منٹو، تم نے ” کھول دو“ ادھورا کیوں چھوڑا؟


ہیر دا قصہ ہیر نہ لکھیا، گال رہی مستور (ہیر کی کہانی ہیر نے نہیں لکھی، اسی لئے بات نامکمل رہی)۔ منٹو نے جو دیکھا، وہ لکھا۔ ”کھول دو“ کا اختتام وہ کیسے لکھتا۔  وہ تو سکینہ اور سراج کو لکھنا تھا۔

سکینہ اور سراج کو تو آپ سب جانتے ہیں۔ سراج سکینہ کو لے کر ایک محفوظ علاقے میں منتقل ہو چکا تھا۔ جہاں اردگرد سارے مسلمان آباد تھے۔ سب ہی اپنے تھے سب ہی نے تقسیم کی سختیاں جھیلی تھیں۔ اس لیے سراج حوصلے میں تھا۔ سکینہ کی حالت نہیں سدھر رہی تھی۔ کسی بھی مرد کی آواز پر وہ بری طرح لرز جاتی اور مرد تھے کہ بپتا سننے کیلئے اُمڈے پڑ رہے تھے۔ مگر یہ کیا کہ کوئی عورت نہیں آتی تھی۔ شاید وہ عورتیں پاک رہ گئی ہوں گی۔ ایک پاکباز عورت کا کیا کام ایسی بھیانک اور ننگی کہانی سے۔۔۔

”دور رہو سکینہ سے“ ہر مرد کی سرگوشی گھروں کے آنگن میں سرسراتی رہتی تھی۔ اور عورتیں دور رہتی تھیں۔ سراج کسی کو بلا کر نہیں لاتا تھا کہ ہم باپ بیٹی کی حالت اور حالات دیکھو مگر ہمدرد مرد پھر بھی آجاتے تھے۔ ہر شام دھندوں سے فراغت کے بعد یہی ایک کام ہوتا تھا سب کو کہ سکینہ کا پتہ کریں۔ سکینہ ہر بار کنڈی کھٹکنے پر سہم جاتی۔ اب وہ ازاربند کس کر پکڑ لیتی تھی۔ دونوں ہاتھ اسی مشقت میں مصروف رہتے تو کان کھل جاتے۔ ان کانوں سے بس روزانہ ایک جیسے جملے ٹکراتے

”یہ کیسے ہو گیا سراج الدین۔“

”ہمیں یقین نہیں آتا کہ وہ مسلمان تھے”۔

”کیا سکینہ نے دیکھا تھا ختنہ ہوا ہوا تھا اُن چھوکروں کا۔ کیا سکینہ نے بتایا؟ وہ تو بچی ہے اسے کیا پتہ ہندو مسلمان کا “

”ارے سراج میاں خود سے باتیں نہ بناﺅ۔ بھلا سکینہ اپنے باپ کو کیونکر یہ سب بتائے گی“۔

ایک جملہ جو سکینہ سے ازار بند چھڑا دیتا وہ یہ تھا کہ ”بڑی بے حیا لڑکی ہے جو اس قدر بے باکی سے بے عزتی کو باپ کے سامنے اور پورے محلے کے سامنے رکھ دیا ہے“۔

سکینہ لڑکھڑا کر اٹھتی اور دروازہ بھیڑ کر وہیں دروازے کے پاس ڈھیر ہو جاتی۔ پورا وجود لرزنے لگتا۔ وہ سوچتی کہ کتنی خوش نصیب ہوتی وہ کہ اس کی حالت کے ذمہ دار اُسے کبھی پھینک کر نہ جاتے۔ ساتھ رکھتے یا وہ مرجاتی۔ مگر دونوں کام ہی نہ ہوئے۔ سراج خوش تھا جب اُسے بیٹی زندہ ملی تھی۔ مگراب اس کی خوشی پچھتاوے میں پچھتاوے میں ڈھل رہی تھی۔ کہ سکینہ اُسے ملی ہی کیوں۔ پھر بھی باپ تھا روز ایک بار آکر ادھ مرے جسم سے پوچھتا کیسی ہے میری بچی؟

