بھیا ڈھکن فسادی اور دیوار کا معاملہ


بھیا ڈھکن فسادی سخت ناراض تھے۔ آتے ہی برس پڑے۔
بھیا ڈھکن فسادی: یہ قوم تباہ ہو جائے گی۔
ہم: بھیا اتنی قطیعت سے آپ نے یہ حکم کیسے لگا دیا ہے؟

بھیا ڈھکن فسادی: یہ نوشتہ دیوار ہے۔ تم نے دیکھا نہیں کہ بی این یو کے طلبا و طالبات نے دیوار پر کیا قبیح حرکت کی ہے؟
ہم: جناب یہ قبیح حرکت آپ مت دیکھیں اور کسی دوسری دیوار نظر ڈال لیں۔ شہر میں دیواروں کی کمی تو ہرگز بھی نہیں ہے۔

بھیا ڈھکن فسادی: یعنی قوم کو قعر معذلت میں گرتے دیکھتا رہوں اور ہاتھ پر ہاتھ رکھے چپ چاپ بیٹھا رہوں۔ نہ بھائی نہ، یہ بے غیرتی ہم سے نہیں ہو گی۔
ہم: بھیا آپ قوم پر نگران تو نہیں ہیں۔

بھیا ڈھکن فسادی: اگر ہم آواز نہیں اٹھائیں گے تو پھر یہ وبا پھیلتی جائے گی۔
ہم: بھیا آپ کو مسئلہ ہے تو آپ اس کے لیے آواز اٹھانے کو اپنا بنیادی حق سمجھتے ہیں، تو پھر ان طلبا و طالبات کو جو مسئلہ اپنے لیے اہم لگا، اس پر انہوں نے آواز اٹھا دی۔ کیا آواز اٹھانے کا حق صرف آپ کو دیا جائے یا سب کو یہ حق دینا انصاف ہے؟

بھیا ڈھکن فسادی: تم نہایت ہی گمراہ شخص ہو۔ کل کو یہ لوگ دیوار پر بول و براز چسپاں کر رہے ہو گے تو کیا تم پھر بھی یہ انصاف انصاف کی رٹ لگاؤ گے؟
ہم: بالکل ہم یہی رٹ لگائیں گے۔ جب ہزاروں سال سے دیوار پر بول و براز چسپاں ہو رہا ہے تو پھر آپ کی خاطر اس مفید رسم کو اب کیوں ختم کیا جائے؟

بھیا ڈھکن فسادی: مفید رسم؟ تم ایک غلیظ رویے کو مفید کہہ رہے ہو؟
ہم: درست فرمایا۔ یہ جو ایندھن کے لیے پاتھیاں لگائی جاتی ہیں، کیا وہ بول و براز نہیں ہیں؟

بھیا ڈھکن فسادی: اس کا اس سے کیا تعلق؟ وہ تو مویشیوں کے گوبر سے بنائی جاتی ہیں۔
ہم: لیکن کیا اس سے اس کی کیفیت میں کوئی فرق پڑتا ہے؟ کیا گوبر بول و براز میں شمار نہیں ہوتا ہے؟ کیا آپ اسے اپنے مبارک و متبرک ہاتھوں سے دیوار پر لگانا پسند کریں گے؟

بھیا ڈھکن فسادی: استغفر اللہ۔ ہم ایسے قبیح کاموں سے دور رہنا پسند کرتے ہیں۔
ہم: اور آپ ایسے قبیح کاموں کے خلاف ایسے جوش و جذبے سے مہم چلانے سے دور رہنا بھی پسند کرتے ہیں جیسا آپ بی این یو کے معاملے میں دکھا رہے ہیں۔

بھیا ڈھکن فسادی: وہ ایک الگ معاملہ ہے۔ وہ تو جنسیت کا سرعام اشتہار لگانے والی بات ہے۔
ہم: یعنی اب آپ اپنے موقف پر نظرثانی کر رہے ہیں اور بول و براز کی بجائے آپ کا مسئلہ یہ ہے کہ آپ بی این یو کے طلبا و طالبات کی طرف سے جنسیت کا دیوار پر اشتہار لگانے کے خلاف ہیں اور اس لیے یہ مہم چلا رہے ہیں؟

