جدید سائنسی علوم فالتو ہیں


برصغیر کے ایک معروف مدرسہ کے دارالافتا سے کسی نے دریافت کیا کہ کیا زکات کسی ایسے مسلمان اسکول کو دی جا سکتی ہے جہاں غریب بچوں کو جدید تعلیم دی جاتی ہو؟ جواب وارد ہوا کہ ایسے اسکول کو زکات دینا جائز نہیں۔ میں نے جب یہ فتویٰ پڑھا تو ذہن میں وہ درجنوں اشتہار دوڑ گئے جو میں نے محلے کی دیواروں اور اردو اخباروں میں دیکھے تھے۔ مدارس کی طرف سے جاری ان اشتہارات میں لوگوں سے زکات انہیں دینے کی اپیلیں ہوتی ہیں۔ میرا محدود مشاہدہ بتاتا ہے کہ زکات کی رقم کا بہت بڑا حصہ مدارس کو جاتا ہے جس سے ان کے اخراجات چلتے ہیں۔ کیا مجھے حیرت نہیں کرنی چاہیے کہ مدارس کو زکات سمیٹنے کی اجازت ہے لیکن غریب مسلمان بچوں کے لئے جدید تعلیم فراہم کرنے والے اسکول کو زکات دینا ناجائز قرار پاتا ہے؟ شاید اس کی وجہہ یہ ہو کہ آج 2018 کی اس متمدن اور ترقی یافتہ دنیا میں بھی مفتیان کرام یہ کہنے میں ذرہ برابر نہیں جھجکتے کہ مسلمانوں پر صرف دینی علم سیکھنا فرض ہے، جدید علوم پڑھنا ضروری نہیں ہے اور سائنس و ریاضی جیسے علوم، علم ہیں ہی نہیں۔

برصغیر کے ایک بہت مشہور مدرسہ سے کسی نے پوچھ لیا کہ مسلمانوں کی پسماندگی کے اس دور میں سائنس کی تعلیم کی کیا حیثیت ہے؟ مطلب فرض ہے یا سنت یا کوئی اور؟ سائل کا سوال جتنا اہم تھا جواب اس سے کم دلچسپ نہ تھا۔ فتویٰ صادر ہوا کہ سائنس کی تعلیم حاصل کرنا نہ تو فرض ہے نہ واجب نہ سنت ہے، نہ اس سے مسلم قوم کی پسماندگی دور ہوگی، مسلم قوم دنیا کی اور قوموں سے الگ تھلگ ہے اور نرالی ہے، مسلم قوم کی ترقی پیچھے چلنے میں ہے یعنی صحابہٴ کرام، اسلاف اور بزرگان دین کے طریقے کو اور قرآن حدیث کے احکام کو اختیار کرنے میں ہے اور دنیا کی دوسری قوموں کا مستقبل کی طرف آگے پڑھنے میں ہے، اگردنیاوی ضرورت کے لیے سائنس کی تعلیم حاصل کرنا ضروری ہے تو بقدر ضرورت اس کے حاصل کرنے میں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ اسلامی فرائض وواجبات کی ادائیگی باقی رہے اور وضع قطع ماحول بھی اسلامی باقی رہے۔

اب ذرا دل کڑا کرکے مندرجہ بالا فتوے پر ایک ناقدانہ نظر ڈالئے۔ پہلی عقدہ کشائی پر غور کیجئے کہ مسلمانوں کی پسماندگی سائنس سے دور نہیں ہوگی۔ قربان جائیے اس بصیرت کے جس نے جان لیا کہ سائنس کی تعلیم سے مسلمانوں کی پسماندگی نہیں دور ہونے والی۔ مفتی صاحب یہاں پسماندگی کو نہ جانے کن معنیٰ میں لے گئے لیکن عمومی طور پر برصغیر کے مسلمانوں کی پسماندگی سے مراد ان میں تعلیم کی کمی، روزگار کا فقدان اور وسائل زندگی سے محرومی ہے۔ ذرا سی توجہ دیجئے تو یہ تینوں چیزیں ایک دوسرے سے پیوستہ ہیں۔ اچھی تعلیم سے مناسب روزگار کے مواقع پیدا ہوتے ہیں اور بہتر روزگار سے وسائل زندگی کی فراہمی آسان ہو جاتی ہے۔ گویا تینوں مسائل کا حل جدید معیاری تعلیم میں پنہاں ہے لیکن دل کا کیا رنگ کروں جو مفتی صاحب کی نکتہ سنجی پر ایمان لائے بیٹھا ہے اور کہتا ہے کہ سائنس کی تعلیم سے مسلمانوں کی پسماندگی دور نہیں ہوگی۔ دنیا کی کوئی طاقت اس قوم کو پسماندگی سے نکال ہی نہیں سکتی جس قوم نے خود کو یہ یقین دلا رکھا ہو کہ وہ پسماندہ ہے ہی نہیں۔ علاج کے عمل کا پہلا مرحلہ مریض ہونے کا احساس ہوتا ہے۔ جب مفتیان بار بار فرمائیں گے کہ جدید علوم غیر ضروری ہیں اور ہماری شان نرالی ہے تو قوم کو کیا پڑی ہے جو پسماندگی کا لحاف پھینک کر میدان عمل میں کود پڑے؟

