کشمیر ریپ: ‘اسے ہم اپنے قبرستان میں دفن بھی نہ کر سکے’
اولاد کے لیے ایک ماں کے سینکڑوں سوالات ہوتے ہیں لیکن اس ماں کے ذہن میں کیسے کیسے سوال ابھر رہے ہوں گے جس کی آٹھ سالہ بیٹی کے ساتھ اجتماعی ریپ کیا گیا ہو؟
اس ماں کے کتنے سوالات ہوں گے جس کی بچی کے ساتھ ہونے والے جرم نے مذہبی خلیج کو مزید گہرا کر دیا ہو؟
‘ہماری بچی۔۔۔ اس نے کسی کا کیا کھویا؟ کیا گم کیا؟ کیا چوری کی تھی؟ انھوں نے اسے کیوں مارا؟
‘اسے اس طرف دور لے گئے۔ پتہ نہیں گاڑی میں لے گئے یا کیسے لے گئے۔ کس طرح مارا، کچھ پتہ نہیں۔
‘پتہ نہیں اس کی جان کیسے لی؟’
اس کے سوال ہیں کہ ختم ہی نہیں ہو رہے ہیں۔ ایک کے بعد ایک قطار باندھے چلے آ رہے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ماں کا درد پھوٹ نکلا ہو۔
جموں کے ادھم پور کے دودھر نالا کی پہاڑیوں پر جب ان کے سوالوں کی جھڑیاں لگیں تھیں اسی وقت میرے ذہن میں آٹھ سال کی اس معصوم کی شکل ابھر رہی تھی جو کہ اجتماعی ریپ کا شکار ہوئی تھی۔
بالکل ماں جیسی شکل، ویسی چمکتی ہوئی بڑی بڑی آنکھیں اور گورا چٹا رنگ۔
یہ بھی پڑھیے
٭ انڈیا میں ریپ کے بڑھتے واقعات
٭ کشمیر: لڑکی کے قتل کیس میں نیا موڑ
٭ ’انڈیا میں ریپ کے جھوٹے دعوے ایک مسئلہ‘
پھر میرا ذہن لوٹ آیا۔ اس کی ماں کہہ رہی تھی کہ ‘بہت خوبصورت اور ہوشیار تھی میری بیٹی، جنگل میں جا کر واپس آ جاتی تھی۔
‘لیکن اس دن وہ لوٹ کر نہیں آئی اور پھر ہمیں اس کی لاش ملی۔’
وہیں آس پاس بھیڑیں، بکریاں اور گائیں تھیں۔ بکروالی کتے رات کی ٹھنڈک کے بعد زنجیروں میں بندھے پڑے دھوپ سینک رہے تھے۔ گھوڑے اپنے بچوں کے ساتھ چارا کھانے میں مشغول تھے۔
اس بچی کو بھی گھوڑوں کا بہت شوق تھا۔ اس کی بہن نے بتایا کہ اسے کھیلنے کا بہت شوق تھا اور وہ بہت اچھی طرح گھڑسواری کر سکتی تھی۔
یہ بھی پڑھیے
٭ انڈیا: ریپ معاشرے کی بےحسی کا عکاس
٭ ’قبرستان کی ضرورت نہیں، سب کو جلانا چاہیے‘
٭ انڈیا: گینگ ریپ کی شکایت پر پولیس کے غیرمہذب سوال
اس دن وہ گھوڑے لے کر ہی کٹھوعہ کے جنگل میں گئی تھی جب اسے اغوا کر لیا گيا اور سات دنوں تک اجتماعی ریپ کے بعد لاش کو جنگل میں پھینک دیا گيا۔
غمزدہ ماں بتاتی ہیں: ‘پہلے میری تین بیٹیاں تھیں۔ اب دو ہی رہ گئی ہیں۔’
اپنی اس بیٹی کو انھوں نے اپنے بھائی کو گود دیا تھا کیونکہ بھائی کی بیٹی کی ایک حادثے میں موت ہو گئی تھی۔
حادثے کے وقت بچی کے اصل ماں بات سانبا میں ڈیرہ ڈالے ہوئے اور ان کی بچی اپنے ماموں کے ساتھ کٹھوعہ کے اس گاؤں میں رہ رہی تھی۔
سات دنوں کے بعد بھی لاش کا حاصل کرنا بہت آسان کام نہیں تھا۔
بچی کے والد نے وضاحت کی: ‘پولیس والے یہ کہنے لگے کہ آپ ہی کی بکروال برادری میں سے کسی نے اسے مار ڈالا ہو گا۔ وہ کہہ رہے تھے کہ گاؤں والے تو ایسا برا کام نہیں کر سکتے۔’
بچی کی ماں نے کہا: ‘اپنی موت مر جاتی تو صبر کر لیتے۔ سمجھتے کہ مر گئی۔ دنیا مرتی ہے سو وہ بھی مر گئی۔’
جبکہ بچی کے والد نے کہا: ‘ہم اپنی بیٹی کو اپنے قبرستان میں دفن بھی نہیں کر سکے۔ اسے ہمیں رات میں ہی دوسرے گاؤں لے جانا پڑا۔’
- شیاؤمی: چینی سمارٹ فون کمپنی نے الیکٹرک کار متعارف کروا کر کیسے ٹیسلا اور ایپل دونوں کو ٹکر دی - 29/03/2024
- خسارے میں ڈوبی پاکستان کی قومی ایئرلائن کو ٹھیک کرنے کے بجائے فروخت کیوں کیا جا رہا ہے؟ - 29/03/2024
- غزوہ بدر: دنیا کی فیصلہ کن جنگوں میں شمار ہونے والا معرکہ اسلام کے لیے اتنا اہم کیوں تھا؟ - 29/03/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).