چوہدری الکٹا بول کی روئی آگ کیوں پکڑتی ہے؟


مشتاق احمد یوسفی نے “زرگزشت” میں کہیں لکھا ہے کہ بینک کے اہلکار قرضہ جاری کرتے ہوئے یہ بھی دیکھتے ہیں کہ منڈی میں بھاؤ گرنے پر سیٹھ کی روئی آگ تو نہیں پکڑتی؟ ہوتا یوں ہے کہ سیٹھ گدیلے والا نے بینک سے قرض لیا، مال گودام میں رکھوایا، منڈی میں بھاؤ گرے تو اللہ کی قدرت کہ روئی کو آگ لگ گئی۔ سیٹھ نے دیوالیہ نکال دیا۔ قرض بے باق ہو گیا۔ جملہ مال اسباب کا بیمہ پہلے سے کروا رکھا تھا۔ یوسفی صاحب کائیاں آدمی ہیں۔ بینک کے پردے میں سیاست کے راز کھولتے ہیں۔

سیٹھ گدیلے والا جو واردات چھوٹے پیمانے پہ کرتا ہے، چوہدری الکٹا بول سیاستدان وہی کھیل قومی پیمانے پہ کھیلتا ہے۔ عوام سے ملنے والے ووٹ تو مفروضہ ساکھ کے بل پہ خریدی ہوئی روئی تھی۔ بھس میں چنگاری گری اور ضمیر کے شعلوں کی زبانیں لپکنے لگیں۔ کریدتے ہو جو اب راکھ، جستجو کیا ہے۔ الکٹا بول سیاستدان اپنے کاروبار کا بیمہ کرانا نہیں بھولتا اور یہ بیمہ قومی مفاد کی واحد قابل اعتماد کمپنی سے کروایا جاتا ہے۔ حکمران جماعت کا بھاؤ گرنے لگے تو سیاست دان کا ضمیر جاگ جاتا ہے۔ جس پارٹی میں رہتے ہوئے برسوں اقتدار کے مزے لوٹے، اس سے شکوے شکایت کی پوتھی کھولی جاتی ہے۔ قومی مفاد بیمہ کمپنی کے متعلقہ اہلکاروں سے مشاورت کر کے نئی مطبوعہ سیاسی جماعت میں شمولیت کا اعلان کیا جاتا ہے۔ ٹیپ کا مصرعہ یہ ہوتا ہے کہ آزادی کے بعد سے اب تک جو بھی خرابیاں واقع ہوئی تھیں وہ اس بدنصیب شخص کی نااہلی کا نتیجہ ہے، کل تک جس سے ملاقات کا وقت مانگا جاتا تھا۔ سینے پہ ہاتھ رکھ کر وفاداریوں کا یقین دلایا جاتا تھا۔ ایک سے زیادہ راوی انکشاف کر چکے ہیں کہ وعدے وعید کی منزلوں میں الہامی کتاب کو بھی ضامن بنایا جاتا ہے۔

قدرت اللہ شہاب روایت کرتے تھے کہ قیام پاکستان کے ابتدائی برسوں میں مظفر گڑھ کے ایک شعلہ بیان مقرر کتاب مقدس کا جیبی نسخہ ہاتھ میں اٹھائے مجمع گرما رہے تھے۔ تقریر ختم ہوئی تو ایک ساتھی نے پوچھا کہ حمائل شریف کا یہ دیدہ زیب نسخہ کہاں سے ہاتھ آیا؟ ہنس کر بولے، ارے صاحب حمائل شریف کہاں، معمولی لاکٹ ہے، اتفاق سے جیب میں رکھا تھا، موقع پر کام آ گیا۔ ایسا ہی ایک واقعہ بھٹو صاحب سے بھی منسوب کیا جاتا ہے، قائد عوام کی گاڑی کے سامنے عوام کا ہجوم دیوانہ وار سوشلزم کے حق میں نعرے لگا رہا تھا۔ بھٹو صاحب نے اپنے ساتھی کی طرف جھکتے ہوئے ٹھیٹھ امریکی جملہ کسا، We may not mean it, but they do. (ہم سوشلزم کے بارے میں سنجیدہ ہیں یا نہیں، یہ لوگ واقعی سوشلزم مانگتے ہیں)

دوسری عالمی جنگ شروع ہوئی تو کانگریس نے صوبائی وزارتوں سے استعفے دے کر ہندوستان چھوڑ دو کی تحریک شروع کر دی۔ ایک طرف ڈنکرک کے مقام پر تین لاکھ برطانوی فوجی کھلے آسمان تلے دشمن کے رحم و کرم پہ تھے تو دوسری طرف کانگریس نے ہندوستان کے گوشے گوشے میں طوفان اٹھا رکھا تھا۔ قائد اعظم کے لیے مسلمانوں کے مطالبات منوانے کا بہترین موقع تھا۔ قائد نے حکم دیا کہ کوئی مسلم لیگی راہنما اپنے طور پہ انگریز حکومت کے ساتھ رابطہ نہ کرے۔ کچھ روز بعد قائد کو اطلاع ملی کہ پنجاب سے وزیر اعظم سر سکندر حیات، بنگال سے وزیر اعظم فضل الحق اور بہار کے وزیر اعلی سر علی امام وائسرائے کی وار کونسل میں شامل ہو گئے ہیں۔ بیگم جہاں آرا شاہنواز بھی اس طائفے میں شامل تھیں۔ صوبائی حکومتوں کے سربراہوں کا موقف تو گھڑا گھڑایا موجود تھا، فرمایا کہ “ہم اپنے اپنے صوبے کی ترقی کے لیے منتخب کیے گئے ہیں اور حکومت کے ساتھ تعاون کرنا ہماری مجبوری ہے”۔ بیگم شاہنواز کا رد عمل دلچسپ تھا۔ فرمایا، “میں عورتوں کے حقوق کے لئے حکومت میں شامل ہوئی ہوں۔ قائد اعظم نے تو عورتوں کے لیے کچھ نہیں کیا۔” بیگم شاہنواز کو 1938 میں قائد اعظم کی کلکتہ اور پٹنہ میں وہ تقاریر یاد نہ رہیں جن میں عورتوں کے حقوق پر زور دینے کی پاداش میں برصغیر کے علما نے قائد اعظم پر کفر کے فتوے لگائے تھے۔

قیام پاکستان کے ابتدائی برسوں میں چوہدری الکٹا بول کے کارنامے جاننا ہوں تو ڈاکٹر صفدر محمود کی کتاب ’مسلم لیگ کا دور حکومت‘ پڑھ لیں۔ ایوب آمریت میں ہر موقع پرست اٹھتے بیٹھتے یہ کہنا نہیں بھولتا تھا، ’قوم کو چاہئیے کہ صدر ایوب کے ہاتھ مضبوط کرے‘۔ صدر ایوب کے ہاتھ اس قدر مضبوط ہو گئے کہ اس نے سیاسی عمل ہی کا گلا گھونٹ دیا۔ بھٹو صاحب کی حکومت بنی تو ہر چوہدری الکٹابول ہزاروں ساتھیوں سمیت پیپلز پارٹی میں شامل ہوتا تھا۔ ضیاالحق کی مجلس شوری کی رونق بھی الکٹابول قبیلے کی مرہون منت تھی۔ اکتوبر 2002ءمیں پیپلز پارٹی پیٹریاٹ بناتے ہوئے فیصل صالح حیات نے جو زبان استعمال کی تھی، وہ آصف علی زرداری بھول گئے ہیں کیونکہ ان کا حافظہ عملیت پسند ہے۔ الکٹابول قبیلے کی جھنگ شاخ سے سیدہ عابدہ حسین کی سیاست بھی کرنل عابد حسین کی روایت کا تسلسل ہے۔ حبیب جالب نے درست کہا تھا۔ آدمی ہے وہ بھلا، در پہ جو رہے پڑا۔

