مثالی ان پڑھ سیاست دان لالو پرشاد یادیو اور نکما خواجہ سعد رفیق


گزشتہ دنوں چیف جسٹس آف پاکستان عزت مآب ثاقب نثار صاحب نے نکمے وفاقی وزیر ریلوے سعد رفیق کو طلب کر کے ان سے کارکردگی پوچھی۔ قومی روزناموں کے مطابق معززچیف جسٹس نے کہا کہ ”بھارت کے وزیر ریلوے لالو پرشاد ان پڑھ آدمی تھے گر انہوں نے ادارے کو منافع بخش ادارہ بنایا، آج لالوپرشاد کی تھیوری کو ہارورڈ یونیورسٹی میں پڑھایا جا رہا ہے۔“ یہ توصیف سن کر ہم عقیدت کے مارے ادھ موئے ہو گئے کہ اتنا عظیم آدمی ہمارے زمانے میں زندہ ہے اور ہمیں اس کی خبر سپریم کورٹ سے مل رہی ہے۔ اپنی جہالت پر تاسف ہوا۔

اگرچہ عدلیہ کی مخالفت پر کمربستہ بعض لوگوں نے یہ بتایا کہ لالو پرشاد یادیو ایک ان پڑھ آدمی نہیں ہیں بلکہ انہوں نے وکالت کی ڈگری لی ہوئی ہے اور سیاسیات میں ایم اے کیا ہوا ہے، لیکن ہمیں ان معترضین کی عقل پر تعجب ہی ہوا۔ جیسے یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے سامنے پلے گروپ کے بچے کی حیثیت ہوتی ہے، وہی حیثیت ملک کے سب سے بڑے قانون دان کے سامنے ایک عام وکیل کی ہے۔ ظاہر ہے کہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر کا پلے گروپ کے بچے کو اور چیف جسٹس کا ایک عام وکیل کو ان پڑھ کہنا معنوی انداز میں درست ہے۔ بہرحال اس معرفت کی بحث کو چھوڑ کر لالو پرشاد کے مثالی دور کی بات کرتے ہیں۔

مہاشے لالو پرشاد یادیو جون 1948 میں پیدا ہوئے۔ 1977 میں صرف 29 برس کی عمر میں ممبر لوک سبھا بنے۔ وہ 1990 میں بہار کے چیف منسٹر بنے اور 1997 تک رہے۔ پھر بدقسمتی سے ان کے کرپٹ حاسدوں نے یہ الزام لگا دیا کہ وہ معصوم بھینسوں کا چارہ چوری کر کے لمبے نوٹ بنا رہے ہیں۔ اس کے نتیجے میں لالو پرشاد یادیو کی مثالی حکومت کا خاتمہ ہو گیا۔ جعلسازی کا کمال دیکھیے کہ ان بدطینت حاسدوں نے ایسے ثبوت بھی فراہم کر دیے جن سے لالو جی پر کرپشن کا یہ الزام ثابت بھی ہو گیا۔

پہلے مہان لالو کو چارہ چوری کرنے کے الزام میں 2013 میں پانچ برس کی سزا ہوئی، پھر چارہ چوری کے ایک اور کیس میں جنوری 2018 میں لالو جی کو ساڑھے تین برس قید ہو گئی، اور اب جنوری 2018 میں ان کو مزید پانچ برس قید کی سزا ملی ہے۔ لالو جی آج کل رانچی جیل میں مقیم ہیں۔ قابل سیاستدانوں کے خلاف ایسے الزامات تو لگتے رہتے ہیں۔ آج کل کی مالیت کے حساب سے ساٹھ ستر ارب پاکستانی روپے کی کرپشن کوئی ایسی بڑی بھی نہیں ہے کہ اس پر لالو جی جیسے مثالی سیاست دان کو سزا دے دی جائے۔ انڈیا ایسے نادر ہیرے کو مٹی میں رولنے کی قیمت تو چکائے گا۔

بہرحال بات ہو رہی تھی لالو جی کے اس مثالی دور کی جب وہ ریلوے کے وزیر تھے، یعنی 2004 سے 2009 کے زمانے کی۔ لالو جی ریلوے کے وزیر بنے تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ ریلوے بہت زیادہ خسارے میں چل رہی ہے۔ ماہرین کا کہنا تھا کہ معاملہ ایسے ہی چلتا رہا تو دس برس میں ریلوے کا قرضہ تقریباً دس کھرب پاکستانی روپے کے برابر ہو جائے گا۔ لالو جی نے فیصلہ کیا کہ مسافروں کا کرایہ ہرگز نہیں بڑھانا بلکہ کسی دوسری جگاڑ سے سب کو پیسے کی شکل دکھائی دینی چاہیے۔

