بے ربط تخیل، بکھرے آنسو، ٹوٹتے تارے، بجھتے مشال


جب سے دنیا میں روشنی کا ظہور ہواہے۔تب سے اندھیر نگری کے باسیوں اور عقل کے دشمنوں نے ایسے کئی مشال بجھا‎ۓہیں۔تب سے منصور دارپہ چڑھا ہے۔ انسانیت کئ بار سسک سسک کے مری ہے۔ اور مٹی کی سوندھی خوشبو بہتے خون کے فواروں سے آلودہ ہو ئی ہے۔تب سے شہید کا جام شہادت حق کے منبر پر ٹوٹے پیمانے سے رس رس کر گرا ہے۔

میں اک ٹوٹا پیمانہ

اک چھلکتا ہوا جام

اک بے ربط تخیل

اک فسانہ بے انجام

اک کہانی درد بھری

اک ادھورا پیام

یہ ظلمتوں کا سفر کتنا طویل اور اعصاب شکن ہے۔اردگرد باطل شب سیاہ کی مانند پھٹکار رہا ہے۔ ظلمتوں کا عجب دوردورہ ہے۔گھپ اندھیرا اور قیامت کا سناٹا ہے۔ پھر کہیں خون فوارے کی مانند چھوٹا ہے ۔ جنگل والا قانون بھی ایسا نہیں ھوگا شاید!

میں اندھیری رات کا مسافر

میں ظلمتوں کا باسی

 جنگلوں میں رین بسیرے

میں جوگی سنیاسی

مجھے بھٹکا رہا ہے

  گھپ اندھیرا سیاسی

پھر بزم باطل کا نشہ سر چڑھ کر بولا ہے۔رونق شیطان جلوے دکھا دکھا کےخلوت درویش کے درپے ہے ۔کرگسوں کے منڈلاتے ہو‎ۓ غول کسی شاہیں کی تلاش میں ہیں۔پھر اک شاہیں تڑپ تڑپ کے جان دیتا ہے اور کرگس خون آلود ٹوٹے ٹوٹے بدن کو بھنبھوڑ ڈالتے ہیں۔

میں رونق بزم سے دور

خلوتوں کو بھایا

اک مدہم سی روشنی

اک مدہم سا دیا

میں کربلا کا لہو

حق نے مجھے پایا

پھر کوئی تارا سا ٹوٹتا ہے ۔ پھر درد نمکین ہو کے پلکوں سے چھلکتاہے۔ موسیقی کی دھن سے مستی غا‎ئب ہوجا تی ہے اور خوشی کی بانسری غم کی بین میں بدل جاتی ہے۔ شب غموں کی سیاہ چادراوڑھ لیتا ہے۔ نغمے نالہ پر سوزکی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ اور رب کے دلکش کائنات میں جھرنوں کا شفاف پانی سرخی مائل ہو جاتا ہے۔ پھر اشرف المخلو قات سے چند وحشی رحمان کی راہ چھوڑ کر شیطان کے گمراہ طلسم کدے میں بھٹک جاتے ہیں۔

میں اک ٹوٹا تارا

فلک فلک بکھرا

میں اک بکھرا آنسو

چھلک چھلک گرا

میں اک نالہ پرسوز

غموں کا پیام

اک فسانہ شب غم

اک داستان خیام

پھر نشہ حق میں سرشار کوئی مست خمار بن جاتا ہے۔ باطل کا مکروہ چہرہ اور کریھہ شکل اختیار کر لیتا ہے۔ کوئی منصور سر دار چڑھ کے جنون بنتے ہو‎ۓ حق کی صدا بلند کرتا ہے ۔ باطل کی آواز دب جاتی ہے ۔ اور گلشن حق میں رنگین بہار آجاتی ہے ۔ کہ عشق کے پروانوں کی قربانی رائیگاں نہیں ہوتی۔

نشہ حق سے سرشار

اک مست خمار

اک کھلتا ہوا گل

اک رنگین بہار

 اک پروانہ عشق

اک بھرپور جنون

میں سر دار چڑھا

منصور مجنون کوئی

اک ہو کا عالم ہے، ظلم کا دور دورہ ہے۔ حق پیاس سے دوبھر ہے۔ پر استقامت اور صبر ہی حق کی معراج ہیں۔ کہ حق کے غالب ہونے کی آس اٹل ہے۔

 اک موہوم سی امید

 اک ٹوٹتی ہوئی آس

کبھی تو حوض کوثرسے

بجھے گی اپنی پیاس

کہ شکست یزید ہے

 شہادت حسیں(رض) کی قرطاس

کہ نوحہ شہید کیا لکھیں۔ وہ تو حق کے دربارمیں اک زندہ جاوید لہو کی حقیقی داستان ہے۔ کہ ماتم کیا کریں، اک پروانہ عشق الہی میں تڑپ تڑپ کے فانی جان کے درپے ہے۔

 شہید اک زندہ جاوید

 لہو کی داستان

اک پروانہ حق

کہ سر بہ زندان

پھر مظلوم کی آہ سے عرش لرز آٹھتا ہے ۔ پھر صداۓ محکوم سے زمین کانپ آٹھتی ہے۔ پھر سسکیاں نیلگوں آسمان سے اوپر اٹھتی ہیں۔اور دو جہاں کے رب کی رحمت جوش میں آجاتی ہے۔ تو مجھے پکار تو سہی کہ میں تیرے شہ رگ سے بھی زیادہ تجھ سے قریب ہوں۔

میں اک نداۓ محروم

صداۓ درد مظلوم

کوئی مجھے سن تو لے

زمانہ بن رہا ہے محکوم

آہ، سسکیاں ، چیخیں اور درد وغم ضمیر کو جگانے کیلۓ کچوکے لگا رہے ہيں ۔ ارے اٹھ جاگ، ذرا مظلوم کی صد ابن ۔ ارے خواب غفلت سے بیدار، ذرا محروم کی ندا بن ۔ ارے خاموش تماشائی نہ بن ،محکوم کی دعا بن ۔

دخلیل تر کعبی دا کعبہ دہ لویہ  (خلیل کے کعبے سے عظیم ہے یہ کعبہ )

که آباد کا څوک ویران حرم ده زړه  (کہ آباد کرے کوئی دل کا ویران حرم) رحمان بابا

شاعر کہتا ہے۔

تیرے کائنات میں دو جہاں کے رب عجب منظر دیکھا

کہ ہم نے ظلمت شب کو رونق صبح سے بہتر دیکھا

لوگ سب رات کی گرفت میں تھے

صبح کی بات بتاتے کس کو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).