اپنے ہنر مند یار خاص کی مدح میں ۔۔۔


میرا یار خاص اچھا خاصا پڑھا لکھا اور اہم عہدے ہر فائز شخص ہے۔ شروع ہی سے وہ ایک جذباتی اور خود پسند شخص رہا ہے۔ اسے اپنے سوا سب چور نظر آتے ہیں۔ عالم جذبات میں وہ اپنے دفتر میں بلائے گئے ہر شخص کو جھاڑ پلانا اپنا فرض سمجھتا ہے۔ اسے عوامی عہدوں پر براجمان افراد کی تذلیل کر کے تسکین ملتی ہے اور اپنے اوپر ہونے والی تنقید کو وہ گناہ کبیرہ تصور کرتا ہے۔ اسے اپنی کرسی پر بہت ناز ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ یہ کرسی سدا اسی کی رہے گی۔ حالانکہ سرکاری منشی خواہ وہ کتنے ہی بلند و بالا عہدوں پر فائزکیوں نہ ہوں ایک نہ ایک دن انہیں کرسی چھوڑ کر ریٹائرمنٹ کی زندگی بسر کرنی پڑتی ہے۔ لیکن اسے لگتا ہے کہ “فرشتوں” کے دست شفقت کے باعث یا تو اس کی مدت ملازمت میں اضافہ کر دیا جائے گا یا پھر ریٹائرمنٹ کے بعد اس کی فرشتوں کیلئے گرانقدر خدمات کے عوض اسے بیرون ملک ایک پرتعیش زندگی بسر کرنے کے لوازمات مہیا کر دئیے جائیں گے۔ اسے اپنے کام اور فرض کے علاوہ باقی ہر کام کو کرنے میں دلچسپی ہے۔ اپنے محکمے کی کمزور ہوتی بنیادوں کو مضبوط کرنے میں اسے کوئی دلچسی نہیں ہے۔

شوق خود نمائی بھی ہے اس لئیے ہر وقت ٹیلی ویژن سکرینوں پر اپنے حوالے سے خبریں اور ٹکرز دیکھنا چاہتا ہے۔ یوں تو وہ بات عوام کے وسائل کو لوٹنے والوں کے احتساب کی کرتا ہے لیکن خود سرکاری دوروں کے دوران جہازوں کی بزنس کلاس سے سفر کرتا ہے پروٹوکول کے نام پر مرسڈیز گاڑیوں کے حصار میں چلتا ہے۔ میرا یار افسانوں اور ادب سے بھی گہرا لگاو رکھتا ہے۔ افسانے اس نے منٹو یا کرشن چندر کے تو نہیں پڑھے لیکن “تین عورتیں تین کہانیاں” جیسے افسانے پڑھ کر اس نے زندگی کے مسائل کو انہی افسانوں کی کسوٹی سے جانچا ہے۔ ادب میں وہ جرائم کی دنیا کے بڑے بڑے کرداروں کے افسانوی ناول پڑھنے کا شغف رکھتا ہے اور روحانیت سے متعلق کتب بھی اس کی پسندیدہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی بھی فیصلہ لیتے وقت وہ دلیل و منطق کے بجائے افسانوی ناولوں کے جذباتی محاوروں کا سہارا لیتا ہے۔ ویسے تو اس کے ذمے جو فرائض ہیں ان کی انجام دہی میں اسے کوئی دلچسپی نہیں ہے لیکن دیگر سویلین اداروں اور ان کے افسران کو ان کے فرائض کی ذمہ داری یاد کرواتے رہنا اس کا محبوب ترین مشغلہ ہے۔ میرا یہ سرکاری منشی یار خاص سوائے بندوق والوں کے کسی سے بھی نہیں ڈرتا ہے۔ اسے تاحیات کے لفظ سے اس قدر محبت ہے کہ اپنی نوکری بھی تاحیات چاہتا ہے اور دوسروں کی سزا بھی تاحیات ہی چاہتا ہے۔

میرے یار خاص کو “فرشتوں”سے جنون کی حد تک عشق ہے اور اسی لیے فرشتوں کی کہی گئی ہر بات اس کے لئے حرف آخر ہوتی ہے۔ کوئی قانون کوئی دلیل اسے فرشتوں کی دی گئی ہدایات کی تکمیل سے نہیں روک سکتے۔ وہ چونکہ روحانیت کی کتب بھی پڑھنے کا شغف رکھتا ہے اس لئے شاید فرشتوں سے جنون کی حد تک عشق رکھتا ہے اور ایسے افراد جو فرشتوں کے احکامات پر سوالات اٹھائیں یا ان کو ان کے ذمہ واجب اصل فرائض کی بجاآوری کی نشاندہی کروائیں وہ تمام افراد اسے اپنے دشمن لگتے ہیں۔ اسے رستم پہلوان کی دف سے عشق ہے۔ اس کا ماننا ہے کہ رستم پہلوان سے تعلقات استوار رہیں تو کوئی دوسرا پہلوان اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ تعلقات استوار رکھنے کیلئے میرا یار خاص وقتا فوقتا بذات خود رستم پہلوان کی مالش کے فرائض بھی سر انجام دیتا ہے۔ اس کا ماننا ہے کہ “مالشئیے” جس طرح کی تسکین و راحت فراہم کرنے کا باعث بنتے ہیں وہ کسی بھی “پالشئیے” کے اختیار اور بس میں نہیں ہے۔ اپنی اسی صلاحیت کے باعث وہ رستم پہلوان کا پسندیدہ “مالشیا” بن چکا ہے۔ اکھاڑے میں موجود دیگر پہلوانوں کو وہ اپنے محبوب پہلوان کے مقابلے میں لڑنے ہی نہیں دیتا بلکہ کشتی سے پہلے ہی پیچھے سے اڑنگی مار کر مخالف پہلوانوں کو گرا دیتا ہے۔

میرا یار خاص آج کل انتہائی مصروف ہے۔ ملاقات ہوئی تو مجھے کہنے لگا کہ زیادہ تر وقت آئندہ ہونے والے دنگل کی تیاریوں میں صرف ہوتا ہے۔ مجھے بے حد تعجب ہوا اور میں نے اپنے یار خاص سے پوچھا کہ مالش کی حد تک تو ٹھیک تھا لیکن دنگل اور اکھاڑے سے اس کا کیا تعلق؟ وہ مسکرایا اور کہنے لگا اس بار رستم نے اس کی مالش سے متاثر ہو کر دنگل میں اپنے خاص پہلوانوں کی تربیت کا فریضہ اسے سونپا ہے۔ اب وہ ایک طرف تو مخالف پہلوانوں کو کشتی لڑنے کیلئے “”ان فٹ” قرار دے رہا ہے اور دوسری جانب اکھاڑے کو اس طرح سے تیار کر رہا ہے کہ فرشتوں کے مخالف پہلوانوں کی بی ٹیم بھی اس پر قدم نہ جمانے پائے اور ساری ٹیم دنگل شروع ہوتے ہی چاروں شانے چت ہو جائے۔ میرا یار صدق دل سےاس بات پر ایمان رکھتا ہے کہ انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ اکھاڑے میں صرف اور صرف خاکی چڈی والے پہلوانوں کی دف کے پہلوانوں کو آپس میں ہی کشتی لڑنے کا موقع فراہم کیا جائے اور مخالف پہلوانوں کو اکھاڑے میں دنگل لڑنے کیلئے اترنے کا موقع ہی فراہم نہ کیا جائے۔ اس کا ماننا ہے اس صورت میں دنگل محض خاکی چڈی کی رستم دف کے پہلوانوں کے ہی بیچ میں ہو گا اور پھر کوئی بھی جیتے، جیت دراصل رستم دف کی ہو گی۔ اس کو سو فیصد یقین ہے کہ اس کی مالش اور مخالف پہلوانوں کو اڑنگی دے کر گرانے کی خدمات کو مدتوں تاریخ میں یاد رکھا جائے گا اور جب بھی راوی مالشیوں کا ذکر کرے گا تو اس کا نام جلی حروف میں سر فہرست لکھے گا۔

اس کا یہ بھی ماننا ہے کہ مالشئے کی ایک دن کی زندگی ان افراد کی دہائیوں پر محیط زندگی سے بہتر ہوتی ہے جو مالش اور پالش کرنے سے انکار کر دیتے ہیں۔ وہ ایک پریکٹیکل آدمی ہے اور اس بات پر ایمان کامل رکھتا ہے کہ وطن عزیز کا مسقبل دراصل مالشیوں اور پالشیوں سے مشروط ہے۔ اسے مخالفین کے طنز و تنقید پر مبنی جملے نشتر کی طرح چبھتے ہیں اور اکثر وہ ان جملوں اور تنقید سے دلبرداشتہ ہو جاتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ یہ لوگ عقل سے پیدل ہیں جو میری خدمات کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ میں اپنا کام دھندہ چھوڑ کر وطن عزیز کے بہتر مستقبل کیلئے مالش کے فرائض انجام دیتا ہوں اور کوئی بھی کام دھندہ خواہ وہ مالش یا پالش کا ہی کیوں نہ ہو چھوٹا نہیں ہوا کرتا۔ اس ضمن میں وہ فلم رئیس میں شاہ رخ خان کے اس ڈائلاگ کا حوالہ دیتا ہے کہ ” کوئی بھی دھندہ چھوٹا نہیں ہوتا اور دھندے سے بڑا کوئی دھرم نہیں ہوتا “۔ اس ڈائلاگ کی روشنی میں تو اس نے اپنا دھندہ واقعی ایمانداری سے کیا ہے اور فرشتوں کے ہر اس حکم کی تعمیل بجا لائی ہے جو عام مالشیا شاید کبھی بھی انجام نہ دینے پاتا۔

وہ کہتا ہے کہ قانون اندھا ہوتا ہے اس لئیے اسے چلنے کیلئے لاٹھی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اب اگر خلیفہ پہلوان نے لاٹھی اس کے ہاتھ میں تھما دی ہے تو جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے مصداق کم سے کم وہ کمزور پہلوانوں پر تو اپنا رعب جما کر احساس نارسائی کی تسکین کر ہی سکتا ہے۔

 میرا یہ مالشیا دوست بے حد سیدھا اور سادہ لوح آدمی ہے وگرنہ تاریخ کے مطالعے سے اسے اس حقیقت کا بآسانی پتہ چل جاتا کہ ہر دور میں مالشئیے مالش کروانے کے بعد گھروں کو روانہ کر دئیے جاتے ہیں اور پھر باقی ماندہ عمر وہ تیل کی شیشیاں کاندھے پر لٹکائے مالش کروا لو کی صدائیں ہی بلند کرتے رہ جاتے ہیں لیکن صاحب بہادر کبھی دوبارہ ان کی جانب متوجہ نہیں ہوتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).