ہیں خواب میں ہنوز جو جاگے ہیں خواب میں


ہاوس جاب کرتے، یہ اس کا دوسرا مہینا تھا۔ مریضوں کی تعداد روزانہ بڑھ رہی تھی۔ نو آموز ہونے کی وجہ سے اسے نائٹ ڈیوٹی پر رکھا گیا تھا۔ رات کو گاڑی لینے آتی اور صبح گھر کے پاس اتار دیتی۔ وہ واماندہ بستر پر گرجاتی۔ اڑوس پڑوس کے شور غل کی وجہ سے بے کلی رہتی، پھر نیند آ ہی جاتی۔ ہفتے کی صبح جب وہ گھر لوٹی تو تھکن سے چور بستر پر ایسے گری جیسے زندہ لاش۔

جب پیاس کی شدت سے آنکھ کھلی تو ٹیوب لائٹ اور بلب دونوں روشن تھے۔ ادھ کھلی آنکھوں سے سیل فون کی اسکرین پر وقت دیکھا۔ دوبج کر بیس منٹ۔ وہ چکرا کے رہ گئی۔ فون کے اسکرین پر وقت کے ساتھ ”اے ایم“ لکھا صاف نظر آ رہا تھا۔ اس کے باوجود اس کے لیے یہ اندازہ کرنا مشکل تھا، کہ وہ لمحہ دن کا ہے یا رات کا کوئی پہر۔

حقیقت جاننے کے لیے اس نے گیلری کا دروازہ کھولا، ماہتاب اپنی آب و تاب دکھا رہا تھا۔ وہ بہت دیر تک ریلنگ پر ہتھیلی ٹکائے وہیں کھڑی رہی۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہواؤں کے جھونکے فرحت بخش تھے لیکن سکون تو جیسے غارت ہوگیا تھا۔ چاندنی سارے میں پھیلی ہوئی تھی۔ سناٹا اور تنہائی، شب کو اور بھی پراسرار بنا کے دکھا رہے تھے۔ ان جانے خوف کی لہر جیسے اندر تک سرایت کرگئی۔ نجانے کتنی دیر تک وہ خالی کرسی کو دیکھتی رہی اور یادوں کے سمندر میں ڈوب گئی۔
٭٭٭

اس رات اس نے بڑا ہی بھیانک خواب دیکھا تھا۔ اس قدر عجیب اور خوف ناک سپنا، کہ جب وہ بیدار ہوئی تو پسینے میں شرابور تھی؛ سینے اور سر میں جیسے ہل چل مچی ہوئی تھی۔ سمجھ نہیں آ رہا تھا، کہ وہ خواب ہی ہے یا سچ مچ کا کوئی واقعہ۔ اس نے اٹھتے ہی امی کوفون کر ڈالا اور کچھ کہنے سے پہلے ہی آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے۔ امی خاصی پریشان ہوگئی تھیں؛ حالاں کہ بعد میں اسے بھی نہایت شرمندگی ہوئی تھی کہ اتنی بڑی ہونے کے باوجود، بچوں کی سی حرکتیں کرتی ہے۔

نفسیات اورخواب سے متعلق اس نے بہت ساری چیزیں سن رکھی تھیں۔ لہذا وہ پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی تھی۔ دُپٹے سے آنسوؤں کو خشک کر کے جذبات پر قابو پاتے، امی کو فون کال کی تھی؛ لیکن وہ جیسے گنگ ہوگئی تھی۔ اتنی رات گئے فون کی گھنٹی سے گھر والے بھی گھبرا گئے تھے۔ جب اس کی زبان سے کچھ نہ ادا ہوا، تو اس کی امی نے کال منقطع کر کے دوبارہ کال کی۔ وہ بہت بے قرار ہوگئی تھیں۔
’’ہاں گڑیا! بتاو تو سہی اتنی رات گئے کال؟ بیٹا! سب خیریت تو ہے نا‘‘؟
اس نے روتے ہوئے امی کو خواب کے بارے میں بتایا، مگر امی نے ہنستے ہوئے اسے تسلی دی تھی۔
’’بیٹا! خواب سے نہیں ڈرتے، بھلا خواب بھی کوئی ڈرنے کی چیز ہے‘‘۔

اور جب اس نے امی سے پورا منظر بیان کیا، تو انھوں نے کہا۔
’’میری جا ن! اب بھی تم وہی بچوں والی حرکتیں کرتی ہو۔ بیٹا! یہ تو بہت اچھا خواب ہے، یہ تو خوش ہونے والا خواب ہے، اس میں رونے کی کیا بات‘‘؟ امی نے اس کی تعبیر بتاتے ہوئے کہا تھا۔
’’اس کا مطلب ہے تم بہت ترقی کرو گی، ہم سب کی محبتوں میں اضافہ ہوگا۔ تمھارے امی کی عمر دراز ہوگی‘‘۔
امی نے خواب کسی سے نہ بتانے کی تلقین بھی کی تھی۔
٭٭٭

پریشان ہو کر اس نے نوکری سے استعفیٰ دیا اور گھر چلی آئی۔ گرمی کی چھٹیاں چل رہی تھیں اور گھر میں بڑی چہل پہل تھی۔ بھانجے، بھانجیاں، بھتیجی، بھتیجیاں سبھی ساتھ تھے۔ پورے گھر میں جشن کا سا سماں تھا، بچے اسے خالہ یا پھوپھی کہہ کر اس کی گردن سے لٹک جاتے۔ لیکن یہ عجیب موقع تھا جب وہ بچوں میں بھی کوئی دل چسپی نہیں لے رہی تھی۔ وہ ہنوز اس خواب کے حصار سے باہر نہیں آ سکی تھی۔ خواب جیسے اسے کاٹ کھانے کو دوڑ رہا تھا۔ ذہن میں عجیب و غریب قسم کے خیالات گردش کررہے تھے۔ گھر میں سب ٹھیک ٹھاک تھا، لیکن طبیعت میں جو بے چینی تھی، وہ کسی پل قرار لینے نہ دے رہی تھی۔ دانش سے آج تک اس نے کوئی بات نہ چھپائی تھی۔

’’کون سا وقت ہے نہیں معلوم۔ شام، صبح یا دُپہر؛ کچھ یاد نہیں۔ میں امی اور تم، تینوں سیر کے لیے نکلے؛ کہاں؟ یہ بھی نہیں معلوم۔ لیکن جو جگہ یاد پڑتی ہے، وہ کوئی ساحل ہے۔ اچانک گھن گھور گھٹا چھا گئی، اور دیکھتے ہی دیکھتے بادل گہرے سیاہ ہونے لگے؛ ساری چیزیں اڑتی ہوئی نظر آ رہی ہیں۔ پتھر، پانی، درخت اور ریت کے بڑے بڑے تودے۔ پھر کانوں کو پھاڑ دینے والی بجلی کی کڑک اور شور شرابے کی ہول ناک آوازیں۔ بھاری مقدار میں گرد و غبار آنکھوں کے سامنے چھا گیا ہے۔ سمندر کی لہریں ہمیں لپیٹ لینا چاہتی ہیں۔ میں چیختی ہوں، چلاتی ہوں مگر کوئی مدد کے لیے نہیں آتا۔ اسی اثنا میں تمھارے چیخنے کی آواز سنائی دیتی ہے۔ شائیں شائیں کرتی بھاری بھرکم ہوا۔ بھائی! تمھیں آسمان کی طرف اڑائے لیے جا رہی ہے۔ امی کہیں گم ہوگئی ہیں، لیکن پھر اچانک کیا دیکھتی ہوں۔ جیسے بادل چھٹ گئے۔ نیچے دیکھوتو پانی اور اوپر دیکھو تو برف ہی برف؛ آ سمان ہی آسمان۔ چاروں اور سناٹا؛ قدم آ گے بڑھانے پر دلدلی فرش۔ میں سمجھ نہیں پا رہی ہوں کہ کیا ہورہا ہے۔ مجھے ایسا لگا جیسے میں آتش فشاں پہاڑ کے کنارے کھڑی ہوں، گرمی کی حدت سے ہمارے وجود پگھل کر بہہ گئے ہیں۔ پھر اچانک میری آنکھ کھل گئی‘‘۔

بھائی کو یہ سب بتاتے ہوئے وہ رو پڑی تھی۔ دانش نے از راہ تفنن کہا۔
’’رات کڑھی کھا لی ہوگی، اس لیے ایسے خواب دیکھ رہی ہو، اور تم نے خواب کا مطلب بھی نکال لیا ہوگا؟ کہ ہم مر گئے! ہے ناں؟ اور یہی جاننے کے لیے تم نے امی کو بھی فون کیا! وہ بھی رات کو؟ پاگل نا ہو تو، تم لڑکیاں بہت ڈرپوک ہوتی ہو۔ آخر تم کب تک اس بکواس خواب کو لے کر اپنے آپ کو ہلکان کرتی رہو گی‘‘۔
٭٭٭

