کامن ویلتھ میں گولڈ میڈل جیتنے والے ریسلر اب صدارتی ایواڈ کے خواہشمند


پاکستان ریسلر،

اکیسویں کامن ویلتھ گیمز میں انعام بٹ نے گولڈ میڈل جیتا ہے

اکیسویں کامن ویلتھ گیمز میں پاکستان کا واحد گولڈ میڈل جیتنے والے پہلوان انعام بٹ اپنے اس طلائی تمغے کو چار سال قبل ہونے والی مایوسی کا ازالہ سمجھتے ہیں جب گلاسگو میں پاکستان ایک بھی طلائی تمغہ جیتنے میں کامیاب نہ ہوسکا تھا اور وہ خود گھٹنے کی تکلیف میں مبتلا ہوگئے تھے۔

انعام بٹ بی بی سی اردو کو دیے گئے انٹرویو میں کہتے ہیں کہ یہ طلائی تمغہ جیتنا ان کے لیے بہت ضروری تھا۔

’میں جب گولڈ کوسٹ پہنچا تھا تو صرف اور صرف گولڈ میڈل کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ میں ہر قیمت پر گولڈ میڈل جیتنا چاہتا تھا کیونکہ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ گذشتہ کامن ویلتھ گیمز کے ریسلنگ مقابلوں میں جب بھارت کا ترانہ بجا تو میرا دل خون کے آنسو رو رہا تھا کہ ہمارا قومی پرچم اور قومی ترانہ کیوں نہیں؟’

‘میں گلاسگو میں گھٹنے کی تکلیف میں مبتلا ہوگیا تھا اور ڈاکٹرز نے کہہ دیا تھا کہ میں چھ ماہ تک ریسلنگ نہیں کرسکتا اس کے باوجود میں نے ایک ٹانگ پر مقابلے کیے اور تین فائٹس جیتیں لیکن کانسی کے تمغے کے لیے ہونے والی فائٹ چھ چھ پوائنٹس سے برابر ہونے کے بعد ٹیکنیکل بنیاد پر ہارا تھا۔’

انعام بٹ کہتے ہیں کہ اس بار کامن ویلتھ گیمز سے قبل میں نے حکومت سے ٹریننگ کے لیے مالی مدد کی جو اپیل کی تھی اس کا بھی کوئی اثر نہ ہوا۔

’میری ایک وڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں میں نےحکومت سے کہا تھا کہ وہ مجھے کامن ویلتھ گیمز کی ٹریننگ کے لیے دس لاکھ روپے دے اور اگر میں تمغہ نہ جیت سکوں تو میں یہ رقم واپس کردوں گا لیکن میری اس اپیل کا کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوا اور مجھے ٹریننگ کے لیے پاکستان ریسلنگ فیڈریشن اور اپنی مدد آپ پر ہی بھروسہ کرنا پڑا۔’

پاکستان ریسلر،

انعام بٹ کا تعلق پاکستان میں پہلوانوں کے شہر گوجرانوالہ سے ہے۔

انعام بٹ کامن ویلتھ گیمز میں دو طلائی تمغے جیتنے والے واحد پہلوان ہیں۔ انھوں نے پہلی بار دو ہزار دس میں بھارت میں منعقدہ کامن ویلتھ گیمز میں گولڈ میڈل جیتا تھا اس کے علاوہ وہ ایشین بیچ چیمپئین شپ ساؤتھ ایشین گیمز کامن ویلتھ ریسلنگ چیمپئین شپ اور ورلڈ بیچ گیمز میں بھی طلائی تمغے جیت چکے ہیں۔

‘پتہ نہیں اب میں کونسا میڈل جیتوں گا جس پر میرا نام بھی پرائیڈ آف پرفارمنس کے لیے نامزد کیا جائے گا۔’

انعام بٹ کاکہنا ہے کہ وقت آگیا ہے کہ حکومت اب اس بات پر توجہ دے کہ کونسا کھیل اور کونسا شہر پاکستان کو سب سے زیادہ میڈلز جیت کر دے رہے ہیں۔

‘ویٹ لفٹنگ اور ریسلنگ میں پاکستان بین الاقوامی مقابلوں میں سب سے زیادہ تمغے جیتنے میں کامیاب ہوتا ہے اور اس میں گوجرانوالہ شہر کا کردار ہمیشہ سے اہم رہا ہے لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ وہ ان کھیلوں کے سلسلے میں گوجرانوالہ شہر میں مضبوط انفرااسٹرکچر قائم کرے۔’

انعام بٹ نہ صرف خود نامساعد حالات میں ٹریننگ کرتے ہیں بلکہ اپنا تجربہ نوجوان پہلوانوں کو بھی منتقل کررہے ہیں۔

‘ورلڈ بیچ گیمز میں طلائی تمغہ جیتنے کے بعد سیکریٹری پنجاب سپورٹس کی ہدایت پر مجھے گوجرانوالہ میں ایک چھوٹی سی جگہ دی گئی تھی جسے میں کھنڈر کہتا ہوں مجھے پاکستان سپورٹس بورڈ نے پانچ لاکھ روپے دیے تھے جو میں نے اس جگہ کو بہتر کرنے پر لگا دیے وہ جگہ اتنی چھوٹی ہے کہ ریسلنگ کا میٹ بھی اس پر پورا نہیں آتا لیکن میں نہ صرف وہاں ٹریننگ کرتا ہوں بلکہ چالیس پچاس لڑکوں کو بھی میں ٹریننگ دے رہا ہوں۔’

پاکستان ریسلر

انعام بٹ پاکستان ریسلنگ فیڈریشن کے موجودہ سیکریٹری ارشد ستار کے بہت معترف ہیں جو بقول ان کے ریسلنگ کے لیے دن رات کام کررہے ہیں۔

‘چار سال قبل جب ارشد ستار نے فیڈریشن کے سیکریٹری کا عہدہ سنبھالا تھا اس وقت پورے پاکستان میں صرف آٹھ میٹ تھے لیکن آج ان کی کوششوں سے ان ریسلنگ میٹ کی تعداد تیس سے زیادہ ہوچکی ہے۔

انعام بٹ کامن ویلتھ گیمز کے گولڈ میڈل کو زیادہ دیر سوچنا نہیں چاہتے کیونکہ ان کی توجہ اگلے ہدف پر ہے۔

‘جب آپ کوئی کامیابی حاصل کرتے ہیں تو آپ کا وہ کام ختم ہوجاتا ہے اور آپ کو اپنے اگلے ہدف کے بارے میں سوچنا شروع کرنا پڑتا ہے۔ میں نے یہ گولڈ میڈل جیت لیا اب میری ٹریننگ اگلے مقابلے کے لیے شروع ہوجائے گی کیونکہ وسائل کتنے ہی محدود ہوں اور حکومت مدد کرے یا نہ کرے مجھے اپنی محنت جاری رکھنی ہے۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32296 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp