’’فرہنگ آصفیہ‘‘ نئے لباس میں


ابتدا میں اُردو کی جو لغات سامنے آئیں، وہ غیر ملکیوں، بالخصوص انگریزوں کی مرتب کی ہوئی تھیں۔ جو قابلِ ذکر لغات ہیں وہ گلکرسٹ ، شیکسپیئر، فوربس، فیلن اور پلیٹس نے تیار کیں۔ انہوں نے مقامی زبان دانوں سے بھی مدد لی۔ انگریزوں کو لغت نویسی کی ضرورت کیوں پیش آئی، اس کا کچھ اندازہ ہمیں ہے۔ لیکن اُردو بولنے والوں نے اس طرف توجہ کیوں نہ دی، اس کے بارے میں کچھ کہنا مشکل ہے۔ یہ بھی نہیں کہ لغت نویسی کی مثالیں اہلِ اُردو کے سامنے نہ ہوں۔ عربی اور فارسی کا دامن لغات سے خالی نہ تھا۔ انگریزوں کی دیکھا دیکھی بعض افراد کو بڑے پیمانے پر اُردو لغت مرتب کرنے کا خیال آیا۔ اس طرح جو لغات منظرِ عام پر آئیں وہ کسی نہ کسی فردِ واحد کی محنت اور شوق کا نتیجہ تھیں۔ ’’فرہنگِ آصفیہ‘‘ سید احمد دہلوی، ’’نور اللغات‘‘ نور الحسن ’’جامع اللغات‘‘ خواجہ عبدالمجید اور ’’مہذب اللغات‘‘ مہذب لکھنوی نے تیار کی۔ امیر مینائی نے بھی کام کا آغاز کیا تھا لیکن ان کی ’’امیر اللغات‘‘ نامکمل رہ گئی۔ زیادہ شہرت ’’فرہنگ آصفیہ‘‘ کے حصے میں آئی۔ ایک مدت سے وہ خارج از طبع تھی۔ جب طباعت کے فن میں آسانیاں پیدا ہوئیں تو اس کا عکس لے کر شائع کیا گیا۔ سب سے بہتر ایڈیشن سہیل اکیڈمی ’’لاہور‘‘ کا تھا۔ وہ اب نہیں ملتا۔

یہ خیال کس کو نہ آیا کہ لغت کی اہمیت کے پیش نظر اسے، عکس لے کر چھاپنے کے بجائے، کمپوز کر کے شائع کیا جائے۔ اس اعتبار سے سید یاسر جواد اور الفیصل پبلشرز داد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے مل کر یہ مشکل کام سر انجام دیا۔ سید احمد دہلوی نے واقعی بڑی محنت کی لیکن سچ پوچھیے تو انہیں ٹھیک طرح علم نہ تھا کہ لغت نویسی کے تقاضے کیا کیا ہیں۔ میں صرف سید احمد دہلوی کو الزام دینا نہیں چاہتا۔ لغت نویسی کے فن سے نور الحسن، خواجہ عبدالمجید اور مہذب لکھنوی بھی آشنا نہ تھے۔ کراچی سے بائیس جلدوں پر مشتمل جو اُردو لغت شائع ہوئی ہے وہ بھی نقائص سے مبرا نہیں۔ پہلی بات یہ کہ ’’فرہنگِ آصفیہ‘‘ سو سال پرانی ہو چکی۔ لہٰذا اس طویل مدت کے دوران میں جن ہزاروں لفظوں کا اُردو میں اضافہ ہوا، وہ لغت میں نہیں ملیں گے۔ یہ ثانوی بات ہے۔ اس نقطۂ نظر سے جائزہ لیا جائے تو کسی لغت پر کاملیت کا ٹھپا چسپاں نہیں کیا جا سکے گا۔ سو معاملہ یہ ہے کہ ’’فرہنگِ آصفیہ‘‘ تاریخی طور پر تو یقیناًوقیع ہے لیکن اب صحیح معنی میں کارآمد نہیں۔

چند اور خرابیاں بھی ہیں۔ ایک دفعہ دیباچہ پڑھتے ہوئے، جو خاصا طویل ہے، خیال آیا کہ بعض لفظ جو سید احمد نے دیباچے میں استعمال کیے ہیں انہیں لغت میں جگہ دی ہے یا نہیں۔ کوئی پچاس ساٹھ صفحے یہ معلوم کرنے کے لیے دیکھے گئے اور پتا چلا کہ کتنے ہی لفظ ایسے ہیں جو سید احمد نے دیباچے میں برتے ہیں لیکن لغت میں درج نہیں کیے، مثلاً ’’ انطباع، پمفلٹ، اقل، امانتی، ٹیلی فون، اولوالالباب، احفاد، اقطاع، ازدیاد، امصار، پرائمری (جس کے بارے میں خود لکھا ہے کہ کوئی عورت نہیں جو اس کے معنی نہ جانتی ہو) وغیرہ۔‘‘ یہ مکمل فہرست نہیں۔ تعجب اس پر آتا ہے کہ لغت نویس کو لفظ کا علم ہو اور پھر بھی اس کا اندراج نہ کرے۔

ایک اور دقت یہ ہے کہ بعض مقامات پر سید احمد فیصلہ ہی نہیں کر پاتے کہ وہ لغت تیار کر رہے ہیں یا انسائیکلوپیڈیا۔ اس کی مثالیں فرہنگ میں جابجا موجود ہیں۔ ایک بڑا مسئلہ مندرجہ الفاظ کی معقول تعریف کا ہے۔ یہاں آکر اُردو کے سبھی لغت نویس ٹھوکر کھاتے ہیں اور صرف مترادفات درج کر کے پیچھا چھڑا لیتے ہیں۔ مثال کے طور پر ’’شجاعت‘‘ کے معنی ’’دلیری، بہادری‘‘ لکھ دیں گے اور ’’دلیری‘‘ کے معنی ’’بہادری، شجاعت‘‘ علیٰ ہذا القیاس۔ یہ مانا کہ بعض لفظوں کی تعریف ممکن ہی نہیں۔ آخر سرخ یا سبز یا میٹھا یا کڑوا کے بارے میں کیا لکھیں؟ یہ استثنائی معاملات ہیں۔ بیشتر لفظوں کی، جامع نہ سہی، کسی حد تک تعریف ممکن ہے۔ ایک مثال پیش ہے۔ یہ کراچی کی بڑی لغت کی سولہویں جلد سے لی گئی ہے۔ وہاں ’’گل اشرفی‘‘ کے معنی یہ درج ہیں ’’زرد رنگ کا ایک پھول‘‘۔ یہ کوئی بات نہ ہوئی۔ لغت سے رجوع کرنے والے کو یہ تو پہلے ہی معلوم ہو چکا ہو گا کہ گل اشرفی سے کسی قسم کا پھول مراد ہے۔ وہ اس کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنے کا خواہاں ہو گا۔ اس اندراج سے اسے صرف مایوسی ہو گی۔ لغت کو کم از کم یہ بتانا چاہیے : یہ پھول جھاڑی پر آتا ہے یا درخت پر یا زمین پر بچھی یا دیوار وغیرہ پر چڑھی بیل پر۔ اس کا کیا رنگ ہے یا اس کے کتنے رنگ ہیں۔ خوشبو ہے یا نہیں۔ موسمی ہے یا سدا بہار یعنی پھول کسی خاص موسم میں آتے ہیں یا سال بھر کھلتے رہتے ہیں۔ اور آخر میں پھول یا پودے کا سائنسی نام۔ اگر اتنی محنت نہ کی جائے تو لغت بنانے کا فائدہ کچھ نہیں۔ اگر لغت یک جلدی ہو تو مندرجہ بالا اندراج کو مختصر کیا جا سکتا ہے۔

یہاں تک پہنچ کر قاری یہ سوچنے میں حق بجانب ہو گا کہ ’’فرہنگِ آصفیہ‘‘ کے عیب تو گنا دیے۔ خوبیاں اگر ہیں تو کیاں ہیں؟ سید احمد دہلوی 1846ء میں پیدا ہوئے۔ 1918ء میں انتقال کیا۔ چناں چہ انہوں نے انیسویں صدی کا نصف آخر اور بیسویں صدی کا کچھ حصہ بچشم خود دیکھا۔ اس کے علاوہ انہیں ایسے بہت سے لوگوں سے ملنے اور ان کے مشاہدات سننے کا اتفاق ہوا ہو گا، جو اٹھارویں صدی کے آخر میں پیدا ہوئے ہوں گے اور 1857ء کی دارو گیر سے پہلے کا عالم دیکھ چکے ہوں گے۔ 1857ء کو ایسی خونی لکیر سمجھنا چاہیے جس کے بعد شمالی ہند میں پرانی رونق، رسم و رواج، رہن سہن کے طریقوں کو آہستہ آہستہ گھن لگنا شروع ہو گیا۔ اب ہمارے ذہن میں انیسویں صدی کا دھندلا سا تصور ہے۔ انیسویں صدی کا ذکر کیا، آج کل تو لوگوں کو پچاس برس پہلے کی باتیں بھی ٹھیک طرح یاد نہیں۔ سید احمد دہلی کے رہنے والے تھے جسے ان دنوں ’لکھنؤ کی طرح‘ اُردو کے تعلق سے ایک طرح کی مرکزیت حاصل تھی۔ سید احمد کو دہلی کے علاوہ لاہور، شملہ اور الور میں رہنے کا اتفاق بھی ہوا۔ غرض یہ کہ جو صحیح معنی میں لغت نویس ہو وہ کسی حد تک دیوانہ اور بڑی حد تک حریص ہوتا ہے۔ اس کا جی چاہتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ لفظ جمع کر لے۔ لیکن لغت ایسی شے ہے کہ اگر انفرادی طور پر مرتب کی جائے تو اس میں کمیاں رہ جاتی ہیں۔ اصل میں یہ ایک آدمی کا کام ہے بھی نہیں۔ بہرحال، ’’فرہنگِ آصفیہ‘‘ مغتمنات میں سے ہے اور اس کا یہ نیا کمپوز شدہ ایڈیشن اپنی طرف خاص طور پر متوجہ کرتا ہے۔ جب بھی اس کی ورق گردانی کی ہے سیکڑوں لفظ ایسے نظر آئے ہیں جو اب نہ کوئی لکھتا ہے نہ بولتا ہے۔

یاسر جواد

ہر طرف بے نمک اخباری نگارش کا چلن ہے۔ سچ یہ ہے کہ اس لغت کو الٹنے پلٹنے اور بھانت بھانت کے لفظوں سے دو چار ہونے میں عام فکشن اور شاعری سے زیادہ لطف ہے۔ جس کو زبان سے لگاؤ ہو اس کے لیے ’’فرہنگِ آصفیہ‘‘ سیر گاہ سے کم نہیں۔ سید یاسر جواد اور ان کے معاون رفاقت راضی نے فی الواقعی نئے ایڈیشن پر خاصی محنت کی ہے۔ کتابت اور طباعت کی غلطیوں کی درستی پر توجہ دی ہے، صرفی و نحوی تسامحات دور کیے ہیں، اشعار جو غلط درج ہو گئے تھے ان کا صحیح متن تلاش کرنے کی سعی کی ہے، املا میں یکسانیت لانے پر توجہ دی ہے۔ یہ خطرہ ضرور تھا کہ نئے سرے سے کمپوزنگ کے بعد اس میں غلطیوں کی بھرمار نہ ہو جائے۔ یہ صورتِ حال فرہنگ سے مستفید ہونے والوں کو بدحظ اور بدظن کر سکتی تھی۔ پروف خوانی پر ہمارے ہاں عموماً کم توجہ دی جاتی ہے۔ مقامِ شکر ہے کہ کتاب کے پروف احتیاط سے پڑھے گئے ہیں۔ کہیں کہیں غلطیاں اب بھی رہ گئی ہیں، لیکن پونے چار ہزار صفحات میں غلطیوں سے کہاں تک بچا جا سکتا ہے۔

برسبیل تذکرہ دو غلطیوں کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے۔ ص 758 پر ’’گھٹیا نے پکڑ لیا‘‘ درج ہے۔ یہ بے معنی ہے۔ ’’گٹھیا نے پکڑ لیا‘‘ صحیح ہے۔ یا ص 3443 پر ہے: ’’مار موئے مار تیری ہتڑی چرائے۔۔۔‘‘ چرائے بالکل غلط ہے۔ صحیح ’’پِرائے‘‘ ہے۔ ’’پرانا‘‘ ص 738 پر موجود ہے۔ وہاں یہی مثل صحیح درج ہے۔: ’’مار موئے مار تیری ہتڑی پرائے میری عادت ہی نہ جائے۔‘‘ مطلب یہ ہے کہ چاہے اتنا مار کہ تیرا ہاتھ دُکھنے لگے مگر میری بری عادت نہ جائے گی۔ آخر میں خیال آتا ہے کہ جب یاسر جواد اتنی محنت کرنے پر قادر ہیں اور ان کا ساتھ دینے کے لیے ناشر بھی موجود ہے تو لگے ہاتھوں ایک کام اور کیوں نہ کر ڈالیں! پلیٹس کی لغت بہت اہم ہے بلکہ بعض اعتبار سے بے مثل ہے۔ انیسویں صدی کے بعد دوبارہ کمپوز ہو کر نہیں چھپی۔ اولیں کمپوزنگ اتنی باریک ہے کہ اب اسے پڑھنا تکلف سے خالی نہیں۔ کیا خوب ہو اگر اسے بھی نئے سرے سے کمپوز کر کے دو جلدوں میں شائع کر دیا جائے۔ یہ بڑی خدمت ہو گی۔

فرہنگ آصفیہ از سید احمد دہلوی (چار جلدوں میں)

تدوین: سید یاسر جواد

ناشر: الفیصل، لاہور

ص، 3724، 4500 قیمت  روپے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).