کرسمس ڈے تھا۔ وہ باہر جانے کے لیے کسی بھی طرح راضی نہیں تھی، لیکن دانش اس کی ماننے کے لیے تیار نہیں ہوا۔
’’آج تمھیں باہر جانا ہی پڑ ے گا۔ امی کو بھی میں نے کہہ دیا ہے، وہ بھی ساتھ چلیں گی۔ ایسے بھی تمھیں کھلی فضا میں نکلنے کی ضرورت ہے‘‘۔
موسم اس دن خاصہ خوش گوار تھا۔ کرسمس ڈے کی وجہ سے بھیڑ بھی بہت تھی۔ چاروں طرف برقی قمقمے، جگہ جگہ پھول بیچنے والے خوب صورت گل دستوں اور دُکانوں میں باہر تک سجے ہوئے گفٹ پیک، منظر کو دل فریب بنا رہے تھے۔ موم بتیاں اور رنگین قمقمے صرف چرچوں ہی میں نہیں جگمگا رہے تھے، بلکہ شاہ راہوں اور گلیوں کے کنارے بھی اس کا اہتمام کیا گیا تھا۔ مسیحیوں کے ساتھ دیگر برادری کے لوگ بھی خوشیاں منانے میں مصروف تھے۔ رِکشا یا گاڑی بازار کی گلیوں میں لے جانا ممکن نہیں رہا تھا، اس لیے زیادہ تر لوگ پیدل ہی چل رہے تھے۔

ٹھیلوں پر دہی بڑے کے مٹکے اور تھالوں میں پکوڑے سجے تھے۔ بک اسٹال تھے، آئس کریم والے اور فٹ پاتھ پر چیخ چیخ کر سامان بیچنے والے سب ہی جوش و خروش میں تھے۔ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ہاتھوں میں ہاتھ تھامے ہنسی مذاق اور اٹکھیلیاں کرتے اپنی دُنیا میں مگن تھے۔ جیسے ساری خوشیاں آج ہی سمیٹ لینا چاہتے ہوں۔ بیٹری سے چلنے والے کھلونے، سرخ و سفید کپڑوں میں ملبوس حرکت کرتے بانسری بجاتے سانتا کلا ز، اچھلتے کودتے اور شرارت کرتے بچے اسے بہت پیارے لگے۔ ایک بچہ جو سانتا کلاز کی ٹوپی پہنے ہوئے، اپنی ماں سے کچھ خریدنے کی ضد کررہا تھا، اسے اتنا پیارا لگا کہ اس کا جی چاہا لپک کر بچے کو اپنی گود میں اٹھا لے، لیکن امی اس کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھیں۔ وہ اسے دیکھ کر صرف مسکرا سکی۔ وہ دیر تک ادھر ادھر گھومتے رہے، رات بہت بیت گئی تھی، اسے بہت زور کی بھوک لگی۔ دانش قریب ہی اے ٹی ایم سے پیسے نکالنے گیا ہوا تھا۔ اچانک کان پھاڑ دینے والی آواز سنائی دی۔ پھر ہر طرف چیخ پکار، آہ و بکا اور سسکیاں۔۔۔ کسی نے کہا۔ ”بم دھماکا ہوا ہے“۔ وہ بھاگنے لگی۔ چاروں طرف صرف خون ہی خون دکھائی دے رہا تھا۔ فضاؤں میں اڑتے ہوئے جسم کے چیتھڑے۔ وہ سمجھ ہی نہیں پا رہی تھی، آن کی آن میں کیا سے کیا ہوگیا تھا؛ اس کی دُنیا لٹ گئی تھی۔ اب اس دُنیا میں وہ اکیلی تھی؛ بالکل اکیلی۔
امی!
دانش!
وہ زور زور سے چیخنے لگی۔
خواب تھا کہ ٹوٹ کے نہ دیا۔

محمد علم اللہ جامعہ ملیہ، دہلی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

محمد علم اللہ جامعہ ملیہ، دہلی

محمد علم اللہ نوجوان قلم کار اور صحافی ہیں۔ ان کا تعلق رانچی جھارکھنڈ بھارت سے ہے۔ انہوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ سے تاریخ اور ثقافت میں گریجویشن اور ماس کمیونیکیشن میں پوسٹ گریجویشن کیا ہے۔ فی الحال وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ’ڈاکٹر کے آر نارائنن سینٹر فار دلت اینڈ مائنارٹیز اسٹڈیز‘ میں پی ایچ ڈی اسکالر ہیں۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا دونوں کا تجربہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے دلچسپ کالم لکھے اور عمدہ تراجم بھی کیے۔ الیکٹرانک میڈیا میں انھوں نے آل انڈیا ریڈیو کے علاوہ راموجی فلم سٹی (حیدرآباد ای ٹی وی اردو) میں سینئر کاپی ایڈیٹر کے طور پر کام کیا، وہ دستاویزی فلموں کا بھی تجربہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے نظمیں، سفرنامے اور کہانیاں بھی لکھی ہیں۔ کئی سالوں تک جامعہ ملیہ اسلامیہ میں میڈیا کنسلٹنٹ کے طور پر بھی اپنی خدمات دے چکے ہیں۔ ان کی دو کتابیں ”مسلم مجلس مشاورت ایک مختصر تاریخ“ اور ”کچھ دن ایران میں“ منظر عام پر آ چکی ہیں۔

muhammad-alamullah has 167 posts and counting.See all posts by muhammad-alamullah