میں علی ظفر کے ساتھ ہوں


میرے خاندان پر اچھا معاشی وقت تھا تو ملکوال، موجودہ ضلع منڈی بہاؤالدین، میں میرے والد اور چچا صاحبان کی اک کریانہ کی بڑی دکان تھی، اور ہماری دکان کے بالکل سامنے اک تنگ، مگر بہت چلنے والی منیاری کی دکان تھی۔ منیاری کی دکان کو آج کل جنرل سٹور کہتے ہیں۔ وہ منیاری کی دکان والے اپنے وقت کے بہت عمدہ انٹرپرینیور تھے اور بہت سارے چھوٹے چھوٹے، مختلف مگر چل جانے والے کام مسلسل کرتے رہتے تھے۔ انہی کاموں کے اک سلسلہ میں انہوں نے شاید سنہء 1982 میں جھالر والی ٹوپی کو ملکوال میں متعارف کروا کر کیا۔ اس سے قبل، ٹوپیاں یا تو کپڑے کی سلی ہوتی تھیں، یا پھر ہمارے آہنی برادر ملک، چین سے کروشیا کے ڈیزائن میں بن کر آتی تھیں۔

جھالر والی ٹوپی بہت پتلی، ہلکی، مضبوط، ہوادار اور نسبتا سستی تھی تو ملکوال کے قدامت پسند مذہبی معاشرہ میں فورا ہی ہِٹ ہو گئیں، کہ ان دنوں ہمارے بریلوی بھائیوں کا وہاں بہت مذہبی زور تھا اور جنرل شہید غازی ضیاءالحق فاتح افغانستان و کُل جہان کا نظامِ صلٰوۃ بھی پورے زوروں پر تھا، دس سال کی عمر تھی تو نماز پڑھنے کا بھی بےتحاشا شوق تھا، لہذا ٹوپی کی فضیلت، اس کی قیمت کے مقابلے میں بہت زیادہ محسوس ہوتی تھی۔ ہر بندہ، ان دنوں ٹوپی پہنے پھرتا تھا۔ آہ، چلیں کہ ہر بندہ نہ سہی، کم از کم ہر تیسرا بندہ!

ٹوپی سے ہٹ کر بھی اگر بات کریں تو دنیا کی تیسری ذہین ترین قوم کو خادم نے عموماً ”جنے لایا گلی، میں اودے نال چلی“ کی عملی مثال ہی بنے ہوئے دیکھا۔ عظیم جنرل ضیاءالحق کے دور میں ہر بندہ مسلمان بننے کے چکروں میں رہا۔ یار لوگ، جنرل صاحب کو خوش کرنے کے لیے وضو کے بغیر ہی نماز نیت لیتے تھے۔ اللہ سے زیادہ، جنرل کو خوش کرنا جو مقصود تھا۔ تھوڑا ہوش سنبھالا تو معلوم ہوا کہ ہمارے مجاہدین کے لشکر، افغانستان سے آگے، وسطی ایشیاء اور یورپ میں اسلام کا علم لہرانے نکل پڑے ہیں، اور کشمیر بھی پرسوں آزاد ہو رہا ہے، تو بھیڑ چال میں، خادم بھی اسلام کا پرچم لہرانے اور کشمیر آزاد کرنے کی چوہا دوڑ میں شامل ہونے کو چل پڑا۔ عمر عزیز اس وقت انیس بیس سال تھی۔

پھر معلوم ہوا کہ سیاستدان تو ہوتے ہی کرپٹ ہیں، لہذا ہر بارہ اٹھارہ مہینوں کے بعد ان کو چلتا کرنا عین پاکستان اور اسلام کے مفاد میں ہے۔ تھوڑا مزید ہوش سنبھالا تو جنرل مشرف صاحب بغل میں دو کتے، ڈاٹ اور بڈی، دبا کر آئے، دس سالوں بعد، قوم کو ڈاٹ اور بڈی بنا کر چل دیے۔ سنا ہے کہ آج کل وہ دبئی میں ناچ کر کے زندگی گزار رہے ہیں، اور میں اس بات پر ان سے شدید حاسد ہوں۔ پھر کوئی نو سال قبل قوم کو معلوم ہوا، انقلاب و تبدیلی کے بغیر پاکستان کا کوئی حال نہیں، اور مستقبل بھی خراب ہو گا۔ ملکوال سے ہی چن خاندان نے کل اس انقلاب میں اپنا ڈول ڈال کر پاکستان کا مستقبل بچا بھی لیا، اور سنوار بھی لیا۔

خادم بھی اسی بھیڑ چال میں اپنی عمر کے تقریباً 25 سال تک رہا۔ پھر خدا بھلا کرے اقبال حیدر بٹ، وجیہہ عباسی اور شکیل چوہدری صاحبان کا کہ جنہوں نے تنقیدی شعور کے تڑکے دینا شروع کیے اور اپنی 1993 سے جاری مطالعہ کی عادت نے گویا جان بچائی اور یہ جانا کہ چلتے ہوئے کسی بھی ٹرینڈ یا معاملہ پر اپنے رائے سازی کرنے سے قبل اس کو تھوڑا بہت سمجھنے کی کوشش کر لینا کوئی گناہِ کبیرہ نہیں۔ اور یہ بھی کہ سمجھنے کا یہ عمل، اپنے جذبات و تعصبات سے الگ کر کے ہی ممکن ہوتا ہے۔ آپ غصے میں ہوں، جذباتی ہوں، کچھ تعصب رکھتے ہوں، تو کسی بھی معاملہ کو اس کے فطری پس منظر میں نہ سمجھ سکتے ہیں، اور نہ ہی اس کے پیش منظر پر کوئی جمع تفریق کر سکتے ہیں۔

کچھ ایسا ہی معاملہ آج کل جنسی ہراسانی کے معاملات پر ہے۔ اپنا کھانا خود گرم کرو، میرا جسم میری مرضی، ہم بھی سخت لونڈے ہیں، مرد کرے تو Stud عورت کرے تو Slut، یہ چادر نہیں کفن ہے، چاردیواری اپنے پاس رکھو وغیرہ وغیرہ کے نعروں کے کیمیاء میں جائے بغیر کہنا یہ ہے کہ اک لہر ہے، جو آج کل چل رہی ہے، اور اک نہایت ہی غیرصحتمندانہ طریقے سے چل رہی ہے۔ پہلے بندر کے اک ہاتھ میں بندوق تھی، اب سوشل میڈیا کی بدولت، بندر کے دونوں ہاتھوں میں بندوقیں نہیں، مشین گنز ہیں، اور مجھے خود اس کا ذاتی طور پر تجربہ بھی ہے کہ تقریبا ہر سیاسی اور مذہبی مکتبہ فکر کے لوگوں نے مجھے کئی ایک معاملات میں نشانے پر رکھا۔ دیوبندی یاروں نے مجھے ہِٹ کرنے کی سیدھی دھمکیاں دیں، بریلوی دوستوں نے مجھے قادیانی کرنے کی کوشش کی، شیعہ یاروں نے مجھے تکفیری اور طالبان پرست قرار دیا، نونی مجھے انصافی سمجھتے رہے، انصافی مجھے نونی سمجھتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ یہ سلسلہ گویا دراز رہا، اور سچ ہے کہ مجھے اس میں سے گزرتے ہوئے بہت ساری ذہنی اذیت سے بھی گزرنا پڑا اور دو کاروباری نقصانات بھی ہوئے، تو اب سوشل میڈیا پر موجودگی، گفتگو اور شئیرنگ کی نہیں، شغل میلے کی ہی ہے۔

چند روز قبل، پٹاری کے چیف ایگزیکٹو، خالد باجوہ صاحب کے بارے میں اک ہوا چلی، اور ان کی طرف کی کہانی سنے بغیر، جو اب تک بھی نہیں سنی گئی، ان کے بارے میں اک رائے بنا لی گئی۔ انہیں اپنے ذریعہ معاش سے ہاتھ دھونا پڑا، خاندان نے بھی اس کی قیمت ادا کی۔ اور کل محترمہ میشا شفیع صاحبہ نے یہی وار، علی ظفر صاحب پر کر ڈالا، اور وہی معاملہ چل نکلا ہے جو خالد باجوہ صاحب کے بارے میں تھا۔ چسکے کی ماری تیسری ذہین ترین قوم، اپنے چسکوں کی خاطر ری ٹویٹ پر ری ٹویٹ، اور شئیر پر شئیر کیے چلی جارہی ہے، اس معاملہ کی سنگینی اور اس کوفت کو خاطر میں لائے بغیر جو علی ظفر اس وقت محسوس کر رہے ہوں گے۔

کلام طویل ہو گیا، مگر کہنا یہ ہےکہ جب تک علی ظفر صاحب، قانون کے طریقے سے مجرم ثابت نہیں ہو جاتے، میں ان کے ساتھ ہوں۔ میں ان کے ساتھ بحثیت اک مرد نہیں، بحثیت سوچنے کی کوشش کرنے والے اک پاکستانی شہری کے طور پر ہوں۔ میں بذریعہ سیٹھ۔ میڈیا، اک ٹویٹ اور اک فیس بک سٹیٹس پر اپنی ذہن سازی کرنے والوں کو بندر سمجھتا ہوں، اور میں بندروں میں سے نہیں ہونا چاہتا۔ کبھی تھا، بہت مشکل سے ارتقاء کرکے بندرانہ نسل سے نکلا ہوں۔ مہذب معاشرے قانون کے حوالوں پر چلتے ہیں، جلدی کی جذباتیت صرف نچلے درجے کے جانوروں کا ”وصف“ ہوتا ہے۔ جب تک علی ظفر پاکستان میں موجودہ قانون کے تحت مجرم ثابت نہیں ہوتے، میری حمایت ان کے ساتھ ہے۔
آپ میں سے جو جو بھی بندر رہنا چاہتے ہیں، رہیں۔ بہاؤ میں اپنے رائے بنا لینا بنیادی طور پر وہی ٹوپی ہے، جو ملکوال میں سنہ 1981 میں ہر کوئی پہنے پھرتا تھا۔ پہنے رکھیے۔ بسم اللہ!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).