آٹھ منٹ میں زندہ انسان کی کھال اتارنے والے کے ساتھ بارہ منٹ


میں آٹھ منٹ میں زندہ انسان کی کھال کھینچ لیتا ہوں اس نے بڑے سکون سے مجھے بتایا تھا۔
میری ریڑھ کی ہڈی میں سرد لہر دوڑتی چلی گئی، کوشش کے باوجود میں اپنے آپ کو پرسکون نہیں رکھ پارہا تھا۔ مجھے اپنے دل کی دھڑکن کی آواز محسوس ہورہی تھی۔ میری نظروں کے سامنے انٹرنیٹ کے اوپر وہ فلم آگئی جسے دیکھ کر کئی دنوں تک می بے چین اور بے قرار رہا تھا۔ اس فلم میں ایک افغان طالبان کو دکھایا گیا تھا جس نے ایک اسلام کے دشمن کے گلے پر تیز دھارچاقو چلا کر کھال کو الگ کرلیا تھا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے منٹوں میں زندہ انسان کی کھال اس طرح سے کھینچ لی تھی جیسے قصاب بکرے کی کھال کھینچ لیتا ہے۔ میں نے کسی قصاب کو زندہ بکرے کی کھال کھینچتے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔ زندہ انسان بغیر کھال کے لٹکا ہوا تڑپ رہا تھا۔ اس کی آنکھوں کا کرب میرے دماغ کے اندر بہت اندر بنے ہوئے بہت بڑے پردے پر بار بار جھماکے کے ساتھ آتا رہتا تھا۔ یہ شخص بھی اسی طرح کا ایک آدمی تھا۔

ہوا یہ کہ سی او ڈی ہلز کی جانب سے ملیر جاتے وئے شاہراہ فیصل کے جنکشن پر سرخ بتی پر عام طریقہ کار کے خلاف گاڑی روک دی تھی۔ ایک عام شکل و صورت کے پٹھان نما خوبصورت سے درمیانہ درجے کے آدمی نے کھڑکی کے شیشے پر دستک دی۔

میں نے اسے غور سے دیکھا، سفید اور کالی داڑھی کے ساتھ بظاہر وہ ایک سمجھدار آدمی لگا۔ میں نے عادت کے برخلاف سنٹرل لاک کھول کر اسے اگلی نشست پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ میں ایئرپورٹ جارہا ہوں، آپ کہاں جارہے ہیں؟ میں نے گاڑی گھماتے ہوئے سوال کیا۔

تم دنیا کے راستے پر ہو میں اللہ کے راستے پر جارہا ہوں۔ اس نے بڑے دھیمے لہجے میں پرسکون انداز سے کہا۔
میں سمجھا نہیں۔

ابھی سمجھاتا ہوں، تم گاڑی آہستہ چلاؤ۔ یہ کہہ کر اس نے اپنے گریبان کے بٹن کھول دیے۔ یہ میرے نجات کا جیکٹ ہے اور اس میں تمہاری بھی نجات ہے۔ بہتر ہے کہ کلمہ پڑھ لو اور اللہ کی طرف جانے کی تیاری کرلو۔ اس کی طرف ہم سب نے لوٹ کے جانا ہے۔ گاڑی آہستہ چلاؤ اس نے سختی سے کہا۔ پھر بتاتا ہوں کہ ہمیں کہاں پہنچنا ہے۔

