عدالت میں سیاست پر بار کونسلز کا ردعمل


سندھ بار کونسل کے زیر انتظام ایک آل پاکستان بین الصوبائی بار کونسلز رابطہ کمیٹی اجلاس پچھلے دنوں کراچی میں منعقد ہوا جس میں سندھ بار کونسل، پنجاب بار کونسل، بلوچستان بار کونسل، خیبر پختونخوا بار کونسل اور اسلام آباد بار کونسل کے نمائیندگان نے شرکت کی۔ یہ اجلاس سپریم کورٹ کی کی طرف سے غیر معمولی جوڈیشل ایکٹویزم، جسٹس دوست محمد خان کی ریٹائرمنٹ پر ان کے اعزاز میں ریفرینس کا اہتمام نہ کرنے، جسٹس قاضی فائز عیسی کی تعیناتی کے خلاف ماضی میں دائر کردہ درخواست پر اعتراض دور کر کے اچانک سماعت کے لیے مقرر کرنے اور سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس منیب اختر کی سنیارٹی کے لحاظ سے تین ججوں کو بائی پاس کرکے سپریم کورٹ میں تعیناتی کے حوالے سے پشاور، بلوچستان اور کراچی بار ایسوسی ایسوسی ایشنز / کونسلز کی طرف سے تشویشی قراردادیں منظور ہونے پر مذکورہ معاملات کا بالخصوص اور دیگر متعلقہ معاملات کا جائزہ لینے کے لیے بلایا گیا۔

اس اجلاس میں متفقہ طور پر منظور ہونے والی پہلی قرارداد یہ ہے ”یہ اجلاس پاکستان کی بقاء، خوشحالی اور ترقی کے لیے جمہوری اداروں، آزاد عدالتی نظام کو ضروری سمجھتا ہے۔ اجلاس کی نظر میں مضبوط خود مختار عدالتی نظام اور مضبوط پارلیمنٹ ہی مملکت پاکستان کے مسائل کو حل کر سکتی ہے۔ ماضی میں عدالتی امور میں مداخلت کی وجہ سے مارشل لاء کے حکمرانوں نے اپنے مفاد میں فیصلے کروائے جس سے ملک میں جمہوری نظام کو نقصان پہنچا اور عوام حقیقی جمہوریت کے ثمرات سے محروم رہے۔ ماضی میں مولوی تمیزالدین کا مقدمہ، ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی، نصرت بھٹو کا کیس اور ظفر علی شاہ کیس نے عدالتی سسٹم پر داغ لگایا اور پاکستان میں جمہوری اور عدالتی نظام کو کمزور بنایا۔ اجلاس موجودہ جوڈیشل ایکٹویزم کو تشویش کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ اجلاس کی نظر میں غیر معروف فیصلے عوام کے اندر عدالتی سسٹم سے اعتماد اٹھ جانے کا باعث بنتے ہیں۔ اجلاس کی نظر میں پاکستان کے تمام ادارے اپنے حدود میں رہ کر کام کریں تاکہ پاکستان میں جمہوری رویے اور اداروں کو مضبوطی اور تقویت حاصل ہو“۔

اجلاس میں جسٹس منیب اختر کی out of turn سپریم کورٹ میں تعیناتی کے پیش نظر متفقہ طور پر یہ مطالبہ بھی کیا گیا کہ ججز کی elevation کے وقت الجہاد ٹرسٹ کیس میں دیے گئے رہنما اصول کو مد نظر رکھا جائے اور out of turn elevation سے گریز کیا جائے اور سینئر جج کو ترقی دی جائے۔ اجلاس کی نظر میں الجہاد ٹرسٹ کیس میں وضع شدہ اصولوں سے انحراف شکوک و شبہات پیدا کرتا ہے۔ اجلاس کی نظر میں No Objection دینے والا جج ان اصولوں سے انحراف کا مرتکب ہوتا ہے۔ اجلاس میں مطالبہ کیا گیا کہ No Objection دینے والے سینئر جج کو پینشن پر بھیجا جائے تاکہ اصول اور قانون کی خلاف ورزی نہ ہو۔ اجلاس میں اٹھارویں ترمیم کے خلاف سازش کی مذمت بھی کی گئی اور متفقہ طور پر قرارداد منظور کی گئی کہ اٹھارویں ترمیم پر حملہ صوبائی خودمختاری پر حملہ ہے اور مارشل لاء کا راستہ کھولنے کی سازش ہے۔

اسی اجلاس میں موجودہ احتسابی عمل کے حوالے سے قرارداد ان الفاظ میں متفقہ طور پر منظور کی گئی ”یہ اجلاس موجودہ احتساب کے عمل پر تشویش کا اظہار کرتا ہے۔ اجلاس کی نظر میں across the board احتساب کا عمل شفاف اور بلا تفریق ہونا چاہیے۔ اجلاس کے مطابق احتساب کے عمل کا دائرہ جج اور جنرل تک بڑھا دیا جائے تاکہ کرپشن سے پاک پاکستان کا خواب پورا ہو سکے“۔

یاد رہے کہ یہ اجلاس 7 اپریل کو منعقد ہوا تھا اس اجلاس سے ایک روز قبل وکلاء کی اعلی ترین باڈی پاکستان بار کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس سپریم کورٹ کی بلڈنگ میں منعقد ہوا جس کا مقصد چیف جسٹس کے مذکورہ اقدامات کے خلاف پاس کی جانے والی مختلف صوبائی بار ایسوسی ایسوسی ایشنز کی قراردادوں کا جائزہ لینا تھا۔ پاکستان بار کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی کے اس اجلاس سے ایک روز قبل ہی جسٹس قاضی فائز عیسی کی تعیناتی کے خلاف دائر مقدمہ سپریم کورٹ کی جانب سے خارج کر دیا گیا تھا۔ اس مقدمے میں دلچسپ صورتحال اس وقت دیکھنے میں آئی جب بیرسٹر علی ظفر نے یہ کہہ کر کہ وہ لاہور ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشنز کی نمائندگی کررہے ہیں مقدمہ میں فریق بننے کی استدعا کی اور قاضی فائز عیسی کو ہٹائے جانے کے مقدمہ کے حق میں دلائل دیے جنہیں سپریم کورٹ کی طرف سے سنا تو گیا لیکن ان کی استدعا قبول نہ کی گئی۔

پاکستان بار کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی کے مذکورہ اجلاس میں بیرسٹر علی ظفر کے مذکورہ فعل پر بھی تشویش ظاہر کی گئی اور ارکان کی جانب سے اس امر کو مشکوک قرار دیا گیا کہ انہیں سپریم کورٹ یا لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کی نمائندگی کا کوئی اختیار دیا گیا تھا۔ سینئر وکیل فیصل صدیقی نے اس فعل کی پرزور مذمت کی اور تشویش کا اظہار کیا کہ بیرسٹر علی ظفر مزکورہ بار ایسوسی ایشنز کی جانب سے بغیر کسی authorisation یا قرارداد پیش کیے کیسے پیش ہو گئے۔ انھوں نے اس امر پر بھی حیرت کا اظہار کیا کہ سپریم کورٹ نے ان سے مذکورہ بار ایسوسی ایشنز کی جانب سے باقاعدہ authorisation پیش کرنے کا کہے بغیر کیسے سن لیا۔ پاکستان بار کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی نے ان تمام امور کا تفصیلی جائزہ لینے کے لیے 21 اپریل کو جنرل ہاوس کا اجلاس بلانے کا فیصلہ کیا ہے۔

اس سے قبل 28 مارچ کو کراچی بار ایسوسی ایشن نے جسٹس قاضی فائز عیسی کے خلاف دائر مقدمہ میں سخت الفاظ میں سوال اٹھائے تھے کہ کیا اس مقدمہ کا اچانک سامنے آنا محض اتفاق ہے یا غیر جمہوری قوتوں کی جانب سے آزاد خیال ججوں کو ڈرانے دھمکانے کی کوشش ہے۔