موسم بدلتے ہی گھونسلہ تبدیل کرنے والے الکٹابول پرندوں کا سیاست، دستور، معیشت، خارجہ پالیسی وغیرہ سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ سیاسی جماعت بدلنے میں انہیں کوئی عار نہیں ہوتا۔ اور سیاسی جماعت کو بھی انہیں براہ راست مرکزی راہنما کا درجہ دینے میں اطمینان ہوتا ہے کیونکہ الکٹابول کے سیاسی اثاثے تو بینک سے لیا گیا قرض ہیں۔ ہر سیاسی جماعت انتخاب لڑنے کے لیے الکٹا بول قبیلے کے ارکان ڈھونڈتی ہے۔ ان کے پاس مالی وسائل ہوتے ہیں۔ علاقے میں ذات برادری قبیلے اور مذہبی شناخت کے نام پر ووٹوں کے گودام ہوتے ہیں۔ پولنگ سٹیشن کے اندر اور باہر ہاتھا پائی میں مشاق پہلوان ہوتے ہیں۔ کوئی انہیں جیالے کہتا ہے تو کوئی متوالے۔ الطاف حسین تو بھنڈی بازار بمبئی کی زبان میں ’لڑکے‘ کہا کرتے تھے۔ کبھی غور کیجیے گا کہ 23 مارچ 1973 کو لیاقت باغ راولپنڈی فائرنگ، 12 مئی 2007 کو کراچی فائرنگ اور 17 جون 2014 کو ماڈل ٹاؤن لاہور فائرنگ کے واقعات میں کیا مشابہت تھی۔

جن دنوں کراچی میں ایم کیو ایم کا سکہ چل رہا تھا تو نیوز روم میں صحافی ایک دوسرے سے دن بھر کا سکور پوچھا کرتے تھے۔ یعنی آج کتنے مرے؟ امسال وکٹیں گرانے کا محاورہ چلن میں ہے۔ بھلے وہ وکٹ مخصوص نشستوں پر منتخب ہونے والے رکن اسمبلی ہی کی کیوں نہ ہو۔ محترم رمیش کمار کہتے ہیں کہ وہ اپنی کمیونٹی کی خدمت کے لیے تحریک انصاف میں شریک ہوئے ہیں۔ بالکل ایسے ہی جیسے بیگم شاہنواز نے قائد اعظم کی حکم عدولی کرتے ہوئے عورتوں کی خدمت کے لیے وائسرائے سے تعاون کیا تھا۔ رامیش کمار کو جوگندرناتھ منڈل کے اس استعفی کی ایک نقل بھیجنی چاہیے جو انہوں نے 8 اکتوبر 1950 کو وزیر اعظم لیاقت علی خان کے نام لکھا تھا۔ منڈل جی بھی ہندو کمیونٹی کی خدمت کرنے کے لئے مسلم لیگ میں تشریف لائے تھے۔ ان دنوں قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں کہ اس موسم گرما میں الکٹا بول قبیلے کے کتنے چوہدریوں کی روئی آگ پکڑے گی۔ منڈی کا بھاؤ دگرگوں ہے اور بیمہ کمپنی فیض عام پر مستعد ہے۔ موقع واردات پر سیٹھ الکٹابول کے نقصان کا تخمینہ لگانے والے افسر بھی جہاد پر نکلے ہوئے ہیں۔ کوئی کچھ بھی کہتا رہے، الکٹا بول قبیلے کے باغات میں بور لگ رہا ہے، مشکل صرف یہ ہے کہ منڈی کے بھاو ¿ تو گرے، سو گرے، بیمہ کمپنی کی ساکھ بھی خراب ہو رہی ہے۔ اکیس کروڑ کاشت کاروں کا معاملہ ہے، میڈیا کے منہ پر تو ہاتھ رکھا جا سکتا ہے، اس کسان کو کیسے سمجھایا جائے گا جس کی فصل پکتے ہی وارن ہیسٹینگز کے والی وارث کھڑی فصل میں گھس جاتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).