خبطی ڈاکٹرز


\"KN1\" کہنے کا مطلب یہ نہیں کہ ڈاکٹرز دیوانے، پاگل یا مجنون ہوتے ہیں بس اتنا کہ ان میں سے اکثر اپنے پیشے میں ایسے ڈوب جاتے ہیں کہ دنیا و مافیہا سے بیگانہ ہو جاتے ہیں خود کو بھی بھول جاتے ہیں۔

ڈاکٹرز کے خبطی پن کا تازہ ترین تجربہ مجھے اس وقت ہوا جب میں استنبول میں ایک ہفتہ گزار کر واپس آیا اور میرا چہرہ سرخ سرخ رہنے لگا۔ میں نظر انداز کردیتا  لیکن جب کچھ دن بعد میری ایک بے تکلف کولیگ نے کہا کہ لگتا ہے تم رنگ گورا کرنے کی گھٹیا مصنوعات استعمال کر رہے ہو تو محسوس ہوا کہ معاملہ گمبھیر ہے۔ یوکے کے روٹین کے تحت دوماہ جنرل پریکٹیشنر کی دی ہوئی دوائیوں سے جب کوئی فرق نہیں پڑا تو اس نے جلدی امراض کے ماہرکو ریفر کردیا۔ قسمت سے جو کنسلٹنٹ  حصے میں آئے وہ ایک پروفیسر صاحب تھے۔ میرے چہرے کو دیکھتے ہی وہ نہال ہوگئے۔ عدسے کی مدد سے میری شکل کا اچھی طرح معائنہ کرتے کرتے ان کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ ہی نہ رہا۔ باچھیں ایک کان سے دوسرے کان تک کِھل گئیں،\”آپ کو ایکنی روسیشئے ہے\” انہوں نے جیسے کوئی خوشخبری سنائی\”اب آپ مے سرخ (ریڈ وائن) چھوڑ دیں\”

\”چھوڑیں تو تب جب شروع کی ہو\” ہم نے بتانا چاہا لیکن وہ سنی ان سنی کرتے ہوئے بولے،\”بس ایک گلاس ویک اینڈ پر لے لیا کریں\”۔ \”چلیں ہم دوا کے طور پر بیوی بچوں سے چھپ چھپا کر پی لیا کریں گے۔ لیکن اس مرض سے مستقلاً جان کب چھوٹے گی؟\”

یہ سوال سن کر تو ان کی شادمانی اور بھی بڑھ گئی۔ \”آپ مسلسل اینٹی بایوٹکس کھاتے رہیں گے۔ دھوپ سے بچتے رہیں گے۔ سَن کریم سے رخِ احمریں پر نقوش و نگار بناتے رہیں گے لیکن تاعمراس مرض میں مبتلا رہیں گے۔ جب اس کا زور ہو گا تو آپ کے گال اور ناک ایسے لال ہو جائیں گے جیسے مسخرے(کلاؤن) کے ہوتے ہیں!\”

خبطی ڈاکٹروں میں سول اسپتال کے شعبہ نفسیات کے ان رجسٹرار کو بھلانا تو ناممکن ہے جنہیں میرے دیکھتے ہی دیکھتے گرل کے مقفل دروازہ کے پیچھے کھڑے کسی نفسیاتی مریض نے اچانک پکڑ کر مارنا شروع کر دیا۔ جب تک گارڈز ان کے بچاؤ کو آتے ان کے بال نچ چکے تھے۔ قمیض کے بٹن ٹوٹ چکے تھے۔ چشمہ کا شیشہ چٹخ چکا تھا اور بازو ناخنوں سے کھرچے جا چکے تھے۔ لیکن بجائے ایمرجنسی کا رخ کرنے کے وہ صاحب ڈیوٹی روم جا کر ایک لمبا سا نوٹ تحریر کرنے لگے۔ ہم نے پوچھا کیا لکھ رہے ہیں توکہنے لگے\”میڈم ثمینہ مانتی ہی نہیں یہ ڈپریشن کا مریض نہیں اس کودو قطبیت (بائی پولر ڈس آرڈر) ہے!\” یہ کہتے ہوئے ان کی آنکھیں ایسے چمک رہی تھیں جیسے ان کے ہاتھ کوئی خزانہ لگ گیا ہو۔

