپ ہمارے بھی چیف جسٹس ہیں، یہ بیان آپ کے لیے نہیں تھا سیاسی مخالفین کے لیے تھا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ وہ وقت چلا گیا جب عدالتوں کی بے احترامی کی جاتی تھی، ہم ابھی آپ کی ساری تقریروں کا ریکارڈ منگواتے ہیں اور خسارے کا بھی، بتائیں ابھی تک ریلوے میں کتنا خسارہ ہوا ہے۔ جب تک عدالت نہیں کہے گی آپ چپ رہیں گے، جب تک ہم کہیں گے آپ یہیں کھڑے رہیں گے۔

بولنے کی استدعا مسترد ہونے پر خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ اگر مجھے نہیں سننا تو پھر میں چلا چاتا ہوں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ جس نیت سے آئے ہیں وہ ہم جانتے ہیں، آپ چلے جائیں ہم توہین عدالت کی کارروائی کریں گے۔
چیف جسٹس پاکستان نے سعد رفیق سے استفسار کیا کہ آپ کے دور میں کئی حادثے ہوئے، فوجی ٹرین حادثے میں کتنے افراد شہید ہوئے، خواجہ سعد رفیق نے بتایا کہ 17 فوجی شہید ہوئے جو ڈرائیور کی تیز رفتاری کے باعث پیش آیا، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ نے بھی ساری ذمہ داری ڈرائیور پر ڈال دی ہے۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس اور خواجہ سعد رفیق کے درمیان انتہائی کڑوے جملوں کا تبادلہ ہوا۔ خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ میں سیاسی تقریر کرنے نہیں، کارکردگی دکھانے آیا ہوں، ہم نے آپ سے شاباش لے کر جانی ہے، ہم نے میرٹ پر ڈی جی لیگل کو ریلوے میں تعینات کیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو سیاسی تقریر کی اجازت بھی کوئی نہیں دے گا، اگر آپ اچھا کام کریں گے تو شاباش بھی دیں گے، اگر آپ کسی عام آدمی کو ڈی جی لیگل لگاتے تو سمجھتا کہ میرٹ پر تعیناتی کی گئی ہے، چند دن پہلے آپ جہاں گئے تھے وہاں آپ جانتے ہیں آپ کی باڈی لینگویج کیا تھی؟ خواجہ سعد رفیق نے چیف جسٹس کے استفسار پر بتایا کہ میری رشتہ داری اور شہر داری ہے، وہاں میں چائے پینے گیا تھا، اپنے رشتہ داروں کے پاس چائے پینے جانا میرا حق ہے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ چپ ہو جائیں تو بہتر ہے ورنہ سب کو پتہ چل جائے گا کہ آپ کہاں گئے تھے، مجھے پتہ ہے کہ آپ کون سی چائے پینے گئے تھے اور کیا سفارش کروانے گئے تھے، میں جہاد کر رہا ہوں اور مجھے کچھ نظر نہیں آ رہا، جتنے مرضی بڑے چہرے لے آئیں، بات صرف میرٹ کی سنوں گا۔ سیاسی باتیں چھوڑیں، آپ ریلوے کی کارکردگی پر آئیں ورنہ آپ کو براہ راست توہین عدالت کا نوٹس دوں گا۔

وزیر ریلوے نے کہا کہ مجھے آپ کے اس کمنٹ سے دلی افسوس ہوا، آپ ہمارے چیف جسٹس ہیں، آپ کو مجھے بولنے کا موقع دینا چاہیے، میں خواجہ رفیق شہید کا بیٹا ہوں اور اپنے والد کی راہ پر ہی چل رہا ہوں، چیف جسٹس نے کہا کہ میں خواجہ رفیق شہید کی بہت عزت کرتا ہوں، ان کے ساتھ مل کر جہاد کیا ہے، مجھے پتہ ہے آپ اپنے والد کی راہ پر کتنا چل رہے ہیں، کاش خواجہ رفیق شہید کی اولاد ایک فیصد بھی ان کی راہ پر چلی ہوتی۔ خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ ہم اسی راہ پر ہیں، میں نے عدلیہ بحالی کے لئے جیل کاٹی ہے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے ہو سکتا ہے آپ کو دوبارہ جیل جانا پڑ جائے، جس پر سعد رفیق نے کہا کہ کوئی بات نہیں، میں پہلے بھی بارہ مرتبہ جیل کاٹ چکا ہوں۔ عدالت نے پاکستان ریلوے کا مکمل آڈٹ کروانے کا حکم دے دیا۔

آج بہت بددل اور دل گرفتہ ہوں، سعد رفیق
سماعت کےبعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے سعد رفیق نے کہا کہ میں نے ہمیشہ ملک میں آمریتوں کا سامنا کیا، ضیا الحق کے ساتھیوں میں شامل نہیں، پونے پانچ سال ریلوے کے لیے پورے دل و جان سے کام کیا لیکن آج بہت بددل اور دل گرفتہ ہوں، زیادہ بات نہیں کرنا چاہتا، پھر کسی بات پر پکڑا جاؤں گا، پوری نیک نیتی سے عدالت میں آئے اور ریلوے پر بات کرنا چاہتے تھے، جب ریلوے کا محکمہ ملا تو ادارہ 18 ارب کماتا تھا تو 50 ارب کا خسارہ تھا، اب صورت حال مختلف ہے، ہم نے کوئی چھانٹیاں نہیں کیں، ٹرین بند نہیں کیں۔ اب کوئی ریلوے کی نجکاری کی بات نہیں کرتا۔ ریلوے کا ادارہ اب مستحکم ہورہا ہے لیکن اسے ٹھیک ہونے میں 10 سے 12 سال لگیں گے۔

واضح رہے کہ خواجہ سعد رفیق نے گزشتہ برس ایک تقریب کے دوران خطاب میں کہا تھا کہ ہم لوہے کے چنے ہیں جو ہمیں چبانے کی کوشش کرے گا اس کے دانت ٹو ٹ جائیں گے۔
بشکریہ ایکسپریس نیوز۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).