وہ کہتی ٹھیک ہوں، بابا

سراج صحن میں آکر صرف اتنا کہتا، ”جھوٹ بولنا سیکھ گئی ہے آخر کار تو بھی۔ تب جھوٹ کیوں نہ بول دیا جب عزت کھوئی تھی کہ کیوں لیا اپنوں کا نام چپ ہی کیوں نہ رہ گئے ہم۔ اپنا سمجھ کر کسی کو حال ہی کیوں دیا”۔

ہر کاٹ ڈالنے والے جملے کے ساتھ سکینہ کو ایک جسم خود پر اوندھا پڑا محسوس ہوتا۔ سکینہ چیخنا چاہتی تھی مگر اب کوئی مضبوط ہاتھ اس کی آواز کو گھونٹ نہیں رہا تھا۔ اس کی چیخ حلق میں پھنس کر رہ جاتی۔ ان ہاتھوں نے جیسے اسے بھنبھوڑا تھا، وہ ہاتھ ایک کرب کی صورت اس کا دم ہی گھونٹ دیتے تھے۔ وہ مچلنا چاہتی تو ان بھاری بھدے گوشت کی توندوں کے وزن کا احساس جسم کو ساکت کر دیتا۔ گھڑوں پانی بہا کر بھی وہ اپنے نازک اعضا سے بہنے والے لہو کا احساس ذہن سے نکال نہ پاتی۔

کیونکہ کہ اب اپنوں کا نام سکینہ بھی سوچتی اور مرتی رہتی کہ یہ کام اگر محافظ نہ کرتے تو وہ بھی شاید! شاید کبھی نہ کبھی پاک ہو جاتی۔ سکینہ کو اپنا معصوم وجود نہیں مل رہا تھا۔ ہاں سراج کو بیٹی اور اہل محلہ کو ایک افسانہ مل گیا تھا۔

مسلمانوں کی یعنی اپنوں کی بستی میں سکینہ کے ساتھ ہونے والے ستم کی روز کچہری لگتی۔ اہم ترین سوال جو آج تک تاریخ میں رقم ہے کہ جھوٹ بولتی ہے سکینہ کہ وہ رضاکارلونڈے مسلمان تھے۔ بے غیرت لڑکی مسلمانوں پر، یعنی اپنوں پر، محافظوں پر الزام دھرتی ہے۔ ہمیں خود پر یہ تہمت قبول نہیں۔ سراج دو سال یہ سب تازیانے سہہ پایا اور خدا کے پاس فریاد کرنے چلا گیا اور سکینہ۔۔۔۔

سکینہ واپس ان محافظوں کے پاس گئی اور کہا کہ جو تم نے کرنا تھا کر لیا۔ پھر مجھے زندہ کیوں چھوڑا اور چھوڑا بھی کیوں؟ساتھ رکھ لو۔ مگر محافظوں نے نہیں رکھا کیونکہ سکینہ ایک تہمت ہے اور اب سکینہ بھیگے دل اور بھیگی آنکھوں سے کاغذوں پر الٹی سیدھی لکیریں کھینچتی رہتی ہے۔

سکینہ کو لکھنا نہیں آتا ورنہ منٹو کے نام ایک خط لکھتی کہ منٹو چاچا، تم نے ”کھول دو “کیوں لکھا؟ اور لکھا تو ادھورا کیوں چھوڑ دیا؟ منٹو چاچا، تم نے پاکستان میں سات برس گزارے اور مر گئے۔ مجھے جیتے رہنے کی سزا دے گئے۔ ستر برس سے یہاں، اپنوں کے درمیان، زندہ ہوں ۔۔۔ اور اب تو کھولنے کو بھی کچھ باقی نہیں بچا۔۔۔۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).