بھیا ڈھکن فسادی: شکر ہے کہ تمہاری موٹی عقل میں یہ بات آ گئی ہے۔ جنس ایک نجی معاملہ ہے۔ اسے دیواروں پر یوں نہیں لگایا جانا چاہیے۔
ہم: بھیا اس صورت میں آپ دیواروں پر لگے حکیمی اشتہاروں کے خلاف ایسے جوش و جذبے سے مہم چلاتے کیوں نظر نہیں آتے ہیں؟

بھیا ڈھکن فسادی: ان اشتہاروں کا اس معاملے سے کیا تعلق ہے؟

ہم: آپ عمومی طور پر دیواروں پر جنسی اشتہار لگانے کے مخالف ہیں، کسی ایک خاص یونیورسٹی کے طلبا و طالبات کی طرف سے یہ کیے جانے کے مخالف نہیں ہیں۔ تو اس صورت میں ان مردانہ حکیمی اشتہارات پر مبنی نوشتہ دیوار پر بھی آپ کو اسی جوش سے مہم چلانی چاہیے اور شہر بھر کی دیواریں اس لعنت سے پاک کر دینی چاہئیں۔ لیکن آپ شہر کی ہزاروں دیواروں کو چھوڑ کر ایک ہی دیوار پر توجہ کیوں مرکوز کیے ہوئے ہیں؟

بھیا ڈھکن فسادی: وہ تو صحت عامہ کے متعلق ایک طبی مسئلے کے حل کی خاطر لگائے گئے حکیمی اشتہارات ہوتے ہیں۔
ہم: یہ بھی صحت عامہ سے متعلق ایک طبی مسئلہ ہی ہے، فزکس یا معاشیات کا مسئلہ نہیں ہے جس پر آپ معترض ہیں۔

بھیا ڈھکن فسادی: لیکن وہ اشتہارات تو نہایت معقول ہوتے ہیں اور اخبارات اور جرائد میں بھی شائع کیے جاتے ہیں۔

ہم: اخبارات و جرائد کے علاوہ وہ اب سوشل میڈیا کی دیواروں پر بھی چسپاں کیے جاتے ہیں۔ کتنے رسائل و جرائد کے خلاف آپ نے یہ مہم چلائی ہے جو کہ آپ بی این یو کے طلبا و طالبات کے خلاف چلا رہے ہیں؟ آپ تو ایک شہر کے ایک دور دراز گوشے کی ایک وال پر نالاں ہیں اور اس پر قوم کی تباہی کا نوشتہ دیوار لکھا پڑھ رہے ہیں، لیکن کیا آپ نے اخبارات کے اتوار کے میگزین دیکھے ہیں جو کہ گھر گھر پہنچتے ہیں؟ کیا آپ نے ان اخبارات و جرائد کے دفاتر کے باہر اس کھلی فحاشی کے خلاف مظاہرے کیے ہیں؟ کیا آپ نے ایسے جوش و جذبے سے سوشل میڈیا پر موجود ان اشتہارات کو رپورٹ کر کے بلاک کروانے کی مہم چلائی ہے؟ یا بس آپ کو اعتراض اس چیز پر ہے کہ اس دور دراز کے دیواری اشتہار کا تعلق زنانہ طبی مسائل سے ہے اس لیے یہ قابل مذمت ہے اور ہر جگہ موجود مردانہ طبی مسائل والی دیواریں ایک قومی خدمت ہیں؟

بھیا ڈھکن فسادی: تم کج بحثی کے بادشاہ ہو۔ اچھے بھلے عام فہم مسئلے کو سمجھنے سے انکار کر دیتے ہو اور بحث کر کر کے سر میں درد کر دیتے ہو۔ اب کسی مناسب جگہ جا کر کچھ کھلاؤ تو طبیعت بحال ہو گی۔

عدنان خان کاکڑ
اس سیریز کے دیگر حصےبھیا ڈھکن فسادی کہتے ہیں کہ بھٹو اسلام دشمن تھابھیا ڈھکن فسادی نے سماج سدھارا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
3 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments