دبک کے بیٹھے رہو، کہیں لو نہ لگ جائے


لاڑکانہ میں نشے میں دھت مقامی بااثروں کے ہاتھوں گلوکارہ ثمینہ سندھو کے بھری محفل میں قتل کی میں نے بھی ٹویٹر اور فیس بک پر شدید مذمت کی اور اپنے ٹی وی ٹاک شو میں درد بھری آواز میں ’ہم کس پستی میں گر گئے ہیں’ ٹائپ دکھ کا اظہار کیا۔ اس بہیمانہ قتل کے بعد میں احتجاجی دستخطی مہم میں حصہ لینے کو بھی تیار ہوں۔

مگر ثمینہ سندھو جیسے لاوارثوں کے لیے کسی ریلی یا دھرنے کا حصہ بننا میرے لیے زرا مشکل ہے۔ ایک تو موسم بہت گرم ہے۔ پھر یہ کہ ثمینہ کا تعلق گانے والے طبقے سے ہے۔ کیا یہ کافی نہیں کہ اس کی برادری کے مٹھی بھر گلوکاروں اور سازندوں نے کئی قصبات میں مظاہرے کیے اور انتظامیہ نے نوٹس بھی لے لیا۔

آپ کی طرح مجھے بھی ہزارہ قوم کی نسل کشی پر بہت صدمہ ہے۔ دل کڑھتا ہے کہ کوئٹہ میں وہ کئی کئی دن تک کھلے آسمان تلے صرف اس مطالبے کے لیے وقتاً فوقتاً دھرنا دیتے رہتے ہیں کہ انہیں بھی بلا خوف جینے کا حق دیا جائے۔ کیسی شرمناک ہے یہ بات کہ کوئی وزیر، مشیر یا غیر ہزارہ معتبر اظہارِ یکجہتی کے لیے چند گھڑی بھی ہزارہ دھرنے میں بیٹھنے کو تیار نہیں۔ مگر مجھے بھی کبھی یہ خیال نہیں آیا۔ کیا فائدہ خامخواہ متنازعہ بننے اور نظروں میں آنے کا۔ میرے بیٹھنے سے ان کا قتل تھوڑی رک جائے گا۔

ویسے بھی میں ایک غیر جانبدار پروفیشنل ہوں۔ میرے قارئین و سامعین میں سنی بھی تو اچھے خاصے ہیں۔ خامخواہ ایک شیعہ اور وہ بھی ہزارہ کے ساتھ تصویر میں آنے کا فائدہ؟ سوشل میڈیا کی حد تک اظہارِ یکجہتی ہی ٹھیک ہے۔

بے گناہ مشال خان کے مجمع کے ہاتھوں قتل سے کروڑوں کی طرح میرا دل بھی دہل گیا۔ پر اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ مشال خان کے حق میں کھلم کھلا لکھا جائے اور جو لوگ مشال خان کو توہینِ رسالت کا مرتکب سمجھ رہے ہیں ان کے جلوسوں اور ریلیوں کے جواب میں ہم بھی منظم ہو کر کچھ کریں۔ اس سے تو انارکی پیدا ہو جائے گی۔

میں بزدل بالکل نہیں مگر پاگلوں کے منہ لگنے سے کیا حاصل؟ کیا یہ کافی نہیں کہ میرا دل مشال خان کی بے گناہی کے باوجود اس کے زندہ اہلِ خانہ کی محدود نقل و حرکت اور خوف کے سائے میں زندگی گذارنے کی اطلاعات سن کر آج بھی افسردہ ہے۔

میں اکیلا تو نہیں مجھ جیسے احتیاط پسند کروڑوں میں ہیں۔ جموں کی آٹھ سالہ بکروال آصفہ کے ریپ اور قتل کی خبر بھارتی میڈیا اور دلی تک پہنچنے میں تین ماہ لگ گئے۔میں نے اپنے ایک ہندو دوست سے پوچھا اتنا وقت کیوں لگا؟

اس نے ای میل کی کہ بھائی بات یہ ہے کہ تین ماہ ہم یہی ناپتے رہے کہ اس بچی کا نام آصفہ نہ ہوتا تو کتنا اچھا ہوتا اور اگر یہ گھٹنا جموں کے بجائے اڑیسہ یا جھارکھنڈ یا کہیں بھی گھٹی ہوتی تو جو ریلیاں آج نکل رہی ہیں وہ فروری میں ہی نکل چکی ہوتیں۔ آصفہ کی ٹریجڈی بہت بڑی ہے مگر ضمیر بھی آج کل کے ماحول میں ادھر ادھر دیکھ کر ہی جاگتا ہے۔

قندوز اگر افغانستان میں نہ ہوتا تو ہمیں اپنا غصہ کھل کے دکھانے میں زرا آسانی ہو جاتی، یمن میں اگر بشار الاسد کی حکومت ہوتی تو بے نقط سنائی جا سکتی تھیں۔محمد بن سلمان اگر سعودی ولی عہد ہونے کے بجائے شام کے صدر ہوتے تو ان کی تبدیل پسند پالیسیوں کو بہت آرام سے خراجِ دشنام پیش کیا جا سکتا تھا۔

اخلاقیات و ضمیر کی کسک اپنی جگہ مگر آج کل ردِعمل خانوں میں بانٹ کے رکھنا پڑتا ہے۔ کہیں کوئی کچھ اور نہ سمجھ لے۔

ہماری منافقت کو دفع کیجیے یہ بتائیے کہ ہمارے اردگرد اور زندگیوں میں تبدیلی کیوں نہیں آ رہی؟ آخر ہمارا قصور کیا ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32300 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp