شام کی جنگ میں روس کا کیا مفاد ہے؟


میں نے ملک شام نہیں دیکھا۔ ہاں حج کرنے جاتے ہوئے ہمسایہ ملک اردن کے دارالحکومت عمان کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر چند گھنٹے ضرور قیام رہا تھا۔ اس کے برعکس ایران میں اڑھائی برس رہا تھا اور روس میں چھبیس برس سے مقیم ہوں۔

ٹی وی رپورٹوں میں شام کی تباہی دیکھ کر دل بہت زیادہ خراب ہوتا ہے۔ ایک دفعہ جب کوئی اسلامی جنگجو خنجر سے کسی شامی سپاہی کا سینہ چیر کرکے دل نکال کر باقاعدہ دانتوں سے کاٹ کر کھاتے دکھایا گیا تھا تب طبیعت اوبھ گئی تھی۔ دل پکڑا گیا تھا۔ ایک ہی طرح کی وڈیو میں گذشتہ اور اس برس مرے ہوئے بچے، عجیب طرح سے علاج کیے جاتے بچے اور بڑوں کے سروں پر پانی پھینکتے دکھائے جانے پر کئی سوال ذہن میں اٹھے۔ بھلا ہو مناسب صحافت کرنے والوں کا کہ انہوں نے تحقیق کرکے باقاعدہ ثبوتوں کے ساتھ دکھا دیا کہ ایسے علاقوں میں انسانوں کی مدد کرنے کی آڑ میں کام کرتا ہوا ”وہائٹ ہیلمٹ“ نام کا ایک پیشہ ور گروہ امریکہ، برطانیہ اور دوسرے چند ملکوں کی فرمائش پر معاوضہ لے کر یہ فلمیں تیار کرتا ہے، جس میں بڑی عمر کے لوگ اداکار ہوتے ہیں جبکہ چھوٹے بچوں کو فلم بنانے کی خاطر ان کے معاوضہ دے کر ماں باپ یا وارثوں سے عارضی طور پر حاصل کیا جاتا ہے۔ بچوں کو خوفزدہ کرکے بلکہ بعض اوقات تکلیف پہنچا کر ان کے چہروں پر خوف و کرب کے حقیقی تاثرات پیدا کیے جاتے ہیں، میڈیکل پروسیجرز انہیں مزید خائف اور مظلوم بنا دیتے ہیں۔

آج کے عہد میں ”فیک نیوز“ جن میں تحریری زبانی خبروں کے علاوہ وڈیو بھی شامل ہوتی ہیں، جنگ اور سیاست دونوں کا ہی حصہ بن چکے ہیں۔ ایک زمانے میں ”سائی وار“ یعنی نفسیاتی جنگ، جنگ سے پہلے اور جنگ کے دوران، جنگ کا حصہ ہوتی تھی مگر دوسری جنگ کے دوران میڈیا کے ذریعے بھی جنگ کرنے کا طریقہ شروع ہو چکا تھا، جو آج کی ڈیجیٹل کمیونیکیشن دنیا میں بہت پیچیدہ اور متاثر کن ہو چکا ہے۔

میں نے شروع میں لکھا کہ مجھے ملک شام دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوا مگر روس میں ایک عرصے سے مقیم ہوں۔ شام میں جنگی تباہی، انسانی الم دیکھ کر جی برا ہوتا تھا سو ہوتا تھا مگر روس کی شام کی جنگ میں براہ راست شمولیت کے بعد، اس جنگ کے متعلق جاننے میں بھی دلچسپی پیدا ہو گئی تھی۔

گذشتہ ہفتے کے دوران، میں نے شام سے متعلق دو مضامین لکھے۔ اس سے پہلے بھی لکھے تھے۔ مگر شام پر چند گھنٹے تک میزائلوں سے کیے گئے امریکی حملے اور حملے کی دھمکی کے بعد سے حملہ ہونے کے بعد تک روس کے ردعمل کی وجہ سے لوگوں نے ان مضامین میں زیادہ دلچسپی لی۔ اپنی آراء بھی لکھیں اور سوال بھی کیے۔

ایک خاتون نے پوچھا، شام میں ایسا کیا ہے کہ سب وہاں لڑ رہے ہیں؟ جی ہاں شام میں عراق کی طرح بہت زیادہ تیل نہیں ہے۔ شام کی تاریخی اہمیت کے علاوہ اس کی تزویری طور پر اہمیت تین حوالوں سے ہے۔ شام ترکی کا ہمسایہ ہے اور ترکی امریکہ کا حمایتی اور نیٹو میں شامل ملک۔ ترکی کے علاوہ عراق اور اردن دو عرب ہمسایہ ملک ہیں، یہ معاملہ تزویری نوعیت کا اس لیے نہیں کہ عراق اب تک امریکہ کا مفتوحہ ملک تھا اور عراق و اردن دونوں نیٹو میں شامل نہیں۔ چھوٹا سا مگر مسلسل کشیدہ حالات کا شکار لبنان بھی اس کے ساتھ جڑتا ہے۔

تزویری طور پر دوسری اہم بات یہ کہ اسرائیل شام کا ہمسایہ ہے، نہ تو عرب، نہ نیٹو کا رکن مگر گولان یا جولان کی پہاڑیوں پر اسرائیل کے قبضے کی وجہ سے اس کا شام سے تنازعہ ہے۔ اسرائیل مشرق وسطٰی میں واحد ملک ہے جس کے پاس جوہری ہتھیار ہیں، اگرچہ اس سے متعلق دعوٰی یا اعلان کبھی نہیں کیا گیا۔
تیسری تزویراتی اہمیت اس کا بحیرہ روم سے منسلک ہونا ہے۔

افغانستان میں امریکہ نے پاؤں جما لیے تھے۔ اسلام کے نام پر جنگ کا کھیل کھیلنے میں طاق، جو اس کے علاوہ کوئی اور کام کرنا نہیں جانتے، جنگجو افغانستان میں خود کو مطمئن خیال نہیں کر رہے تھے۔ پہلے وہ عراق منتقل ہوئے، مگر عراق کی فوج پہلے سے امریکہ کے آگے جھک چکی تھی۔ چنانچہ اپنے پالے ہوئے دہشت گردوں کے لیے امریکہ کو کوئی جگہ درکار تھی جہاں وہ جنگ کا کھیل کھیلتے رہیں۔ شام میں آگ بھڑکائی گئی۔ صدام اور حافظ الاسد دونوں بعث پارٹی سے تھے۔ بشار حافظ الاسد کے فرزند ہیں۔ وہ مقامی باغی جنگجووں کے سامنے ڈٹ گئے۔ امریکہ نے، لیبیا میں قذاقی کو مروانے کے بعد بشارالاسد کو معزول کرنے کی ٹھان لی تھی اور اب بھی ٹھانے ہوئے ہے۔ مگر شام کی بحیرہ روم میں بندرگاہ طرطوس، دنیا بھر میں روس کا واحد تکنیکی ٹھکانہ ہے، جہاں بحیرہ روم میں متعین اس کے جنگی بحری جہازوں کا عملہ استراحت کر سکتا ہے اور ضرورت پڑنے پر وہاں اس کے بحری جہازوں کی مرمت کی جا سکتی ہے۔

مغرب نے شام کو نام نہاد اسلامی جنگجووں کی پناہ گاہ بنا کے رکھ دیا ہے۔ عراق میں بنائی جانے والی انتہائی سفاک جنگجو دہشت گرد تنظیم داعش نے جب شام میں بہت زور پکڑ لیا تو بشارالاسد کی درخواست پر روس نے اپنی فضائیہ اور اپنے عسکری مشیر وہاں بھیج دیے۔

دہشت گردوں سے شامی فوج، اس کے مددگار ایران کے سپاہ پاسداران و بسیج کے جوان نمٹتے ہیں مگر انہیں تکنیکی عسکری معاونت روس سے ملتی ہے۔ شنید ہے کہ وہاں روس اور سابق سوویت یونین کی ریاستوں کے پرائیویٹ فوجی یا کرائے کے سپاہی بھی لڑ رہے ہیں۔ اس کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے مگر ایسا ہونا ممکن ہے کیونکہ مختلف دہشت گرد جنگجو تنظیموں میں بھی دنیا بھر سے شامل لوگ مصروف جنگ ہیں۔

شام میں مغرب کی دوہری پالیسی ہے۔ ایک جانب وہ عالمی دہشت گردی کے خاتمے کی جنگ کا نعرہ لگاتا ہے تو دوسری طرف ایک قانونی حکومت کے خلاف باغیوں اور ان کے ساتھ مل کر لڑنے والے دہشت گرد تنظیموں کے اراکین کی ہر طرح سے مدد کرتا ہے۔

جب شامی فوج اور ان کے حامی دستوں نے دہشت گردوں کا تقریباً قلع قمع کر دیا، یہ نہیں کہ سب کو مار دیا بلکہ بہت سوں کو ان کے کنبوں سمیت کسی بھی طرف کا رخ کرنے کو ”سیف کاریڈور“ بھی دے دیا تو یک لخت ”کیمیائی حملے“ کا کھیل کھیلا گیا۔

ساری دنیا مغربی ذرائع ابلاغ کے ہی زیر اثر ہے۔ شام کے پاس تو موثر ذرائع ابلاغ ہے ہی نہیں۔ روس کے پاس ماسوائے ایک انگریزی/ عربی/ ہسپانوی چینل ”رشیا ٹوڈے“ اور دو بڑی نیوز ایجنسیوں کی سائٹس کے اور کچھ نہیں۔ ان ایجنسیوں کی سائٹس سے معدودے چند لوگ ہی استفادہ کرتے ہیں باقی دنیا وہی ٹی وی چینلز دیکھتی ہے اور وہی اخبار اور سائٹس پڑھتی ہے، جن کے ذرائع مغربی ہیں۔

اب آتے ہیں، اس اعتراض کی طرف کہ روس اور امریکہ آپس میں کبھی نہیں لڑیں گے، یہ دوسرے ملکوں میں ہی جنگ کرتے رہیں گے۔ یہ کہنا بالکل بے بنیاد ہے۔ اول تو ایسی خواہش ہی نہیں کرنی چاہیے کہ دنیا کی ان دو سب سے بڑی جوہری طاقتوں کے درمیان براہ راست تصادم ہو۔ دوسرے یہ کہ روس اور امریکہ اب تک کسی ملک میں ایک دوسرے کے مد مقابل نہیں آئے۔ افغانستان میں افغان سرکاری فوج کے ساتھ ”سوویت یونین“ کے فوجی تھے، تب روس نام کا کوئی ملک وجود ہی نہیں رکھتا تھا۔ امریکہ بظاہر براہ راست ملوث نہیں تھا، افغان نام نہاد مجاہدین اور پاکستان کی مدد کرتا رہا تھا۔ پاکستان نے افغانستان میں امریکہ کی ”پراکسی وار“ لڑی تھی۔ اب یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔

یوکرین کے مشرقی علاقے میں جو لڑائی ہوئی تھی اس میں مقامی گوریلا دستے جنہیں شاید روس کی جانب سے بھی امداد ملتی تھی، یوکرین کی فوج کے خلاف بر سرپیکار رہے تھے۔ اب بھی کبھی کبھار جھڑپ ہو جاتی ہے۔

ابخازیہ میں بھی روس کے ساتھ جارجیا کی لڑائی ہوئی تھی۔ یہ ضرور ہے کہ جارجیائی فوج کے مشیر اور ٹرینر امریکی فوجی تھے۔
چونکہ شام میں روس کی فوج اور فضائیہ دونوں موجود ہیں۔ امریکہ نے اگر غلطی سے بھی روس کے کسی ٹھکانے کو نشانہ بنا دیا تو مشرق وسطٰی میں جنگ بھڑک اٹھے گی۔

یہ کہنا کہ روس اور امریکہ اپنا اسلحہ بیچنے کی خاطر بقول ایک دوست کے یہ ”نورا کشتی“ لڑ رہے ہیں تو اس میں بھی کوئی صداقت نہیں ہے۔ شام کی لڑائی میں عام ہتھیار استعمال ہوتے ہیں، چھوٹے سے علاقے میں چھوٹی سی جنگ ہے۔ نہ سینکڑوں ٹینک فروخت ہوتے ہیں، نہ دسیوں جنگی بحری جہاز و آبدوزیں، نہ ہی درجنوں جنگی طیارے اور نہ ہی بے تحاشا میزائل۔ یہ اور بات کہ خدانخواستہ مغرب کی کسی غلطی یا غلط تزویری اندازے کے سبب کوئی بڑی جنگ چھڑ جائے، ایسی صورت میں عرب ملک امریکہ اور دیگر مغربی ملکوں سے ہی اسلحہ، گولہ بارود اور جنگی سامان خریدیں گے۔ روس کا تو گاہک اس علاقے میں ایک ہی ہے یعنی شام جو مفلوک الحال ہے، دوسرا سنا ہے سعودی عرب ہے جس نے ابھی فقط معاہدے کیے ہیں۔

”نورا کشتی“ تو یہ بہر طور نہیں ہے۔ نورا کشتی میں ایک کو زیادہ فایدہ ہوتا ہے اور کشتی ہار جانے والے کو بھی پس پشت تھوڑا بہت مفاد ملتا ہے مگر یہ کشتی تیسرے فریق یعنی تماشائیوں کو دکھانے کے لیے ہوتی ہے جب کہ شام کی لڑائی میں تماشائی ہے ہی نہیں متاثرین بہت زیادہ ہیں۔

یہ اعتراض یا بیان کہ یہ بڑے ملک مسلمانوں کو ہی مرواتے رہیں گے، کہنا اس لیے بے سبب ہے کہ اگر مسلمان مسلمان کو مارنا نہ چاہیں تو کوئی انہیں اکسا نہیں سکتا مگر یہ کوئی پہلی بار نہیں ہے۔ اسلام کے آغاز سے کچھ ہی عرصہ بعد کی جنگ جمل اور بعد کی دوسری جنگیں گواہ ہیں کہ آپس کے اختلافات ہی پہلے مناقشے اور بعد میں جدل کا باعث بنتے رہے ہیں اور اب تک ہیں۔

شام میں جنگ اختیار کی جنگ ہے۔ امریکہ روس سے آخری اختیار چھین لینا چاہتا ہے تاکہ مشرق وسطٰی زیر نگیں آنے کے بعد وہ چین کے درپے ہو جائے۔ برصغیر مین اس نے ہندوستان کو ویسے ہی اپنا حلیف بنا لیا ہے۔ جنوبی ایشیا میں بشمول پاکستان چین کے بھی حلیف ملک ہیں۔ روس کی انتہائی کوشش رہے گی کہ شام کے معاملات شام کے لوگ ہی حل کریں۔ روس بشارالاسد کا حامی نہیں بلکہ چاہتا ہے کہ وہاں ایسی اتھل پتھل نہ ہو کہ اسے طرطوس کی بندرگاہ سے ہاتھ دھونے پڑیں اور بس۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).