یاد رہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسی نے مسلم لیگ ن کے شکیل اعوان کی جانب سے شیخ رشید کے خلاف دائر مقدمہ میں سماعت کے دوران کہا تھا کہ ان تمام مقدمات میں جن میں امیدواروں نے اپنے کاغذات نامزدگی میں غلط معلومات فراہم کی ہیں ان سب پر پانامہ کیس کے فیصلے کا اطلاق ہونا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر شیخ رشید نے اپنے کاغذات نامزدگی میں تمام اثاثے ظاہر نہیں کیے تو انہیں بھی نا اہل قرار دیا جانا چاہیے۔ اسی طرح جسٹس قاضی فائز عیسی نے فیض آباد دھرنے کے حوالے سے از خود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران تحریک لبیک کے سربراہ خادم حسین رضوی کے ذرائع آمدن کا سراغ لگانے میں ناکامی پر انٹیلیجنس ایجنسیوں بالخصوص آئی ایس آئی کی کارکردگی پر ناگواری کا اظہار کیا تھا۔

اس سے قبل پشاور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن نے ایک قرارداد کے ذریعے جسٹس دوست محمد خان کی ریٹائرمنٹ پر سپریم کورٹ کی جانب سے ان کے اعزاز میں ریفرنس کا اہتمام نہ کرنے پر شدید رنج کا اظہار کیا۔ پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کی جانب سے پشاور کے وکلا کے تحفظات چیف جسٹس آف پاکستان کو پہنچائے گئے۔ اس دوران یہ بات بھی گردش کرتی رہی کہ چیف جسٹس آف پاکستان کی جانب سے جسٹس دوست محمد خان سے ان کی طرف سے اپنےریفرنس پر کی جانے والی تقریر شئیر کرنے کے لیے کہا گیا تاکہ اس کے مندرجات کا جائزہ لیا جا سکے۔ جسٹس دوست محمد خان کی طرف سے تقریر دکھانے سے انکار پر ریفرینس منسوخ کر دیا گیا۔ البتہ سپریم کورٹ کے رجسٹرار کی جانب سے پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کو لکھے جانے والے خط میں ان الزامات کو بے بنیاد قرار دیا گیا۔ مذکورہ خط میں لکھا گیا کہ جسٹس خان نے 19 مارچ کو ( جو کہ سپریم کورٹ میں ان کا آخری دن تھا) رجسٹرار کو نوٹ بھیج کر آگاہ کیا کہ وہ اس دن کسی بینچ میں نہیں بیٹھیں گے اور صرف چیمبر ورک کریں گے۔ خط میں مزید بتایا گیا کہ بعد ازاں چیف جسٹس ثاقب نثار، جسٹس آصف سعید کھوسہ اور جسٹس اعجاز افضل نے ان کو ایسا نہ کرنے پر قائل کرنےکے لیے ان کے پاس جانا چاہا لیکن جسٹس دوست محمد خان نے اس بات کی وضاحت کرنے کہ وہ کیوں ریفرینس یا کسی کھانے میں شرکت نہیں کرنا چاہتے خود چیف جسٹس سے ملاقات کی۔ خط میں مزید تحریر کیا گیا کہ ان کی خواہش کا احترام کرتے ہوے کھانے یا ریفرینس کی بجائے تمام ججوں کو چائے پر مدعو کیا اور بعد ازاں انہیں یادگاری شیلڈز بھی پیش کی گیئں۔

اپنی ریٹائرمنٹ سے چند ہفتے پہلے جسٹس دوست محمد خان نے پشاور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کی تقریب سے خطاب کرتے ہوے سیاسی جماعتوں کو یہ بات سمجھائی تھی کہ وہ اپنے سیاسی تنازعات پارلیمنٹ میں ہی حل کیا کریں اور ان معاملات کو عدالتوں میں لانے سے گریز کیا کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کے معاملات کو عدالتوں میں لانے سے مارشل لاء کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ اسی طرح دسمبر 2017 میں نیب سے متعلق ایک کیس کی سماعت کے دوران جسٹس خان نے ججوں اور جرنیلوں کے احتساب کے خیال کی حمایت کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ across the board احتساب ضروری ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ عام شہریوں کی طرح ایک شفاف طریقہ کار کے تحت ججوں اور جرنیلوں کا احتساب بھی ہونا چاہیے۔ انھوں نے ریمارکس دیے تھے کہ اس ضمن میں تمام سٹیک ہولڈز سے رجوع کر کےایک قانون بنایا جانا چاہیے۔ ماضی میں بطور چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ جسٹس دوست محمد خان نے مسنگ پرسنز کو بازیاب کرنے کے حوالے سے کئی ڈائریکشنز دیں۔ ان کی کاوشوں کی وجہ سے تقریبا 2500 مسنگ پرسنز کا سراغ لگایا گیا تھا اور 2013 میں بازیاب کروائے گئے 900 افراد کو مختلف انٹرنمنٹ سینٹروں میں بھیجا گیا تھا۔ یاد رہے کہ جسٹس دوست محمد خان اس بینچ کا بھی حصہ تھے جس نے سینیٹر نہال ہاشمی کو توہین عدالت کے مقدمہ میں ایک ماہ قید کی سزا سنائی تھی، البتہ جسٹس دوست محمد خان نے اس فیصلے کی تائید نہیں کی تھی۔

