شام پر حالیہ امریکی و اتحادی میزائل حملوں کا جائزہ


7 اپریل کو باغیوں کے زیر انتظام دمشق کے نواح میں واقع قصبے دوما میں مبینہ طور پر عام شہریوں پر کیمیائی حملہ کیا گیا جس کے نتیجے میں خواتین اور بچوں سمیت 70سے زائد عام شہری جاں بحق ہوئے اور ایک سو سے زائد زخمی ہوئے۔ حملے کے فوراً بعد مغربی میڈیا نے ان حملوں کا ذمہ دار شام میں بشار الاسد کی حکومت کو قرار دیا اور عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ اس حملے کے بعد شامی صدر اور ان کی وفادار فوج پر جوابی کارروائی کرے۔ روس جو کہ شام کی حکومت کا بڑا اتحادی ہے، نے قبل از وقت کوئی بھی انتہائی اقدام اٹھانے سے منع کیا۔ اقوام متحدہ اور دیگر انسانی حقوق کے اداروں نےاس حملے کی مذمت کی اور اس کے ذمہ داران کی تحقیقات کا حکم دیا۔ امریکہ نے اس حملے پر صدر بشار الاسد کو ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے ان کے خلاف یو این سیکورٹی کونسل میں قرارداد لانے کی کوشش کی جسے روس کی جانب سے ویٹو کردیا گیا۔ طے یہ ہوا کہ او پی سی ڈبلیو یا تنظیم برائے ا نسداد کیمیائی ہتھیار جلد ہی متاثرہ علاقے کا دورہ کرے گی اور وہاں موجود مبینہ طور پر ہوئے کیمیائی حملے کی تحقیقات کے بعد اس کے ذمہ داروں کا تعین کرے گی۔

یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ انسپکٹرز کی اس ٹیم کو شام کی حکومت نے خوش آمدید کہا اور اسے عالمی سطح کی حمایت حاصل تھی۔ جب یہ ٹیم شام پہنچی تو 13 اپریل تھا اور صدر ٹرمپ کے حکم پر امریکی، برطانوی اور فرانسیسی افواج کی جانب سے شام پر کیمیائی حملے کے الزام کی سزا میں میزائل حملے ہوچکے تھے۔

امریکی، برطانوی اور فرانسیسی حکومت نے شام کی حکومت کو ان ویڈیوز کی تحقیقات کے بعد کیمیائی حملے میں ملوث قرار دے دیا تھا جو کہ مبینہ طور پر باغیوں کی جانب سے تیار کی گئی اور اسے انٹر نیٹ پر اپ لوڈ کیا گیا تھا۔

یاد رکھنے کی دوسری بات یہ ہے کہ اقوام متحدہ کی جانب سے شام میں جنگ سے متاثرہ عوام کی بحالی کے مشن میں شریک پاکستانی کنسلٹنٹ برادرم عثمان قاضی اپنے ایک مضمون بنام ’ دمشق میں عشق اور نواحی علاقوں میں جنگ کا آنکھوں دیکھا احوال ’ میں بیان کر چکے ہیں کہ شامی دارلحکومت میں مواصلاتی نظام جنگ کی وجہ سے کافی حد تک متاثرہ ہے اور دمشق کے پوش علاقوں میں بھی انٹرنیٹ کی ’ٹوجی‘ سروس دستیاب ہے لہذا شام سے آنے والی جنگ کے متعلق اکثر ویڈیو صحت کے حوالے سے مشکوک سمجھی جانی چاہیئں۔

اب جبکہ امریکی و اتحادی حکومتیں شام کی حکومت کو ان مبینہ کیمیائی ہتھیاروں کے حملے میں ذمہ دار قرار دے چکے تھے تو صدر ٹرمپ نے بعض امریکی مبصرین کے بیانات کے مطابق روس کو اس امر پہ سبق سکھانے کے لئے کہ وہ برطانوی سرزمین پر روسی ڈبل ایجنٹ کی ہلاکت کی کوشش میں اور امریکی سرزمین پر الیکشن میں اثرانداز میں کیوں ملوث ہے، سزا دینے کا فیصلہ کیا۔ اس سزا کے لئے شام کی حکومت کو قربانی کا بکرا اس لئے بنایا گیا کہ وہ پہلے ہی ادھ موئی ہوچکی ہے۔ برطانیہ میں تعینات روسی سفیر کے اس بیان کے بعد کہ اگر شام میں ہمارے اتحادی بشار الاسد پر امریکی یا اتحادی حملہ ہوا تو نہ صرف حملہ آور میزائل اور جہاز نشانہ بنائے جائیں گے بلکہ ان تنصیبات کو بھی نشانہ بنایا جائے گا جہاں سے یہ حملہ لانچ کیا گیا ہو۔
ظاہر ہے کہ یہ امریکہ کو براہ راست دھمکی تھی جسے صدر ٹرمپ نے اپنی انا پہ حملہ تصور کیا اور ہمیشہ کی طرح عالمی سلامتی کے اس اہم معاملے کو ٹوئٹر پہ ہی طے کرنا مناسب سمجھا۔ جواب دیا کہ
‘ روس تیار رہو۔ تم ہمارے میزائل تباہ کرو گے؟ ہم نئے خوبصورت اور بہترین میزائل بھیجنے والے ہیں۔ ‘