ان دنوں ہم کالج آف فزیشن اینڈ سرجن کے ہاسٹل میں رہا کرتے تھے۔ ہمارے ساتھ ہمارے ایک کلاس فیلو ہوا کرتے تھے جوجراحۃ بول (یورولوجی) کا امتحان دے رہے تھے۔ ایک دن شام کے وقت ہم لوگ چائے پینے باہر نکلے تو مسجد کے قریب سے گزرتے ہوئے ایک بزرگ آدمی کو دیوار کے ساتھ کھڑے حوائجِ ضروریہ سے فارغ ہوتے دیکھا۔ ہمارے دوست نے پوچھا \”تم نے ملاحظہ کیا؟\” \”ہاں بالکل لوگوں میں شرم ہی نہیں گدھے گھوڑوں کی طرح روڈ پر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ مسجد کا احترام بھی نہیں کرتے\”۔ ہم نے جھٹ سے کہا \”نہیں تم نے غور ہی نہیں کیا۔ یہ بابا ڈاکٹر ادیب رضوی کا مریض ہے۔ انہوں نے حال ہی میں اس کے پروسٹیٹ کا آپریشن کیا تھا۔ اب دیکھو کیا دریائے نِیل جیسی دھار ہے۔ رضوی صاحب سرجن نہیں دیوتا ہیں، مسیحا ہیں،فنکار ہیں!\”

ہمارے ایک ای این ٹی سرجن دوست کی منگنی صرف اس لیے ٹوٹ گئی تھی کیونکہ وہ اپنی ہونے والی سالی کا تالو چیک کرنا چاہتے تھے جس میں ان کے خیال میں سوراخ تھا اور اس کی آواز ناک سے نکلتی لگتی تھی۔

اور یہ واقعہ بھی بہت پرانا نہیں جب ہمارے ایک دوست کے ضعیف اور مفلوج نانا کی حالت ٹھیک نہیں تھی۔ آخری رسومات کے طور پر جنرل سرجن کے ساتھ ہم بھی ان کے فلیٹ پر گئے۔ نانا جان نے ہمارے آتے ہی ایک دھماکہ دارریاح خارج کی۔ ہم رومال سے اپنی ناک ڈھانک کر جلدی سے دور ہٹ گئے لیکن ہمارے جنرل سرجن دوست بستر کے اور قریب ہوگئے انہوں نے جیب سے سرجیکل گلوز نکال لیے۔ ہمارے لیے اور مریض کے نواسے کے لیے بھی وہاں کھڑا رہنا محال تھا ہم دونوں فلیٹ سے باہر آگئے جہاں ایک ناقابلِ برداشت بدبو نے ہمارا پیچھا کیا۔ کچھ دیر بعد فاتحانہ مسکراہٹ لیے سرجن صاحب نمودار ہوئے۔ \” آنتوں میں فضلہ پھنسا ہوا تھا میں نے مقعد کی صفائی کردی ہے۔ بعد میں بھی ضرورت ہو تو مجھے بلا لینا\”

وہ ڈاکٹر صاحب تو تقریباً موت کے منہ سے واپس آئے تھے جو چیسٹ کے وارڈ میں ایک مریض کی کمر ٹھونکتے ہوئے کہہ رہے تھے۔ \”چچا میاں کھل کر کھانسو۔ شکر ہے تمہیں دمہ نہیں۔ انفیکشن ہے \” کچھ دن بعد ہمارے دوست کو مشکل العلاج (ملٹی ڈرگ ریزسٹنٹ) ٹی بی تشخیص ہوئی۔ ان کے پھیپھڑوں میں پانی بھر گیا اور وہ نو ماہ تک ٹی بی کی دوائیاں کھاتے رہے۔

یہ قصہ ہمارا ذاتی ہے شادی کے تین ماہ بعد ہم سعودیہ چلے گئے جہاں دعوتوں میں مرد عورت الگ الگ بیٹھتے تھے۔ ایک شام ہم مردانہ حصے میں بیٹھے لطیفوں سے محظوظ ہو رہے تھے کہ ہم نے نوٹ کیا کہ محفل پرخاموشی سی طاری ہوتی جا رہی ہے۔ غور کیا تو وہ لوگ دوسرے کمرے سے آتی اس آواز کو پوری طرح سننے کی کوشش کر رہے تھے جس میں کوئی مقررہ شادی شدہ اور غیر شادی شدہ خواتین کو کامیاب ازدواجی زندگی اور بچوں کی ولادت کے گُر ایسے  بتا رہی تھیں جیسے مڈوائیفری کا کورس کرا رہی ہوں۔ وہ آواز خاصی جانی پہچانی لگی  جب ہمیں اندازہ ہوا کہ یہ ہماری نئی نئی رفیقۂ حیات کی ہے تو دسمبر کے مہینے اور صحرا کی سردی میں ہمارے ماتھے پر پسینہ آ گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments