یہ آوارہ، بدچلن اور باغی عورتیں


بھلا ایک گانے بجانے والی کے مرنے پر کوئی سوگ منایا جاتا ہے؟ کیا دکان بند کردی جائے؟ وہ تھی ہی کون؟ ایک گانے والی میراثن کہیں کی۔ لو بھلا یہ تو ہونا ہی تھا خوشی کے موقعوں پر مجرے رچائے جاتے ہیں، محفلیں سجائی جاتی ہیں اب ان میں دل بہلانے کو نیک اور پاکباز عورتیں تو نہیں بلائی جاتی ناں ایسی ناچنے گانے والی ہی بلائی جاتی ہیں۔ کیا انھیں نہیں معلوم ہوتا کہ یہ جہاں محفل کی زینت بننے جارہی ہیں وہاں شراب بھی ہوگی شباب بھی ہوگا۔ اسے اس ماحول کی عادت ہوگی تو جاتی ہوں گی ناں۔ اب اگر کسی نے نشے میں آکر گولی مار دی تو قصور مارنے والے کا نہیں مرنے والی کا ہے جس کو اپنی اور اس کے گھر والوں کو اس کی عزت کی پرواہ نہیں تھی۔ اب گھر سے نکلی ہے تو جھیلنا تو پڑے گا۔ ہاتھ آنچل پر آئے تو خوشی سے سہنا پڑے گا، کوئی محفل کی مسند سے اٹھا کر کمرے میں لے جانے کا حق جتائے تو خاموشی سے جانا پڑے گا ورنہ نہ پیسہ ملے گا نہ گھر کا چولہا جلے گا۔

یہ عورتیں عزت دار گھرانوں کی ہوں تو یہ پیشہ ہی کیوں اپنائیں؟ سینا پرونا، دال مصالحے کا کوئی کام دھندہ نہ کرلیں۔ اب اگر گانے بجانے میں آئی ہے تو محفل کے آداب سیکھے، یہ کیا کہ میں حاملہ ہوں تو کھڑی نہیں ہوسکتی اور اگر ہو بھی جاوں تو ناچ نہیں سکتی۔ جب تم کچھ نہیں کرسکتی تو پھر مرنے کو بھی تیار رہو۔ تم کونسی شریف زادی ہو جو تمہارے مرنے سے دنیا میں انقلاب آئے گا، بلکہ تمہارے مرنے پر ایک ناپاک وجود سے اس دنیا کا بوجھ کچھ کم ہوجائے گا۔

وہ قصور کی آٹھ سالہ زینب بھی کوئی بے قصور نہیں تھی۔ بچپن میں ہی کل پرزے نکال لئے تھے دیکھو تو ذرا ماں باپ کی عدم موجودگی کا کیسا فائدہ اٹھایا اور نکل پڑی باہر اکیلے، لگتا ہے روک ٹوک پسند نہیں تھی عمر اتنی کم اور دماغ میں بیٹھا ہوا تھا کہ میرا محلہ، میری گلی، ہر بندہ ہی تو مجھے جانتا ہے میرے ساتھ کیسے کوئی غلط کرے گا۔ وہ تو عمران اپنے راستے سے گزر رہا تھا زینب نے اسے اکسایا، بہلایا پھسلایا کہ آج میں نے موقع جانا ہے اماں ابا گھر نہیں مجھے ذرا بلھے شاہ کے شہر کی سیر تو کروا دو۔ گھنٹہ بھر وہ اس کی خواہش پوری کرنے میں لگا رہا آخر کو بشر تھا سوچا کہ یہ عورت ذات ہی فساد کی جڑ ہے نہ ہوتی تو آج کرہ ارض پر اس کی وجہ سے اتنے فساد برپا ہی نہ ہوتے، بہک گیا بیچارہ لیکن قصور زینب کا ہے جس کے قدم گھر سے باہر جانے کو اٹھے تو اگلے کی ضبط اور انسانیت کو جواب دے گئی ورنہ نعتیں اور منقبت پڑھنے والا بھی کسی بچی کی عزت پر ہاتھ صاف کرسکتا ہے؟ نہیں ناں یہ سب اس لڑکی کا کیا دھرا ہے تو واویلا کس بات کا۔

لو بھلا وہ جموں کی مسلمان گڈریے کی بیٹی آصفہ بانو کیا اسے خبر نہیں کہ پاکستان جس میں ضم ہونے کو یہ کشمیری مچلتے رہتے ہیں گولیاں کھاتے کھاتے قبرستان آباد کرتے پھرتے ہیں وہاں عام عورت کی کوئی عزت نہیں اب اگر کسی ریاست سے خود کو جوڑنا ہی ہے تواس کے اصول بھی اپناو، نکل پڑی گھوڑوں کو جنگل میں سیر کروانے اور واپس نہ آئی۔ اب کیا اخبار کیا سوشل میڈیا سب اس کی تصاویر اور مذمتوں سے بھرا پڑا ہے۔ مجال ہے کہ کوئی یہ سوچے کہ آوارہ گردی کا انجام یہی نکلتا ہے وہ تو جو اسے اٹھا کر لے گئے تھے ان کو اپنے دھرم کا اتنا پاس تھا کہ مندر میں اسے رکھا، یہ احترام نہیں تو اور کیا ہے، قدم تو آصفہ نے اٹھایا ناں، بڑھاوا تو اس نے ان مردوں کو دیا ورنہ گھوڑا زیادہ قیمتی ہوتا ہے وہ کیوں نہ لے گئے اس میں انھیں کیا نظر آیا؟