اس کے بعد شامی دارلحکومت دمشق اور حمص شہر میں ان تین شامی تنصیبات پر امریکی، برطانوی اور فرانسیسی میزائلوں سےحملہ کیا گیا۔ امریکی صدر کے بقول شام میں کیمیائی ہتھیاروں کی تیاری اور لانچ کا نظام تباہ کردیا گیا ہے۔ یہ ایک ’ ون ٹائم مشن‘ تھا۔ شامی حکومت اگر آئندہ کیمیائی حملہ کرے گی تو ہم پھر جواب دیں گے۔
اس کے بعد کیا ہوا اس کہانی کی روئیداد اور تبصرہ کچھ وقفے کے بعد مگر پہلے ذرا اس سارے قضیئے کو مختصر مگر جامع انداز میں جانچ لیجیے۔

بین الاقوامی تعلقات پر نگاہ رکھنے والے عالمی ماہرین کی بڑی تعداد نے روس اور مغرب کے مابین حالیہ سفارتی تنازعے کو نئی سرد جنگ سے تشبیہ دی ہے۔ اس زمرے میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کا بیان کا قابل غور ہے کیونکہ انہوں نے نہ صرف اس تنازعے کو بیان کرنے کے لئے اس اصطلاح کا استعمال کیا ہے بلکہ انہوں نے یہ خوف ظاہر کیا ہے کہ ماضی میں سرد جنگ کے دوران اس کو حقیقی جنگ میں بدلنے سے روکنے کے لئے میکنیزم موجود تھے جو کہ اب باقی نہیں رہے۔

راقم کی رائے میں کہ جس سے اختلاف کیا جا سکتا ہے۔ موجودہ امریکی صدر ٹرمپ کے ہوتے ہوئے نہ صرف ان میکینزم کی کمی ہے بلکہ ان کے آفس میں امن کی کوششوں کو کامیاب بنانے کے عزم کی بھی کمی ہے۔

بعض ماہرین نے موجودہ شامی تنازعے میں حالیہ امریکی و روسی آمنا سامنا کیوبن میزائل کرائسس جیسی صورت دیکھا ہے۔ راقم اس صورت سے اختلاف و اتفاق کی کوئی صورت جوڑے بنا اس کو نئے پیمانوں پہ سمجھنے کی درخواست کرنا چاہے گا کیونکہ شام نہ تو ساٹھ کی دہائی کا کیوبا جیسا ملک ہے کہ وہاں سوویت ایٹمی ہتھیاروں کی تنصیبات سے امریکی سرزمین کو بقاء کو شدید خطرہ لاحق ہوجائے گا اور نہ ہی تاحال کسی امریکی طیارے کو روسی یا شامی افواج نے مار گرایا ہے کہ جس طرح کیوبن میزائل کرائسس کے دنوںجزیرہ نما کیوبا کی فضاء میں امریکی جاسوس طیارے کو سوویت فوج کے میزائل حملے میں مار گرایا گیا تھا اور اس جاسوس طیارے کا پائلٹ بھی ہلاک ہوا تھا۔

ایک اور دلچسپ امر یاد رکھنا چاہیے جو بظاہر اس تنازعے کا حصہ نہیں تاہم اسے روس اور مغرب کے مابین جاری تنازعات کے وسیع تناظر میں دیکھنا اہم ثابت ہوسکتا ہے۔ روس اور یوکرین کی حالیہ جنگ کے دوران روس نے عالمی سطح پر تسلیم شدہ یوکرینین خطے کریمیا کو نہ صرف فتح کیا بلکہ اسے روسی فیڈریشن میں بھی شامل کیا۔ یوکرین جو کہ مغرب اور امریکہ کا اتحادی بھی تھا۔ امریکہ اور دیگر مغربی ممالک اس معاملے کو خاموشی سے سہہ گئے اور مشرقی یورپ میں جاری اس محدود تنازعے کی حدود کو مزید پھیلنے سے روک دیا۔

یہاں بین الاقوامی تعلقات پر نگاہ رکھنے والے ماہرین کی رائے جاننا چاہیے کہ محض جغرافئے اور وقت کے کے فرق سبب بین الاقوامی ریاستوں کے ری ایکشن میں اس قدر فرق کیوں ہوتا ہے۔
ایک اور مثال ہی کو دیکھ لیجیے کہ روس جس کے دو طیارے نیٹو کے اتحادی ترکی نے مار گرائے جن میں سے ایک طیارے پائلٹ بے دردی سے قتل کیا گیا۔ تاہم اس نے ترکی کے خلاف جنگی کارروائی کا حکم نہیں دیا۔ اگرچہ ترکی اب اعلانیہ شام کی زمینی حدود میں داخل ہوچکا ہے اور اس سرحدی قصبوں پر نہ صرف قابض ہے بلکہ وہاں فوجی تعمیرات کرچکا ہے۔ وہی روس امریکہ کو یہ اعلانیہ کہہ چکا ہے کہ اگر شامی حدود میں اس کی افواج پر کوئی ایک بھی حملہ کیا گیا تو وہ پوری قوت سے جواب دے گا۔ امریکہ اور اس کے اتحادی جو کہ ترکی سے کہیں بڑی فوجی طاقت ہیں انہوں نے اس روسی دھمکی کو نہایت سنجیدگی سے لیا ہے۔

یہ اور بات ہے کہ اب ترکی شام کی جنگ کے خاتمے کے لئے نیٹو کے تجویز کردہ حل کی بجائے روس کی زیر قیادت آستانہ امن مذاکرات میں اٹھتا بیٹھتا ہے۔ اس پہ طرفہ تماشا یہ کہ شام میں ہوئے اتحادی افواج کے کل کےمیزائل حملوں پہ بغلیں بھی بجاتا پھرتا ہے۔

نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ جیسے راک فیلر نے کہا تھا کہ جب شاہراہوں پہ لہو بہے تو جان لو کہ مال بنانے کا سب سے بہتر وقت یہی ہے ہرفریق اس جنگ سے اپنا حال سنوارنا چاہتا ہے۔ روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف کی گفتگو کو بھی شامل بحث کیا جانا لازمی ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ شام میں ہوا موجودہ کیمیائی حملہ برطانوی ایجنسی کا رچایا ہوا ڈھونگ ہے جس میں رنگ بھرنے کے لئے سیرئین ایمرجنسی ایڈ گروپ نامی کو ذمہ داری سونپی گئی تھی اور اس میں بھی وہی ڈاکٹرز استعمال ہوئے ہیں جو وائٹ ہیلمٹ نامی مشکوک تنظیم سے وابستہ ہیں۔

شام میں روسی سفیر نے معروف غیر ملکی خبررساں ادارے سے بات چیت میں کہا کہ روسی ماہرین کی ایک ٹیم اس علاقے کے دورے پر گئی تھی جہاں مغربی میڈیا کے بقول کیمیائی حملہ کیا گیا وہاں انہیں علاقے میں موجود واحد ہسپتال سے ایسا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ یہاں کسی قسم کا کیمیائی حملہ کیا گیا ہو۔ انہوں نے سوال پوچھا کہ ایسی صورت میں جبکہ شامی حکومت دمشق کے نواحی علاقے میں مکمل کامیابی کے بہت قریب ہو اور عین اسی روز وہ مشرقی غوطہ میں فیصلہ کن کامیابی حاصل کررہی ہو اور اس علاقے کے عوام اس کا خیرمقدم کررہے ہوں وہ کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی حرکت کیوں کرے گی؟ صحافی کے اس سوال کے جواب میں کہ آپ کو کیوں لگتا ہے کہ یہ حملہ مغربی ممالک کا پھیلایا ہوا جھوٹ ہے تو انہوں نے جواب دیا کیونکہ اس حملے کا کوئی بھی زمینی ثبوت نہیں ملا یہ حملہ محض ان ویڈیو کلپس میں دکھا یا گیا ہے جن کو دہشتگرد گروپس نے اپ لوڈ کیا ہے۔

اس سوال کے جواب میں کہ شام کی سرزمین پر ہوئے حالیہ میزائل حملوں پر روسی افواج اپنے اتحادی کی مدد کو کیوں نہیں آئیں انہوں نے جواب دیا کہ یہ حملے اس قدر غیر مہلک اور ہلکے ثابت ہوئے ہیں کہ شام میں موجود روسی افواج کو حرکت میں لانے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوئی۔ ان کے بقول نئے سمارٹ اور خوبصورت حملہ آور 103 امریکی و اتحادی میزائلوں میں سے 71 کو سوویت دور کے بنے ایس یو۔ 125 اور ایس یو۔ 200 میزائلوں کے ذریعے ٹارگٹ سے پہلے ہی مار گرایا گیا ہے۔ اگرچہ شام میں روسی افواج نے جدید ترین زمین سے فضاء میں مار کرنے والے میزائل و طیارہ شکن ایس یو۔ 400 میزائل نظام کو بھی نصب کررکھا ہے
۔
میزائل حملے کے دوسرے روز شامی صدر بشار الاسد کی مختصر ویڈیو سرکاری ٹی وی پہ نشر ہوئی جس میں وہ مضبوط قدموں سے چلتے ہوئے اپنے دفتر کی جانب آتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
اگرچہ اس جنگ کے تمام فریقین کے مطابق وہ مرحلہ وار اپنے مقاصد کے حصول میں کامیاب ہورہے ہیں۔

شام میں حقوق انسانی کے لئے کام کرنے والے ادارے کی جانب سے اب تک ہوئی عام شہریوں کی اموات کے اعداد و شمار217764 ہیں۔ دو لاکھ سترہ ہزار سات سو چونسٹھ جانیں ضائع ہوچکی ہیں۔ چونسٹھ لاکھ سے زائد افراد بے گھر ہوئے ہیں۔
قدرتی وسائل کے حصول کے جاری چند ریاستوں کی انا کی یہ جنگ نجانے اور کتنی جانیں لے گی اور کتنوں کو بے گھر کرے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).