ان تمام حقائق کو بیان کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ ہم لاکھ انکار کریں لیکن حقیقت یہی ہے کہ عدالتی احاطوں میں سیاسی توڑ جوڑ کا تاثر گہرا تر ہوتا جارہا ہے جو خدانخواستہ کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔ اس کی بظاہر وجہ سپریم کورٹ کا خالصتا سیاسی نوعیت کے مقدمات میں غیر معمولی طور پر متحرک ہونا ہے۔

ابھی صرف ایک سال پہلے ہی کی بات ہے کہ موجودہ چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار نے تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان کی نا اہلیت کے لیے دائر مقدمہ میں حنیف عباسی کے وکیل سینئر ایڈووکیٹ اکرم شیخ سے پوچھا تھا کہ ”آپ سیاسی گند عدالتوں میں کیوں لے آتے ہیں؟ “ لیکن آج سپریم کورٹ ”ازخود“ بری طرح سیاسی نوعیت کے مقدمات سے لتھڑی ہوئی نظر آتی ہے۔

ویسے تو 2009 سے ہی یہ رجحان دیکھنے میں آرہا ہے لیکن حالیہ دنوں میں اس امر میں غیر معمولی تیزی آئی ہے کہ ہمارے ہاں عدالتیں دنیائے قانون میں رائج political question doctrine کو یکسر نظر انداز کیے ہوے ہیں۔ اس ڈاکٹرائن کے مطابق عدالت کے سامنے آنے والے کچھ سوالات اپنی بنیادی حیثیت میں قانونی کی بجائے سیاسی نوعیت کے ہوتے ہیں جن پر سماعت کرنے اور فیصلہ دینے سے عدالتوں کو اجتناب کرنا چاہیے اور ان معاملات کے حل کو سیاسی پراسیس پر چھوڑ دینا چاہیے۔ یہ ڈاکٹرائن اس بنیاد پر قائم ہے کہ ہر معاملہ jucticiable (قانونی طور پر عدالت کے ذریعے قابل تصفیہ ) نہیں ہوتا۔ خاص طور پر گورننس، پالیسی، سیاسی کارکردگی اور سیاستدانوں کے عمومی کردار وغیرہ خالصتا سیاسی معاملات سمجھے جاتے ہیں اور ان معاملات کو صرف و صرف سیاسی انداز سے ہی پرکھا اورحل کیا جانا مناسب خیال کیا جاتا ہے۔ چونکہ ان معاملات کو عدالتوں کی طرف سے قانون کے مطابق حل کرنا ممکن نہیں ہوتا اسی لیے جدید دنیا میں یہ کام سیاسی اداروں کو سونپے گئے ہیں۔ یہی وہ معاملات ہیں جن کی بنیاد پر لوگ اپنے ووٹ کے ذریعے سیاستدانوں کو منتخب اور ریجیکٹ کرتے ہیں۔ اگر اب بھی اس ڈاکٹرائن کو مد نظر رکھ کر سیاسی سوالات کو حل کرنے کی بجائے قانونی سوالوں کی جانب توجہ نہ دی گئی تو ہمارے ٹوٹے پھوٹے politico legal infrastructure کو ناقابل تلافی نقصان پہنچنے کا شدید اندیشہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).