رقومات شرعی کے صرف مدارس پر خرچ ہونے اور جدید تعلیم کے لئے اس کے استعمال پر ناجائز کی مہر کا تذکرہ میں نے اس لئے چھیڑا کہ میں ایسے درجنوں طالب علموں سے مل چکا ہوں جن کا داخلہ معیاری یونیورسٹیوں اور کالجوں میں ہو گیا لیکن ان کے پاس فیس کے لئے پیسے نہیں ہوتے۔ اگر ان طلبہ کو رقومات شرعی کے بیت المال سے معمولی سی مدد مل جائے تو ان کا مستقبل سنور سکتا ہے، وہ اعلیٰ تعلیم مکمل کرکے بڑے عہدوں پر فائض ہوسکتے ہیں اور دوسرے محروم افراد کو تعلیم میں مدد دے سکتے ہیں۔ اگر صرف زکات کا ہی معاملہ ہوتا تو صبر آ جاتا عطیات و صدقات پر بھی صرف مدارس کا حق مان لیا گیا ہے اور حالت یہ ہے کہ قربانی کی کھالیں تک مدارس کو چلی جاتی ہیں۔ غور کرنے کی بات یہ ہے کہ رقومات شرعی مدارس میں فوری طور پر خرچ نہیں ہوتیں بلکہ ذخیرہ ہوتی رہتی ہیں جبکہ جدید علوم کے غریب مسلمان طالب علم کی فیس کی فوری ضرورت کا انتظام نہیں ہو پاتا۔ اس پر یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ مفتیان کرام تعلیم کے لئے بینک سے قرض لینے کو بھی ناجائز قرار دے چکے ہیں اس لئے اس طالب علم کی سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ کہاں جائے؟ میرے خیال میں بہتر تو یہ تھا کہ مدارس میں موجود لاکھوں روپئے کے اضافی فنڈ سے جدید تعلیم کے اعلیٰ اداروں میں داخلہ پانے والے طلبہ کو فیس مہیا کرائی جائے لیکن رقومات شرعی کو دانتوں میں دبوچے بیٹھے بزرگان تو مدد کے بجائے جدید تعلیم کی سرے سے تکذیب ہی کر دیتے ہیں۔

برصغیر کے اکثر مدارس میں ایک دلچسپ منافقت یہ ہے کہ وہاں کے مفتیان جدید دنیاوی تعلیم کی تکذیب کرتے ہیں لیکن ان کا مکمل نظام اسی جدید تعلیم کے نتائج سے فیض یاب ہوتا ہے۔ یہ مدارس آن لائن بینکنگ کے ذریعہ دنیا بھر سے چندے لیتے ہیں، اپنی کارکردگی کی نمائش کے لئے بڑی بڑی ویب سائٹیں ہوتی ہیں، فیس بک اور یو ٹیوب پر ان کے پیج اور چینل ہوتے ہیں، ان کے سفیر ٹرینوں اور جہازوں میں سفر کرتے ہیں، واٹس ایپ اور ایس ایم ایس سے مدرسہ کا اکاؤنٹ نمبر مخیر حضرات کو بھیجا جاتا ہے، ناظم صاحب اور مہتم صاحب کے کمرے میں اے سی لگے ہوتے ہیں، مہمان خانے میں جدید سائنسی سہولیات مہیا ہوتی ہیں، سعودی شیخ یا ایرانی آیت اللہ کی آمد پر لگژری گاڑیوں کا قافلہ ہوائی اڈے جاتا ہے وغیرہ وغیرہ وغیرہ۔ جدید علوم کی دین ان تمام سہولیات سے فائدہ اٹھانے کے بعد بہت اطمینان اور اعتماد کے ساتھ کہہ دیا جاتا ہے کہ جدید علوم کوئی علم ہیں ہی نہیں اور ان کا سیکھنا ضروری ہے اور نہ ہی فائدے مند۔

میں مدارس کی اہمیت کا انکاری نہیں ہوں۔ دینی علوم سکھانے کے لئے مدارس کی اہمیت بھی ہے ضرورت بھی لیکن میں جدید علوم کی اہمیت سے انکار کرنے والوں سے نہ صرف یہ کہ متفق نہیں ہوں بلکہ مجھے ان کی دماغی حالت پر بھی سخت شبہہ ہے۔ اگر رقومات شرعی کا مقصد مسلمانوں کی فلاح و بہبود ہے تو ان کا استعمال جدید تعلیم میں ضرور ہونا چاہیے۔ ہو سکتا ہے میرا مشاہدہ ناقص ہو لیکن جس طرح زکات سے لے کر قربانی کے دنبے کی کھال تک سب کچھ مدارس کا ہی حصہ مان لیا گیا ہے اس سے جدید علوم حاصل کرنے والے باصلاحیت مگر ضرورت مند مسلمان بچوں کی حق تلفی ہوتی ہے۔ ایک ایسا نظام وضع کرنے کی فوری ضرورت ہے جس سے ایسے طلبہ کے لئے جدید اعلیٰ تعلیم کے مواقع پیدا ہو سکیں۔

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان

مالک اشتر،آبائی تعلق نوگانواں سادات اترپردیش، جامعہ ملیہ اسلامیہ سے ترسیل عامہ اور صحافت میں ماسٹرس، اخبارات اور رسائل میں ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے لکھنا، ریڈیو تہران، سحر ٹی وی، ایف ایم گیان وانی، ایف ایم جامعہ اور کئی روزناموں میں کام کرنے کا تجربہ، کئی برس سے بھارت کے سرکاری ٹی وی نیوز چینل دوردرشن نیوز میں نیوز ایڈیٹر، لکھنے کا شوق

malik-ashter has 117 posts and counting.See all posts by malik-ashter