ہماری کھوئی ہوئی میراث


دین فطرت ذہن انسانیت میں شعور و آگہی اور علم و معرفت کے چراغ روشن کرنے کے ساتھ ساتھ عقل انسانیت میں غوروفکر کی عادت بھی پیدا کرتا ہے۔ یہ کسی مرحلے پر بھی انتہا پسندی کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا۔ غور و خوض اور تفکر و تدبر حکم ربانی ہے۔ یہ دین فطرت ہی تو ہے جس نے انسانیت کو احکامات اور ضابطوں کا پورا ایک نظام دیتے ہوئے انسانیت کو نصب العین کا شعور دیا۔ امن و محبت اور جدت پسند دین فطرت تسخیر کائنات کی ترغیب دیتا ہے۔ ان بنیادی کمالات اور خوبیوں کو مسلمانوں نے جب تک اپنائے رکھا مسلمان دنیا کے ہر شعبہ پر غالب رہے۔ اس بات کی حقیقت کو سمجھنے کے لئے دین فطرت کے پیروکاروں کے کمالات اور عروج کا مختصر تجزیہ کرنا ہوگا۔ دنیا کا سب سے پہلا جہاز مسلمان سائنسدان ”عباس بن فرناس‘‘ نے نویں صدی عیسوی میں ایجاد کیا۔ سول انجینئرنگ کی بنیاد کے طور پر مسلمانوں نے مسجد قرطبہ تعمیر کی۔ جس کے مینار 70 فٹ بلند بنائے گئے۔ مسجد میں 4700 فانوس سالانہ 24000 پاؤنڈ زیتون کے تیل سے روشن ہوتے۔ اعلیٰ کوالٹی کے دیدہ زیب ماربلز دہری محرابیں آج بھی اپنی مثال آپ ہیں۔ قصرالزہراء مسلمانوں کے عظیم فن کا آئینہ دار اور اس پر فن خطاطی یورپ میں فروغ پذیر ہوا۔

علم کے شعبہ میں ایساکمال کہ ”جامعہ نظامیہ بغداد‘‘ پانچویں صدی سے نویں صدی تک دنیا کی عظیم ترین یونیورسٹی تھی۔ قرطبہ، غرناطہ، بغداد وغیرہ دنیا کے عظیم تاریخی اور علمی سرمایہ تصور ہوتے تھے۔ علم ہیئت و فلکیات کے میدان میں مسلمان سائنسدانوں کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ انہوں نے یونانی فلسفے کے گرداب میں پھنسے علم الہیئت کو صحیح معنوں میں سائنسی بنیادوں پر استوار کیا۔ اجرام سماوی مسلم ماہرین فلکیات کی دریافت ہیں۔ کیلنڈر کی اصطلاحات ” عمر خیام ‘‘ نے مرتب کیں۔ سورج اور چاند کی گردش، سورج گرہن، علم المیقات، سیاروں کے بارے غیر معمولی سائنسی معلومات بھی البتانی اور البیرونی جیسے عظیم مسلمان سائنسدانوں نے فراہم کیں۔

شیخ عبد الرحمن الصوفی کی کتاب ” صور الکواکب‘‘ پوری دنیا میں جدید علم فلکیات کی بنیاد بنی۔ قارئین یہاں تک بات ختم نہیں ہوتی بلکہ علم بصریات، علم النباتات، میڈیکل سائنس، سرجری، فارماکالوجی، علم امراضِ چشم، بہیوش کرنے کا نظام اور کیمسٹری وغیرہ ان تمام علوم کی بنیادیں مسلمانوں نے فراہم کیں۔ کیمسٹری کے باب میں امام جعفر صادق اور خالد بن ولید کی شخصیات تاریخ میں کیمسٹری کے بانی اور موسس کے طور پر پہچانی جاتی ہیں۔ نامور مسلمان سائنسدان جابر بن حیان امام جعفر صادق ہی کا شاگرد تھا۔ Evaporation، Sublimation اور Crystallization کے طریقوں کے موجد جابر بن حیان ہی ہیں۔ ان کی کتابیں عرصہ دراز تک یورپ کی نامور یونیورسٹیز میں نصاب میں پڑھائی جاتی رہیں۔ ابومشعر، سہروردی، ابن عربی اور الکاشانی کیمسٹری کی بنیاد رکھنے والے عظیم سرمایہ ہیں۔ عظیم مسلمانوں کے عظیم کارناموں کا اس مختصر تحریر میں احاطہ کرنا مشکل ہے۔