سر سے نیچے تک میرے ریڑھ کی ہڈی میں ٹھنڈک دوڑتی چلی گئی، میں نے سوچا بھی نہیں تھا کہ میرے ساتھ ایسا ہوگا۔ میں نے گاڑی آہستہ کرلی اور اپنے آپ پر قابو پانے کی کوشش کے ساتھ اس کو نظربھر کے دیکھا۔ اس کی شکل پر بلا کا اطمینان تھا۔ درحقیقت وہ دبلاپتلا آدمی تھا مگر خودکش جیکٹ پر چادر اوڑھنے کی وجہ سے وہ تھوڑا وزنی سا لگ رہا تھا۔ میں نے پہلی دفعہ اس کے چہرے پر بھرپورنظر ڈالی، وہ چالیس سال سے زائد مضبوط جسم کا مالک تھا۔ چہرے پر نوکیلی داڑھی تھی جس کے زیادہ تر بال سفید تھے۔ سرخ و سفید رنگت کے ساتھ چوڑی پیشانی کے نیچے دو بڑی بڑی آنکھیں تھیں جس میں سرمہ لگایا گیا تھا۔ اس کا چہرہ جاذب نظر تھا مگر میرے اندر اس کے لئے نفرت کا ہالہ سے بن گیا تھا۔

اپنے آپ پر قابو پانے کی کوشش کے ساتھ میں نے تقریباً روتے ہوئے کہا کہ شہید ہونا اچھی بات ہے اور اگر اللہ کے راستے میں جان چلی جائے تو اس سے اچھی کیا بات ہوسکتی ہے مگر میرے چار بچے ہیں، میرے دو جڑواں بیٹے تو بہت چھوٹے ہیں، میرے مرنے کے بعد ان کا کیا ہوگا۔ کوئی بھی نیں ہے کہ جو ان کا خیال رکھ سکے، یہ گاڑی وغیرہ ٹھیک ہے مگر میرے جیسے ڈاکٹر کے پاس بچا ہوا کچھ نہیں ہوتا ہے۔ میری بیوی ایک گھریلو عورت ہے۔ میرے بغیر وہ سب لوگ ختم ہوجائیں گے۔ تباہ ہوجائیں گے، برباد ہوجائیں گے، مجھے اپنی لرزتی ہوئی آواز صاف سنائی دے رہی تھی۔
اچھا تو تم ڈاکٹر ہو۔

یہ کہہ کر وہ کچھ سوچنے لگا پھر بولا کہ جو اللہ تمہیں شہادت کے لئے چُن رہا ہے تمہیں اس اللہ پر بھروسہ نہیں ہے کہ وہ تمہارے بچوں اور بیوی کا خیال رکھے۔ تمہارے خیال میں وہ اتنا بے نیاز ہے کہ اسے تمہارے گھر والوں کی فکر نہیں ہوگی۔ تم کیسے مسلمان ہو، ساتھ ہی اس نے کہا کہ ایئرپورٹ کے موڑ سے گاڑی کو واپس شہر کی طرف موڑ کر آہستہ آہستہ چلو، میں تمہیں بتاؤں گا کہ کہاں کھڑا ہونا ہے۔

میرا گلا خشک تھا اور دل خوف کے مارے زور زور سے دھڑک رہاے تھا، اسے اپنی گاڑی پر بٹھانے کی سنگین حماقت پر جیسے میرے دل و دماغ سے آنسو بہہ رہے تھے۔ مجھے کچھ اندازہ نہیں تھا کہ یہ خودکش مجاہد کس جگہ پر پہنچنا چاہتا ہے۔ کسی اسکول کے سامنے، کسی پولیس اسٹیشن کے ساتھ، رینجرز اور پولیس کی کسی موبائل کے اوپر یا اس کا ٹارگٹ کوئی ایسی مارکیٹ تھی جہاں بے شمار لوگ موت کے گھاٹ اُتر جائیں اور اخباروں میں زبردست پروپیگنڈے کا موقع مل جائے۔