میں بتاتی ہوں اس کے اٹھتے قدم اس کا یہ اعتماد کہ وہ باہر نکل سکتی ہے گھر کا بوجھ بانٹ سکتی ہے تب ہی اپنے قد کاٹھ سے بڑے گھوڑے لے کر جنگل نکل پڑی، کیا جنگل میں شیر نہیں ہوتے؟ کیا بھیڑیے نہیں ہوتے؟ پر وہ کیا ہے ناں کہ یہ جانور شکار جانور کا ہی کرتے ہیں لیکن آوارہ من کا شکار ہمیشہ سماج کے سدھار کی کوشش رکھنے والا اجلا من کرتا ہے اب اگر وہ ایسا نہ کرے تو سماج تو گندی عورتوں سے بھر جائے اس لئے اس عورت کا عزت اور جان سے جانا ضروری ہے جو اس زعم میں جئے کہ میں غلط نہیں ہاں میں باہر جاسکتی ہوں تو اس ناسور سے معاشرے کو پاک کرنا بہت ضروری ہے۔

وہ آسیہ جو کئی برسوں قبل کراچی میں 98 فیصد جھلسے جسم کے ساتھ سول اسپتال لائی گئی تھی۔ جس نے مرنے سے پہلے بھی جھوٹ بولا تھا کہ جس بنگلے میں وہ ملازمہ تھی اس کے مالک کے بیٹے یسین باوانی نے اپنے دوستوں کے ساتھ ملکر اس کے ساتھ زیادتی کی اور پھر باتھ روم میں لے جاکر جلا دیا۔ بھلا مرنے سے پہلے تو انسان سچ بول دیتا ہے کہ غلطی میری ہے جو فیصل آباد سے کراچی آئی اتنے میلوں کا سفر کرکے، کمانا مقصد نہیں تھا اسکا۔ گھر کا سکون، چار دیواری اسے برداشت نہ تھی، آوارہ قدم اٹھے اور روشنیوں کے شہر میں آبسے۔ بیس سال کی عمر میں اتنا بڑا فیصلہ اور سفر کرنا کسی شریف عورت کا تو کام نہیں ناں، نیک عورتوں کا شیوہ نہیں کہ پرائے گھروں کے بستر جھاڑیں، فرش صاف کریں، جھوٹے برتن دھوئیں، کپڑے دھوکر سکھائیں استری کریں۔ کیا اسے برتن دھوتے ہوئے خیال نہیں آیا کہ جن کے برتن صاف کرتی ہے وہ اس کا میلا تن اور آوارہ من صاف کرنے کا ارادہ بنا سکتے ہیں۔ اب ایسا ہو بھی گیا تو چوں چراں کس بات کی؟ جل گئی تو یہ ہی سوچ لیتی کہ آوارہ عورت کا ویسے بھی مقام عبرت جہنم کی آگ ہے۔ اس پر بھی دیدہ دلیری یہ کہ پولیس کو مرنے سے پہلے بیان لکھوا رہی ہے کہ میرے ساتھ زبردستی کرنے کی کوشش کی گئی میں نے منع کیا، منت کی، ہاتھ جوڑے لیکن انھوں نے میری عزت کو تار تار کیا اور پھر مجھے جلا دیا۔

آئی بڑی عزت کی بات کرنے والی پتہ بھی ہے عزت دار عورتیں کون ہوتی ہیں؟ جاؤ اب جہنم میں بیٹھ کر عزت عزت کا واویلا کرو جہاں پہلے سے ہی ایک عزت دار عالم دین کو بدنام کرنے والے قندیل بلوچ بیٹھی ہے بڑی باتیں کرتی تھی کہتی تھی کہ سب عزت داروں اور دین کی باتیں کرنے والے ملاوں کا ا صلی چہرہ سامنے لاوں گی۔ میں کسی سے ڈرتی نہیں جو کرتی ہوں ڈنکے کی چوٹ پر کرتی ہوں اور ہوا کیا؟ فحاشی اور بے حیائی کا لائسنس رائج کرنے کا سوچنے والی مری تو کہاں؟ اپنے گھر کی چارپائی پر، وہ جو سمجھ رہی تھی کہ نام اور حلیہ بدلنے سے گھر میں سبزی کی جگہ گوشت پکنے لگے گا کچا گھر پکا ہو جائے گا، بھائی کچھ بن جائے گا تو ذمہ داری کم ہوجائے گی۔ شلوار قمیض اور ڈھائی گز کے دوپٹے کی جگہ چست جینز اور کھلے گریبان والی لڑکی جو ہلا مچائے تو کوئی نہیں پوچھے گا اسے اس کے اپنے ہی چھوٹے بھائی نے ہی غیرت میں مار دیا۔

مضمون کا بقیہ حصہ پڑھنے کے لئے “اگلہ صفحہ” کا بٹن دبائیں

سدرہ ڈار

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

سدرہ ڈار

سدرہ ڈارنجی نیوز چینل میں بطور رپورٹر کام کر رہی ہیں، بلاگر اور کالم نگار ہیں ۔ ماحولیات، سماجی اور خواتین کے مسائل انکی رپورٹنگ کے اہم موضوعات ہیں۔ سیاسیات کی طالبہ ہیں جبکہ صحافت کے شعبے سے 2010 سے وابستہ ہیں۔ انھیں ٹوئیٹڑ پر فولو کریں @SidrahDar

sidra-dar has 82 posts and counting.See all posts by sidra-dar