دوسروں کے لئے انصاف مانگنا ہی اصل انصاف پسندی ہے


جھیلوں، جھرنوں اورپہاڑوں کیلئے مشہورفریزر ویلی کا باسی ہوئے ایک دہائی سے کچھ اوپر ہونے کو آیا۔ویسے تو یہ وادی کثیرالثقافتی معاشرہ کا شاہکار ہے مگر مشرقی پنجاب سے آنے والے مہاجر یہاں بڑی تعداد میں آبادہیں۔عرصہ دس سال میں مختلف الخیال اصحا ب سے قربت کے رشتے استوار ہوئے۔کل شام پنجابی کے معروف شاعر جناب بھوپندر دھلیوال نے واٹس ایپ پراین ڈی ٹی وی کے رویش کمار کا ایک ویڈیو کلپ شیئر کیا۔ ہندوستانی میڈیا میں انسانی حقوق کے حوالہ سے رویش کمار کی آواز بہت جاندار ہے، گو کہ مودی سرکار نے انڈین میڈیا کے ایک بہت بڑے حصہ کو لالچ یا دھونس دیکر اپنے زیرِ اثر کرلیاہے۔بھوپندر جی کا بھیجا ہوا کلپ جموں کشمیر کی آصفہ کے بارے میں تھا جو کہ ایک مندرمیں زیادتی کا شکار ہوئی۔اس کلپ کا دیکھنا طبیعت پرکافی گراں گذرا۔آٹھ سالہ بچی آصفہ کو ہندوستان کے بندوبستی جموں کشمیرمیں مذہب کے نام پر ایک مندر میں لے جاکر زیادتی کا نشانہ بنایا اور پھر اسے بیدردی سے قتل کردیا

یہ ویڈیو کلپ میں نے اپنے دوست مکیش شرما سے شیئر کیا۔ شرما جی کا آبائی شہر دہلی ہے اور آج کل کیملوپس میں تھامسن ریور یونیورسٹی کے زیرِ سایہ رہتے ہیں۔پنڈت شرماجی سے کافی دنوں سے یاد اللہ ہے۔موصوف انڈیا میں بی جے پی کی سیاست میں کافی سرگرم رہے ہیں اور اب بھی اٹھتے بیٹھتے مودی جی کے گُن گاتے ہیں اور راشٹریہ سیوک سنگھ کے فلسفہ سے متاثر ہیں ۔ ان کویقین ہے کہ پاکستان ہندوستان کا ازلی دشمن ہے بالکل ویسے ہی جیسے پاکستان میں بہت سے صاحبِ ایمان لوگوں کا خیال ہے کہ ہندو پاکستان کا ازلی دشمن ہے۔

ویڈیو کلپ شئیرکرنے کے کچھ دیر بعدشرما جی کا جواب آیا کہ یہ سب این ڈی ٹی وی کی شرارت ہے اور رویش کمار ایک کمیونسٹ ہے او ر کمیونسٹ بی جے پی کو بدنام کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔شرما جی کاموقف میرے لئے غیرمتوقع نہیں تھا مگر میں سوچ رہاہوں کہ شاید ہم جنوبی ایشیائی لوگوں کے ڈی این اے میں کوئی خرابی ہے کہ ہم جسے دشمن سمجھتے ہیں اس کی تکلیف سے لطف لیتے ہیں۔ بجائے اس کے کہ ہم victimکے ساتھ کھڑے ہوںہم دشمن کے کیمپ میں کھڑے لوگوں کی تکلیف سے لذت کشید کرتے ہیں۔ یہ رویہ ہندوستان اورپاکستان میں ایک ہی سطح پر موجود ہے۔

پاکستان میں ہمیں کسی غیرمسلم کے بے گناہ مارے جانے پر کوئی تکلیف نہیں ہوتی۔روزانہ کی بنیاد پرہم ان واقعات سے لذت لیتے ہیں کہ جن میں احمدیوں ، عیسائیوں حتیٰ کہ اہلِ تشیع ہم وطنوں کو صرف عقیدے کی بنا پر مارا جاتا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ اگر کراچی میں لوگ سڑکوں پر بے گناہ مارے جائیں تو لاہور والے ان کا درد محسوس نہیں کرتے۔شمالی علاقوں میں ہونے والی قتل و غارت کراچی کے باسیوں پر اثرانداز نہیں ہوتی۔اپنے پیاروں کی تکلیف پر ہم تڑپ جاتے ہیں مگرجو طبقات ہماری فقہی اورلسانی شناخت کے دوسری طرف کھڑے ہیں ان کوہم انسان ہی نہیں سمجھتے ۔

ہمارے گاﺅں کی پگڈنڈیوں پر نفرت اگ آئی ہے

کیا کوئٹہ میں ہزارہ شناخت کے لوگوں کی نسل کشی پر ہم دلگیر ہوئے؟ کیا احمدیوں اور عیسائیوں کے خون کا رنگ کچھ اور ہے؟

کیوں ہم سماجی اور مسلکی اختلاف کے ساتھ ایک دوسرے کی عزت نہیں کرسکتے!

گذشتہ ہفتے میں لاہور میں تھا،شاہ عالم مارکیٹ جانے کا اتفاق ہوا، وہاں ہر دوسری دکان پر احمدیوں کے خلاف نفرت انگیزپوسٹر لگے ہوئے دیکھے، کوئی اس نفرت کے پرچار کا نوٹس نہیں لیتا۔ایک دوکاندار سے میں نے پوچھا کہ یار جو پوسٹر آپ نے اپنی دکان پر لگارکھاہے یہ نفرت پھیلا رہا ہے جو کہ غیر مناسب ہے اور یہ بات میں نے بہت ہی ڈرتے ڈرتے اس سے پوچھی اور پیش بندی کے طور مجھے بتانا پڑا کہ میں احمدی نہیں ہوں۔ دکاندار نے بتایا کہ یہ پوسٹر جماعت الدعوہ نے لگوائے ہیں اور ہم انہیں لگانے پر مجبور ہیں۔

ہماری پڑھی لکھی آبادی کا بہت بڑا حصہ آج بھی ملالہ پر حملے کو یہودوہنود کی سازش مانتا ہے اور سمجھتا ہے کہ ملالہ پر کوئی حملہ نہیں ہو اور یہ سب ڈرامہ تھا۔

کیا دیوانگی ہے کہ فیض ا ٓباد ، راولپنڈی میں مذہب کے نام پر ایک نام نہاد مولوی نے سات بندے مروادئیے۔ بلیک میلنگ کی انتہا ہے کہ اس کے خلاف کوئی بات بھی نہیں کرسکتا ، حالانکہ ان مولوی صاحب کے خلاف قانونی کارروائی ہونی چاہیے ۔مذہب کااستعمال اب بلیک میلنگ اورقبضہ گروپوں کے لوگ مذموم مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں جس کے خلاف میں اور آپ بات بھی نہیں کرسکتے کیونکہ آپ کے خلاف فتویٰ آجائے گا۔

 ہندوستان ہو کہ پاکستان، ہم سب پنڈت مکیش شرما بن چکے ہیں اپنی اپنی عصبیت کے اسیر ہیں، اپنے سوا سب کو واجب القتل سمجھتے ہیں اور من گھڑت دلائل کی ڈفلی بجاتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).