کمزور جمہوریت کی ایک بڑی وجہ کمزور الیکشن کمیشن


پاکستان میں کمزور جمہوریت کی کئی وجوہات قرار دی جا سکتی ہیں۔ ہمارے کچھ دوستوں کے خیال میں کمزور جمہوریت کی سب سے بڑی وجہ اسٹبلشمنٹ کی  مداخلت ہے۔ جب کہ کچھ  دوستوں کا موقف ہے کہ اس گھر کو آگ لگی ہے گھر کے چراغ سے، اس لیے کمزور جمہوریت کی بڑی وجہ خود سیاسی جماعتیں ہی ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے اندر کی آمریت ہی انھیں کمزور کرتی ہے جس سے جمہوریت کمزور ہو تی ہے۔ بہر حال کم از کم اس بات پر اتفاق ہے کہ جمہوریت کمزور ہے۔

میری رائے میں پاکستان میں جمہوریت کمزور ہونے کی ایک بڑی وجہ کمزور الیکشن کمیشن بھی ہے۔ آج جب پاکستان میں مضبوط اداروں کی بات ہو رہی ہے۔ چیف جسٹس مضبوط اداروں کی بات کر رہے ہیں۔ عدلیہ مضبوط ہے۔ فوج مضبوط ہے۔ نیب مضبوط ہے۔ ایسے میں افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم الیکشن کمیشن کو مضبوط کرنے پر کوئی توجہ نہیں دے رہے ہیں۔ ویسے تو الیکشن کمیشن کی جمہوریت میں حیثیت ایک ایمپائر کی ہے۔ اسی لیے ایمپائر کا فیصلہ حتمی اور آخری ہی ہونا چاہیے۔

جمہوری کھیل کے تمام کھلاڑیوں اور ٹیموں کو اس ایمپائر کی بات کو ہی حتمی سمجھنا اور ماننا چاہیے۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں نے الیکشن کمیشن کو ایمپائر کے بجائے ریلو کٹا  بنا دیا ہے۔ جس کی کھیل میں کوئی اہمیت نہیں ہے۔

سوال یہ بھی ہے کہ الیکشن کمیشن کی اس کمزوری کی وجہ کیا ہے۔ ایک بڑی وجہ تو الیکشن کمیشن خود بھی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ الیکشن کمیشن نے اس طرح کام نہیں کیا جیسے اسے کرنا چاہیے تھا۔ سیاسی جماعتوں کے اندر آمریت الیکشن کمیشن کی کمزوری ہے۔

الیکشن کمیشن کو ایسے اصول اور قواعد سامنے لانے چاہیے تھے جس سے سیاسی جماعتوں میں آمریت کو ختم کیا جا سکتا۔ تا ہم الیکشن کمیشن نے اس ضمن میں کوئی کام نہیں کیا ہے اورایک خاموش تماشائی کا کردار ادا کیا ہے۔ حتیٰ کے ٹیکس ریٹرنز جمع نہ کروانے پر جن ارکان کو معطل کیا جاتا ہے ، وہ معطلی بھی اب ایک مذاق بن چکی ہے۔

اتنی بڑی تعداد میں ارکان کو معطل کیا جاتا ہے اور پھر وہ جب دل چاہتا ہے بحال ہوجاتے ہیں۔ یہ بھی الیکشن کمیشن سے ایک مذاق ہی ہے۔ اب معطلی کی یہ سزا بے اثر ہو گئی ہے۔ لہذا جو ارکا ن بر وقت ٹیکس ریٹرنز جمع نہیں کراتے انھیں پارلیمنٹ کا رکن رہنے کا کوئی حق نہیں ہے، انھیں فوراً نا اہل کر دینا چاہیے تا کہ اراکین پارلیمنٹ کو یہ پتہ رہے کہ الیکشن کمیشن انھیں نا اہل بھی کر سکتا ہے۔ ان کی سیٹ بھی جا سکتی ہے۔

جہاں کمزور الیکشن کمیشن میں الیکشن کمیشن خود بھی ایک وجہ ہے وہاں یہ بھی حقیقت ہے کہ الیکشن کمیشن کے حوالے سے قانون بھی کمزور ہیں۔ اس وقت الیکشن کمیشن کے فیصلوں کے خلاف ہائی کورٹس میں اپیل دائر کی جاتی ہے ۔اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ جیسے ہی الیکشن کمیشن کوئی فیصلہ جاری کرتا ہے متاثرہ فریق اس کے خلاف متعلقہ ہائی کورٹ سے حکم امتناعی حاصل کرلیتا ہے۔

اس وقت قانون میں اس کی گنجائش موجود ہے اور ہائی کورٹس قانون کے مطابق ہی عمل کرتے ہیں۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اس قانون کی وجہ سے الیکشن کمیشن کی حیثیت ایک ٹرائل کورٹ کی رہ گئی ہے۔الیکشن کمیشن کے فیصلوں کی حیثیت ماتحت عدلیہ کے فیصلوں کی رہ گئی ہے۔

شاید اسی لیے سیاسی جماعتیں اور اراکین پارلیمنٹ الیکشن کمیشن کے فیصلوں کو سنجیدہ نہیں لیتے ہیں۔ جیسے کہ ماتحت عدلیہ کو ایک حد تک سنجیدہ نہیں لیا جاتا۔ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ عمران خان جو پاکستان میں اداروں کو مستحکم کرنے کی بات کرتے ہیں۔ وہ بھی الیکشن کمیشن کے فیصلوں کوسنجیدہ نہیں لیتے رہے ہیں۔ بلکہ جب پیش نہ ہونے پر الیکشن کمیشن نے ان کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے تو انھوں نے الیکشن کمیشن کے خلاف بیان بازی شروع کر دی۔ حالانکہ یہ وہی عمران خان ہیں  جو نواز شریف کی جانب سے سپریم کورٹ کے خلاف بیان بازی پر سیخ پا ہیں۔شاید ان کی نظر میں الیکشن کمیشن سپریم کورٹ جتنا اہم اور قابل عزت ادارہ نہیں ہے۔