پہلے قدم کے طور پر تو انہوں نے ریلوے سٹیشنوں سے ڈسپوزیبل برتن اٹھوا کر ان کی جگہ مٹی کے برتن رکھوا دیے کیونکہ اس سے غریبوں کو روزگار ملتا ہے۔ پھر انہوں نے ریلوے میں مل پر بنے ہوئے کپڑے کی بجائے کھڈی پر بنا ہوا کپڑا چلا دیا کہ تاکہ غریب جولاہے بھی چار پیسے کما لیں۔ تیسرے قدم کے طور پر انہوں نے ریلوے میں کچھ ایسا چمتکار کیا کہ اربوں کے خسارے میں جاتی ریلوے اربوں کے منافعے میں چلی گئی۔ ان کی چار سالہ وزارت میں ریلوے نے چھے کھرب پاکستانی روپے سے بھی زیادہ کا منافع دکھا دیا۔

یہ چمتکار دیکھ کر بھارت کے معتبر ترین انڈین انسٹی ٹیوٹ آف مینیجمنٹ نے اسے بطور کیس سٹڈی پڑھانا شروع کر دیا۔ امریکہ کی ہارورڈ اور وہارٹن جیسی یونیورسٹیوں کے سینکڑوں طلبہ نے لالو جی سے ہندی میں خطاب سنا کہ کیسے انہوں نے یہ چمتکار دکھایا ہے۔ لیکن ہم جانتے ہی ہیں کہ جہاں ہر کامیاب اور دیانت دار آدمی کے دس سجن ہوتے ہیں تو سو دشمن بھی ہوتے ہیں جو اسے ناکام اور بد دیانت ثابت کرنے پر تلے رہتے ہیں۔ ان کے وزارت سے ہٹتے ہی اگلی وزیر ریلوے ممتا بنرجی نے کہا کہ لالو جی نے یہ منافع رقم ادھر ادھر کر کے نہیں بلکہ ہندسے ادھر ادھر کر کے دکھایا تھا۔ انڈیا کے آڈیٹر جنرل نے بھی ان کی تائید کر دی کہ بھیا لالو جی نے ریلوے کی شکل نہیں بدلی تھی بلکہ اس کے کھاتے کی شکل بدلی تھی۔ آڈیٹر جنرل نے تو اپنی تفصیلی رپورٹ میں لالو جی جیسے مہان لیڈر پر یہ الزام لگا دیا کہ الٹا ان کے دور میں انڈین ریلوے کی حالت پہلے سے بھی بری ہو گئی تھی۔ یہ آڈیٹر ضرور کسی دوسری پارٹی کا ووٹر ہو گا۔

لیکن لالو جی جیسے مثالی ریلوے وزیر پر اصل ظلم تو بھارتی سی بی آئی اور اینفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ ( ای ڈی) نے کیا۔ ای ڈی کو آپ بھارت کی نیب سمجھ لیں۔ انہوں نے لالو جی جیسے سادھو سنت پر الزام لگا دیا کہ ریلوے کی وزارت کے دور میں انہوں نے اربوں روپے کی پراپرٹی رشوت میں لی ہے۔ بد نیتی کی انتہا دیکھیں۔ اگر کسی شخص کو 70 کروڑ کی پراپرٹی 7 لاکھ میں ملی ہو تو اسے اچھا سودا کہنا چاہیے نہ کہ رشوت۔ یا اگر کسی اچھے دوست کو تحفے میں کوئی ٹھیکہ دے دیا جائے اور وہ جوابی تحفے کے طور پر 80 کروڑ کا پلاٹ دے دے، تو یہ دو دوستوں کا آپسی معاملہ ہے، اس میں سی بی آئی یا ای ڈی کیوں کود رہے ہیں؟ بہرحال لالو جی کے دشمنوں نے نہ صرف ان پر، بلکہ ان کی دھرم پتنی رابڑی دیوی اور راجکماروں تاجیشوی یادیو، تیج پرتاب یادیو اور راجکماری میسا بھارتی وغیرہ پر کرپشن کے کیس بنا ڈالے۔ لالو جی کہتے ہیں کہ یہ سب سیاسی مقدمے ہیں۔

ہمیں تو لالو جی کی بات پر اعتبار ہے۔ اگر ہمارے چیف جسٹس کی نظر میں لالو پرشاد یادیو ایک مثالی ریلوے منسٹر ہیں تو ہماری نظر میں بھی وہ کم نہیں ہیں۔ پتہ نہیں برصغیر کی مٹی میں ایسا کیا ہے کہ ہر کامیاب شخص کے خلاف لوگ سازشیں کرنے نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ اب بھارت اپنا بیڑہ غرق کرنے پر تلا ہوا ہے تو اچھی بات ہے، لیکن ہمارے وزیر سعد رفیق کو چاہیے کہ وہ چیف جسٹس صاحب کی بات دونوں کان خوب کھول کر سنیں، اور لالو پرشاد یادیو جی سے سبق سیکھ کر ان کے انداز میں ریلوے چلائیں اور خواہ کچھ بھی کرنا پڑے، ریلوے کو پرافٹ میں لا کر دکھائیں۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar