میری کہانی، میرے پاپا کی زبانی


میرا نام عبداللہ شاہد ہے۔ جسمانی لحاظ سے میری عمر گیارہ سال ہے لیکن ذہنی اعتبار سے میرا دماغ تین سے پانچ سال کی درمیانی عمر کا ہے اور شاید تمام عمر ایسا ہی رہے گا۔ میں پیدائشی طور پر اپنے پیروں پر کھڑا نہیں ہو سکتا، چل نہیں سکتا اور بول بھی نہیں سکتا اور مزید یہ کہ اگر میں وقت پر دوائی نہ کھاؤں تو مجھے جھٹکے (Fits) لگنے شروع ہو جاتے ہیں اور بڑی مشکل سے پھر صورتحال کنٹرول ہوتی ہے۔ یہ سب ایسا کیوں ہے اس میں میرا کوئی دوش نہیں۔

اپنی عمر کے11سال بعد میں اور میرے والدین یہ ذہنی طور پر تسلیم کر چکے ہیں کہ میری زندگی میں مستقبل میں کوئی اچھی تبدیلی آنے کو نہیں ہے۔ البتہ مزید حالت کے خراب ہونے کا دھڑکا ہر وقت لگا رہتا ہے۔میں جس ریاست میں پیدا ہوا ہوں۔ وہاں میرے جیسے بچوں کا زندہ رہنا بھی ایک معجزہ سے کم نہیں ہے۔ ریاست میں ہونے والی تبدیلیوں کا میرے حال یا مستقبل پر کوئی اثرہوا ہے اور نہ آئندہ ہوگا۔ میرے روزمرّہ کے تمام فرائض (باتھ روم جانا، کھانا کھانا اور دوائی کھانا، کپڑے بدلنا وغیرہ) میرے والدین سرانجام دیتے ہیں۔ اس لیے میرے نزدیک ان کا صحت مند رہنا ہی سب سے زیادہ اہم ہے۔ ان کے بغیر یہ سب کیسے ہوگا، یہ سوچنے کی مجھ میں صلاحیت نہیں۔

میرے جیسے دیگر بچوں کے برعکس میرے والدین حتی الامکان کوشش کرتے ہیں کہ مجھے گھر سے باہر ہر جگہ اپنے ساتھ لے جائیں لیکن میری ریاست کا سماج ہر جگہ ایک دیوار بن کے میرے راستے میں کھڑا ہو جاتا ہے۔ اس دیوار کو اکیلے پار کرنا میرے بس کی بات نہیں ہے۔ میں جب بھی کسی نئی جگہ یا نئے لوگوں میں جاتا ہوں تو زیادہ تر لوگ مجھے مشکوک نظروں سے دیکھتے ہیں کہ جیسے میرا تعلق بنی نوع انسان کے علاوہ کسی اور مخلوق سے ہو۔ زیادہ کمزور دل افراد مجھے دیکھ کر کانوں کو ہاتھ لگاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگنا شروع کر دیتے ہیں۔ اکثر آپس میں کھسر پھسر شروع کرتے ہیں کہ یہ ایسا کیوں ہے۔ کیا ماں باپ کی کسی غلطی کی وجہ سے وہ ایسا اس دنیا میں آیا ہے یا اس کی قسمت میں ہی معذوری لکھی ہوئی تھی۔ بعض سمجھدار لوگ اسے کزن میرج کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ کچھ ہمت پا کر میرے والدین سے اظہارِ افسوس بھی کرتے ہیں۔ یہ تمام صورتحال ہمارے لیے انتہائی کرب کا باعث بنتی ہے۔ میرے اردگرد بہت ہی قلیل تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو مجھے دیکھ کر مسکرادیتے ہیں اور اپنا رویہ نارمل رکھتے ہیں۔

میرے والدین اپنی حیثیت سے بڑھ کر گھر کے اندر او رباہر میرے لیے زیادہ سے زیادہ سہولتیں پیدا کرنے کی کوششوں میں لگے رہتے ہیں۔ اپنے گھر کے اندر تو میں فرش پر اپنے ہاتھوں اورپیروں کی مدد سے ایک جگہ سے دوسری جگہ رینگتا ہوا(Crawling) پہنچ جاتا ہوں لیکن گھر سے باہر ہر جگہ مجھے وہیل چیئر کا استعمال کرنا پڑتا ہے۔ جیسے ہی میں اپنے گھر سے باہر قدم رکھتا ہوں تو مجھ پر اپنی ریاست کے حکمرانوں کی نیک نیتی اور منصوبہ بندی واضح ہو جاتی ہے۔ میرے جیسے معذور افراد کے لیے ریاست کی جانب سے پہلی اور بنیادی سہولت سڑک کے دونوں اطراف پیدل چلنے والوں کے لیے فٹ پاتھوں پر وہیل چیئر کے چڑھنے اور اترنے کے لیے مناسب ڈھلان ہونا چاہئے جس پر ریاست کا کوئی اضافی پیسہ صرف نہیں ہوتا اور سرکاری و غیر سرکاری دفاتر اور مارکیٹوں میں وھیل چیئر کی سہولت تقریباً ناپید ہونا بھی میرے حکمرانوں کی انسان دوستی کا پول کھول دیتا ہے۔ معذور افراد کے لیے وہیل چیئر کا آسانی سے آزادانہ حرکت کرنا یا آگے بڑھنا بنیادی مسئلہ ہوتا ہے۔ جو دُنیا میں کسی بھی معذور فرد کی فلاح کے لیے ریاست کا پہلا اقدام ہوتا ہے۔ میری ریاست میں اوّل تو ہر جگہ فٹ پاتھ کی سہولت ہی نہیں اور اگر کہیں ہے تو اس کے پچانوے فی صد حصہ پر ایک مخصوص مافیا نے متعلقہ سرکاری اہل کاروں کی ’’رضامندی‘‘ سےناجائز تجاوزات کی شکل میں قبضہ کیا ہوتا ہے اور اگر یہ فٹ پاتھ قبضہ مافیا سے بچ گیا ہو تو اس پر وہیل چیئر کو چلانے کے لیے مناسب راستہ نہیں بنا ہوتا۔ میں نے صرف ایک بنیادی سہولت کی بات کی ہے جس پر ریاست کا کوئی خرچہ نہیں آتا، بس اس کے لئے دردِ دل رکھنے کی ضرورت ہے۔ باقی سہولتوں کے بارے میں بات کرنا وقت ضائع کرنے کے مترادف ہے۔

ایک دن ٹی وی پر خبروں کے دوران کچھ لوگوں کوپولیس والے انتہائی بے دردی سے ڈنڈوں سے مار رہے تھے، جو لوگ مار کھا رہے تھے ان کے ہاتھوں میں بھی سفید رنگ کی چھڑیاں تھیں، میں نے پاپا سے کہا کہ یہ جواباً پولیس کو کیوں نہیں مار رہے ، آخر ان کے ہاتھ میں بھی تو لمبے لمبے سفید ڈنڈے ہیں۔ پاپا نے کہا کہ مار کھانے والے لوگ نابینا ہیں یعنی جن کی دُنیا پہلے ہی مکمل طور پر اندھیرے میں ہے۔ انہوں نے اپنے حقوق کے لیے سڑکوں پر دھرنا دیا ہوا تھا، جس کو ختم کرانے کے لیے پولیس ان کو مار کر اٹھا رہی ہے۔ اس دن سے میں بہت ڈر گیاہوں ۔ میں اپنے حقوق کے لیے کبھی آواز نہیں اٹھاؤں گا کیونکہ پولیس کے مارنے پر میں تو بھاگ بھی نہیں سکتا! اس صورتحال پر لازمی طور پر کوئی نہ کوئی میرا جیسا معذور یہ بددعا ضرور دیتا ہو گا کہ یہ نام نہاد نارمل لوگ (جو کہ حقیقتاً ابنارمل ہوتے ہیں) میری جیسی معذوری سے گزریں گے تو ہی انھیں ہماری تکالیف کا اندازہ ہو پائے گا۔

باقی تحریر پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3