اسی طرح اب جب کہ انتخابات کے قریب آنے پر الیکشن کمیشن نے سرکاری محکموں میں ہر قسم کی بھرتیوں پر پابندی عائد کی ہے، حکومت پنجاب نے الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کے خلاف لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کر لیا ہے۔ جب الیکشن کمیشن کا ہر فیصلہ فوری پر چیلنج ہو سکے گا تو الیکشن کمیشن کی ایک کلیدی حیثیت ختم ہو جاتی ہے او ر ایک سوچ بن جاتی ہے کہ کوئی بات نہیں اگر الیکشن کمیشن نے خلاف فیصلہ دے بھی دیا تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہم اس کو چیلنج کر دیں گے۔ کہیں نہ کہیں اس طرح الیکشن کمیشن کی رٹ ختم ہو جاتی ہے۔

اس لیے ملک میں جمہوریت کو مضبوط کرنے کے لیے جہاں اور بہت سے اقدامات کی ضرور ت ہے وہاں الیکشن کمیشن کو مضبوط کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ اس قدر لولے لنگڑے الیکشن کمیشن کے ساتھ جمہوریت چل نہیں سکتی۔ سیاسی جماعتوں کی قیادت سمجھتی ہے کہ ایک مضبوط الیکشن کمیشن ان کے مفاد میں نہیں ہے۔ اگر الیکشن کمیشن مضبوط ہو گیا تو سیاسی جماعتوں کی چاندی ختم ہو جائے گی۔ سیاسی قیادت کی بادشاہت ختم ہو جائے گی۔ انھیں الیکشن کمیشن کے تا بع آنا پڑ جائے گا جو انھیں کسی بھی صورت قبول نہیں ہو گا۔

میں سمجھتا ہوں کہ ملک میں جب انتخابات کے لیے ایک قانون ہے تو سیاسی جماعتوں کے لیے بھی ایک ہی قانون ہو نا چاہیے۔ یہ بھی ایک مذاق ہے کہ ہر سیاسی جماعت نے اپنی مرضی کا آئین و قانون بنایا ہوا ہے۔ یہ بات بھی حقیقت ہے کہ سیاسی جماعتوں کے اپنے آئین و قانون بالکل جمہوری نہیں ہیں بلکہ یہ سیاسی جماعتوں میں شخصی آمریت کو مضبوط کرنے کے لیے بنائے جاتے ہیں۔

الیکشن کمیشن کو تمام سیاسی جماعتوں کے لیے یکساں قوانین اور قواعد بنانے چاہیے۔ تا کہ جو سیاسی جماعتیں پاکستان کے جمہوری عمل کا حصہ بننا چاہتی ہیں۔ جو انتخابی معرکہ میں شریک ہونا چاہتی ہیں۔ انھیں الیکشن کمیشن کے قوانین اور قواعد کو ماننا چاہیے۔ تا کہ سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوریت قائم کی جا سکے۔

الیکشن کمیشن کو سیاسی جماعتوں میں ٹکٹوں کی تقسیم کا اختیار بھی سیاسی قیادت سے چھین کر کارکنوں کو دینے کے ہنگامی اقدامات کرنے چاہیے۔ یہ مرکزی پارلیمانی بورڈ اور قیادت کا اختیار سب آمریت کے شاخسانے ہیں۔ یہ جمہوریت کے قاتل ہیں۔ یہ وراثتی سیاست اور درباری سیاست کے فروغ کا باعث ہیں۔جب تک سیاسی جماعتوں میں ٹکٹوں کی تقسیم کا نظام شفاف نہیں ہوگا۔ پاکستان حقیقی جمہوریت کی طرف گامزن نہیں ہو سکتا۔ جس حلقہ میں جس جماعت نے ٹکٹ جاری کرنا ہے وہاں کے کارکنوں کی حمایت لازمی قرار دی جائے۔ ہر سیاسی جماعت کو ہر حلقہ میں موجود اپنے کارکنوں کی فہرست الیکشن کمیشن کو فراہم کرنی چاہیے۔

اس کے دو فائدے ہوںگے ایک تو سیاسی جماعتوں کی مرکزی قیادت کی من مرضیاں ختم ہو جائیں گی، دوسرا یہ جو الیکشن سے قبل جیتنے والے گھوڑوں کی ایک منڈی لگ جاتی ہے، وہ بھی ختم ہو جائے گی۔ جس طرح الیکشن کمیشن نے الیکشن سے تین ماہ قبل ہر قسم کے ترقیاتی کاموں اور سرکاری بھرتیوں پر پابندی عائد کی ہے۔ اسی طرح الیکشن سے کم از کم چھ ماہ قبل سیاسی جماعت تبدیل کرنے پر بھی پابندی عائد ہونی چاہیے۔

اگر کوئی رکن پارلیمنٹ انتخابات سے قبل جماعت تبدیل کرتا ہے تو اسے انتخابات میں حصہ لینے سے روک دینا چاہیے۔ تا کہ ملک میں سیاسی وفاداریاں بدلنے کی روایت بھی ختم ہو سکے۔ لیکن اس سب کے لیے ایک مضبوط الیکشن کمیشن کی ضرورت ہے۔ جس کے فیصلوں کے خلاف کوئی اپیل ممکن نہ ہو۔ اور سب اس کے تابع ہوں۔

بشکریہ ایکسپریس


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).