اس میں کوئی دورائے نہیں کہ دنیا کی تمام ترقی اور ایجادات کی بنیادیں مسلمانوں نے فراہم کیں۔ مسلمانوں کے ان تمام کمالات کا اعتراف خود یورپی دانشوروں اور مفکروں نے کیا۔ Stanwood Cobb نے کہا۔ ” یورپ کی نشاۃ ثانیہ حتمی طور پر اسلام کی مرہون منت ہے ‘‘۔

Reverend George bush نے لکھا۔
” الہامی کتابوں کے حوالہ سے کوئی بھی تاریخی انقلاب اتنے ہمہ گیر اثرات کا حامل نہیں جس قدر پیغمبر اسلام محمد ﷺ یہ کا لایا ہوا انقلاب۔ جسے انہوں نے پائیدار بنیادوں سے اُٹھایا اور بتدریج استوار کیا ‘‘۔

آج جو انسانی طاقتیں جن اصولوں اور نظام زندگی کو اپنانے کے بعد سپر طاقتیں بن چکی ہیں۔ اس نظام زندگی کی بنیاد خود مسلمانوں نے رکھی۔ سن ہجری کا اجراء، محکمہ پولیس، آب پاشی کا نظام، محکمہ فوج اور نظام عدل وغیرہ کی بنیاد خلیفہ دوئم حضرت عمر فاروق ؓ نے رکھی۔ آج دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں دودھ پیتے بچوں، معذوروں، بیواؤں اور بے آسراؤں کے وظائف مقررکیے جاتے ہیں۔ تاکہ عوام کا کوئی طبقہ بنیادی ضروریات سے محروم زندگی نہ گزارے۔ قابل فخر بات یہ ہے کہ یہ نظام بھی حضرت عمر فاروق ؓ نے سب سے پہلے نافذ کیا۔ آپ ؓ نے دنیا میں پہلی بار حکمرانوں، سرکاری عہدیداروں اور والیوں کے اثاثے ڈکلیئر کرنے کا تصور دیتے ہوئے نظام عدل قائم کیا۔ آپ ؓ نے دنیا میں پہلی بار حکمران طبقہ کے احتساب کا نظام قائم کیا۔ آپ کا یہ فقرہ آج انسانی حقوق کے چارٹر کی حیثیت رکھتا ہے۔ ” مائیں بچوں کو آزاد پیدا کرتی ہیں۔ تم نے انہیں کب سے غلام بنا لیا ‘‘۔ کہا جاتا ہے کہ لاہور کے مسلمانوںنے ایک بار انگریزوں کو دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ ” اگر ہم گھروں سے نکل پڑے تو تمہیں چنگیز خان یاد آجائے گا ‘‘۔
اس پر جواہر لال نہرو نے مسکرا کر کہا کہ ” افسوس آج چنگیز خان کی دھمکی دینے والے مسلمان یہ بھول گئے کہ ان کی تاریخ میں ایک عمر فاروق ؓ بھی تھا ‘‘۔

دوران صدارت باراک اوباما کو اپنے بچے کو سکول لیٹ پہنچانے پر اس کے استاد کی طرف سے وہ سزا دی جاتی ہے جو ایک عام طالب علم کے سکول لیٹ پہنچنے پر اس کے والد کو دی جاتی ہے۔ یہ عدل و انصاف، قانون کے یکساں اطلاق اور جزاء و سزا کا نظام عالم انسانیت کو عمر فاروق ؓ نے دیا۔ ایسے معاشرے عمر فاروق ؓ کو تاریخ کا سب سے بڑا سکندر تسلیم کرتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق آج بھی دنیا کے 245 ممالک میں حضرت عمر فاروق ؓ کا دیا ہوا نظام کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے۔

تاریخ شاہد ہے کہ جب تک مسلمانوں نے غور و فکر، علم و معرفت، تدبر، محبت و امن، رواداری، برداشت، جدت پسندی، عدل و انصاف جیسے عظیم اوصاف کو انفرادی اور اجتماعی زندگی میں شامل رکھا ساری دنیا پر حاکم رہے۔ جب مسلمان احساس کمتری میں مبتلا ہو کے اغیار کی تہذیب و ثقافت سے متاثر ہوئے تو اپنے کردار کی عظیم وراثت کو ہی فراموش کر بیٹھے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا مسلمان ایک دوسرے کی گردنیں کاٹنے لگے۔ دشمن طاقتیں ان پر مسلط ہونے لگیں۔ اعتدال پسندی کی جگہ انتہا پسندی اور شدت پسندی نے لے لی۔ مسلمانوں کی نسلیں دین فطرت کی مسخ شدہ شکل سے خوف زدہ ہوتے ہوئے لادینیت کا سفر طے کرنے لگی۔ دین فطرت انسانیت کی عظمت کا دین ہے۔ انسانیت کی معراج اور عروج و کمالات مسلمانوں کی کھوئی ہوئی میراث کی تلاش میں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).