اب تک ملک بھر میں جتنے بھی خودکش حملے ہوئے تھے ان کا یہی انداز تھا۔ لڑکیوں کے اسکول، پولیس کے تھانے، فوجیوں کی تنصیبات یا بازار جہاں زیادہ سے زیادہ اموات واقع ہوں۔ میں ان سرگرمیوں سے شدید نفرت کرتا تھا مگر ہم سب بے بس و بے کس تھے اور ہماری طرح سرکار بھی بے کس تھی۔
میں نے تھوڑی دیر سوچ کر بڑی لجاجت کے ساتھ کہا کہ میں ایک ڈاکٹر ہوں جو نہایت شرافت اور ایمانداری کے ساتھ اپنا کام کررہا ہے، میں بے شمار مریضوں کا مفت علاج کرتا ہوں، کچھ خاندانوں کی کفالت کرتا ہوں، میں سمجھتا ہوں کہ خدا بے نیاز نہیں ہے۔

خدا نہیں اللہ بولو اس نے مجھے بولتے ہوئے ٹوک دیا۔
جی بہتر میں یہ کہہ رہا تھا کہ اللہ بے نیاز نہیں ہے اور یقیناً ان سب کے لئے اور میرے خاندان کے لئے کچھ نہ کچھ اسباب پیدا کرے گا مگر میرے بھائی کوئی بھی شخص میرے بچوں کو باپ کی شفقت محبت پیار نہیں دے سکے گا۔ آپ جو کہو گے میں کرنے کو تیار ہوں مگر خدارا مجھے چھوڑ دو جانے دو میری گاڑی لے جاؤ۔ میں جب تک زندہ رہوں گا تمہارا احسان مند رہوں گا، آج کے بعد آپ لوگوں کے کسی کام آسکوں تو وہ کام بھی کروں گا۔ آپ یقین کرو میرے بعد میرا خاندان تباہ و برباد ہوجائے گا، مجھے اندازہ نہیں تھا کہ میری آواز اتنی درد بھری ہوجائے گی۔

وہ زیرلب مسکرایا اور میری طرف دیکھتے ہوئے بولا کہ تم تو بڑے ڈرپوک ہو، مسلمان کو اتنا ڈرپوک نہیں ہونا چاہیے۔ زندگی موت تو اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ وہ جسے چاہے جہاں چاہے موت دیدے۔ تمہاری موت نہیں آرہی ہے بلکہ تم شہید ہو رہے ہو۔ تمہیں اپنی شہادت پر خوش ہونا چاہئیے ناکہ اس طرح سے میری منت اور سماجت کرو۔

مجھے غصہ آگیا شاید ڈیس پریٹ صورتحال میں غصہ آجاتا ہے۔ ہاں میں بزدل ہوں، مجھے زندہ رہنے کا شوق ہے، مجھے شہید نہیں ہونا ہے، مجھے نہیں مرنا ہے، اللہ کے لئے مجھے چھوڑ دو اور اگر نہیں چھوڑو گے تو میں گاڑی دیوار سے بھی ٹکرا سکتا ہوں۔ نہ جانے تمہارا کیا نشانہ ہے لیکن دیوار سے ٹکرانے سے تمہارا نشانہ بہرحال ضائع ہوجائے گا۔ میں نے غصے سے تقریباً چیختے ہوئے کہا۔

مجھے غصہ نہیں آئے گا، اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔ میں اور میرے ساتھی غصہ نہیں کرتے ہیں، ہم لوگ خاموشی سے اپنا کام کرتے ہیں، ہم نے روسیوں کو کابل سے باہر نکال دیا، ہم امریکہ کو بھی کابل سے نکال دیں گے۔ اگر میرے جیسے چند ہزار لوگ اس جنگ میں شہید بھی ہوجاتے ہیں تو کچھ فرق نہیں پڑتا۔ ہماری شہادت کے بعد اندھیرا نہیں اُجالا ہے۔

 مگر مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ اس کے لہجے میں سکون تھا اور غضب کا اعتماد اور اس کے چہرے پر نفرت جیسی کوئی چیز نہیں تھی۔ درحقیقت یہ سب کچھ اس نے مسکراتے ہوئے کہا تھا۔

مضمون کا بقیہ حصہ پڑھنے کے لئے “اگلا صفحہ” پر کلک کریں

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3