ابوالکلام آزاد‘ قائد اعظم اور پاکستان (1)


\"Syedآزاد کے حوالے سے جس مکالمے کا آغازکیا تھا۔ رفتہ رفتہ اس موضوع پر قلم اٹھانے والوں کا دائرہ وسیع ہو رہا ہے۔ میرے لیے خوشی کا مقام ہے کہ بہت سارے احباب سے رہنمائی اور سیکھنے کو مل رہا ہے۔ میرے آخری مکالمے کو بہت سے احباب نے سراہا ۔ ان سب کا تہ دل سے ممنون ہوں۔ میں ایک طالب علم ہوں اور اس نسبت سے علمی عاجزی ہی میرا ورثہ ہے۔ محبت، اکرام اور احترام کے جذبے کو برقرار رکھتے ہوئے مکالمے کو آگے بڑھانامقصود ہے۔ میرے اس جواب کا مقصد نہ کسی کو شرمندہ کرنا ہے نہ ہی لاجواب کرنا۔ یہ مناظرہ نہیں مکالمہ ہے۔ گو کہ محترم شکیل چودھری صاحب سے میں ملا نہیں لیکن وہ میرے لیے ایک بزرگ شخصیت ہیں۔ انہیں عمر، علم اور تجربے کے اعتبار سے مجھ پر فوقیت حاصل ہے۔ میں ان کی رائے کا احترام کرتا ہوں۔ سوچ کے مختلف زاویے ہوتے ہیں۔ یہاں میں نے کوشش کی ہے کہ مولانا آزاد کی منظر نامہ سمجھنے کی غلطی‘ ”سیکولر بھارت “میں مسلمانوں کے حالات، قیام پاکستان میں قائد اعظم محمد علی جناح کا کردار اور قیام پاکستان کے تناظر میں دلیل کے پیرائے میں اپنا نقطہ نظر کی وضاحت کروں۔ نقطہ نظر کے اختلاف کو اگر صرف علمی اختلاف ہی سمجھا جائے تو سیکھنے کی روایت بڑھتی رہتی ہے۔ میں شکیل صاحب کا ممنون ہوں کہ لگے ہاتھوں مجھے کچھ مزید کتابیں پڑھنے کا موقع بھی مل گیا۔

شکیل چودھری صاحب نے حسب ِسابق میرے مکالمے کے دوسرے حصے کا بھی جواب دینا ضروری سمجھا۔ ان کی ساری گفتگو پر غور کرنے کے باوجود میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ آخر وہ کہنا کیا چاہتے ہیں؟ کیا ان کا مقصد قائد اعظم کی فکر اور قیام پاکستان کے لیے کی جانے والی ان کی انتھک کاوشوں کو باطل قرار دینا ہے؟ کیا پاکستان کا قیام اور نظریہ پاکستان کو غلط ثابت کرنا مقصد ہے؟ اگر پاکستان کا قیام انہیں پسند نہیں تو لگی لپٹی کے بغیر کہہ کیوں نہیں دیتے؟ کیا وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ابو اکلام آزاد نے منظر نامہ سمجھنے میں کوئی غلطی نہیں کی؟

پاکستان ایک حقیقت ہے جو ابو اکلام آزاد اور ان کے ہم نوا گاندھی، نہرو اور پٹیل جیسوں کی مخالفت کے باوجود بن گیا۔ یہ کوئی افسانہ یا سراب نہیں کہ اس کے وجود سے انکار کیا جائے۔ حقیقت کو اگر، مگر، چونکہ، چنانچہ کے ذریعے جھٹلانے کی جتنی بھی کوشش کی جائے سچائی چھپ نہیں جاتی۔ پاکستان کے وجود کے بارے میں وہ کون سی بات ہے جس نے انہیں تشکیک میں مبتلا کر رکھا ہے؟ شکیل صاحب نے نامورکالم نگار جناب ارشاد احمد عارف صاحب سے بھی مکالمہ کیا تھا ۔ وہی سوالات اٹھا کر ہر ایک کے منہ میں ڈالنے کا آخر مطلب کیا ہے؟ اس سے واضح بات جو ظاہر ہوتی ہے کہ مکالمے کی روایت کو آگے بڑھانا ان کا مقصد نہیں بلکہ اپنی بات منوانی اور دوسروں پر اپنی رائے مسلط کرنا مقصد ہے ۔ خیال رہنا چاہیے کہ بحث و مباحثہ اور کج بحثی میں بڑا فرق ہے۔ تنقید اور تنقیص کے فرق کو اگر سمجھ لیا جائے تو نگاہ صرف نقص پر ہی نہیں پڑتی ۔

جناب شکیل صاحب کی نظر میں کم عمر ہونا یا طالب علم ہونا شاید کوئی گناہ ہے اس لیے وہ اپنی ہر تحریر میں ایک دو بار میرے ان جرائم کا تذکرہ ضرور کرتے ہیں۔ مجھے اپنی کم علمی کا احساس ہے اسی لیے ابوالکلام آزاد کے حوالے سے کچھ سوالات کھٹکتے ہیں ان سوالات پر شکیل صاحب کی راہنمائی درکار ہے۔ جواب دینے سے قبل اس بات کا خیال رکھیے گا کہ مشرق کے قلابے مغرب سے ملانے سے بات کو الجھایا جا سکتا ہے، سمجھایا نہیں جا سکتا۔

\"abid 1905ءمیں تقریباً اٹھارہ برس کی عمر میں آزاد کا شیام سندر چکرورتی اور بنگال کے دوسرے انقلابیوں سے ربط ضبط، ان کی عملی شرکت سے بمبئی اور شمالی ہند کے کئی شہروں میں خفیہ انجمنوں کے کیا معنی تھے؟ کیا قائد نے بھی کوئی ایسی خفیہ تحریک چلائی تھی؟ اپریل 1913ءکے ’الہلال‘ میں ان کے صریرِ خامہ کی ’امن انصاری الی اللہ‘ (خدا کی راہ میں کون ہیں جو میرے ساتھ ہیں !) کی پراسرار پکار، اور پھر ’حزب اللہ‘ کا اعلان اور ممبر سازی کو آپ کس نگاہ سے دیکھتے ہیں؟ یہ بھی واضح کیجئے گا کہ سیکولر ازم ان کی اس کیفیت کو کس نام سے یاد کرتا ہے؟ اور حزب اللہ کے قیام کے کیا مقاصد تھے اس کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟

1925ء میں یورپ کے سفر کے لیے ان کے پاسپورٹ کی درخواست کے ساتھ کلکتے کے نیشنل آرکائیوز میں رکھی سی آئی ڈی کی خفیہ رپورٹس میں آزاد کے (1921ء تا 1924ء کے دوران میں) پان اسلام ازم تحریک، سبھاش بوس کے انقلابی منصوبوں اور ینگ ٹرکس کی سرگرمیوں سے روابط کے انکشافات کے بارے میں بھی کچھ فرمائیے گا؟

آزاد نے 9 اکتوبر 1912 کے الہلال کے صفحہ 6 پر مسلمانوں کو یہ مشورہ کیوں دیا تھا کہ بہتر ہے کہ سرے سے اسلام ہی کو خیرباد کہہ دیا جائے۔ دنیا کو ایسے مذہب کی کیا ضرورت ہے جو صرف خطبہ نکاح میں چند آیتیں پڑھ دینے یا بسترِ نزع پر سورہ یاسین کو دہرا دینے ہی کے لیے کارآمد ہوسکتا ہے؟ “ کیا آزاد اسلام کو ایک مکمل ضابطہ حیات سمجھتے تھے؟ اگر نہیں تو اس تناقصِ فکری پر آپ کیا کہتے ہیں؟ وہ کون سا اسلام چاہتے تھے؟ اس حوالے کو مد نظر رکھ کر آزاد کے اسلام اور سیکولر ازم کے تصور کی کچھ وضاحت فرمائےے گا؟

جنوری 1920ءمیں دہلی میں گاندھی سے پہلی ملاقات کے بعد انھیں کیوں کلکّتے کی عید گاہ میں امامت اور عیدین کے خطبوں سے دست بردار ہو نا پڑا تھا؟ بنگال کے مسلمان ان سے مایوس ہو گئے تھے یا بد دل آپ کیا کہتے ہیں؟ پنڈت سندر لال کو کیوں لکھنا پڑا تھا کہ کبھی کبھی ہندوستانیوں سے آزاد کی جان بچانے کے لیے خاص انتظام کرنے پڑتے تھے؟ “ تاریخ بھی یہی کہتی ہے کہ آزاد کو آئے دن جیلوں کی ہوا بھی کھانا پڑتی تھی۔ سوال یہ ہے کہ قائد ان ساری مصیبتوں کا شکار کیوں نہیں ہوئے؟ آزاد نے آخر کیوں لکھا تھا کہ” ’پاکستان‘ کا نام ہی میرے حلق سے نہیں اترتا۔ “پاکستان کا نام آخر آزاد کو اس قدر کڑوا کیوں لگتا تھا؟ وہ کیا اسباب تھے کہ محمد علی جناح نے امام الہند کہلانے والے ابوالکلام آزادکے ہاتھوں سے مسلمانوں کی قیادت چھین لی تھی؟

آزادی کے بعد عدم تشدّد کے سیکولرپیروؤں کی سیکولر دہشت گردی اور دلّی میں مسلمانوں کی قتل و غارت گری دیکھ کر آزاد کا کیا موقف تھا کچھ اس پر بھی ایک طائرانہ سی نگاہ ڈال دیں۔ گاندھی نے دہلی میں مسلمانوں کی ہلاکتوں کے لیے سردار پٹیل کو کیوں ذمے دار مانا تھا اور فسادات رکوانے کے لیے اپنی ضعیفی میں گاندھی کو برت کیوں رکھنا پڑا تھا؟

 آزاد اور سردار پٹیل کا تقریباً تیس برس کے ساتھ کے باوجود شیخ عبداللہ کو اپنی سوانح ” آتشِ چنار“ کے باب ”سازشوں کے سائے “ میں کیوں لکھنا پڑا کہ سردار پٹیل ایک منہ پھٹ قسم کا آدمی تھا اور آزاد کی کبھی بھی اس سے نہ بنی؟ آزاد نے ’ہماری آزادی‘ میں ایسے کئی واقعات کا ذکر کیا ہے جن سے اقلیتوں کے سلسلے میں سردارپٹیل کے غیر دوستانہ رویّے کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔ مثلاً 1935-36ء میں بمبئی کی صوبائی حکومت کی تشکیل کے وقت وہاں کے ممتاز پارسی راہ نما مسٹر نریمان کا حق تلفی کا واقعہ ہی پڑھ لیجئے گا۔ کیا آزاد کے سیکولر انڈیا کی یہی وہ تعلیمات تھیں جن پر مستقبل کے ہندستان کی عمارت تعمیر کی گئی؟

1946ءمیں مرکزی اسمبلی کے انتخابات میں ابوالکلام آزاد صوبہ سرحد سے منتخب ہو کر بھیجے گئے تھے۔ انہیں سرحد سے الیکشن کیوں لڑنا پڑا تھا؟ کیا وہ اسلام کے نام پر سرحد کے مسلمانوں کی ہمدردیاں اور ووٹ لینا چاہتے تھے؟ وہ سیکولر ہندستان کے کسی ہندو علاقے سے یا بنگال (جو کہ ان کا آبائی علاقہ بھی تھا)سے الیکشن کیوں نہیں لڑے تھے؟ کیا وجہ تھی کہ صرف ایک سال بعد صوبہ سرحد نے آزاد کے متحدہ ہندوستان کے خواب کو چکنا چور کر دیا؟ ڈاکٹر زکریا کو یہ کیوں لکھنا پڑا تھا کہ ’جمہوریت اور سیکولرزم کے عہدِ جدید میں فاشسٹوں نے بابری مسجد کو پیشگی علم و اطلاع کے ساتھ دن کے اجالے میں منہدم کر کے ملک اور قوم کا وقار ملیا میٹ کر دیا تھا؟ کسی بھی مذہب کی عبادت گاہوں کے ساتھ یہ سلوک سیکولر ازم کی کس تعریف کے مطابق ٹھیک ہے؟ کیا یہی وہ سیکولر ازم تو نہیں جس کے لیے آزاد نے پاکستان کی بجائے ہندستان میں زندگی کی باقی ساعتیں گزارنا پسند کی تھیں؟

میں نے تشدد کے حوالے سے دنیا کی سب سے بڑی نام نہاد جمہوریت کا ذکر کرتے ہوئے کشمیر کا حوالہ دیا تھا لیکن شکیل صاحب نے کشمیر کے موجودہ حالات پرلکھنا مناسب نہیں سمجھا۔ میں نے لکھا تھا کہ” بھارت کی جمہوریت جس کی مثالیں تنقید نگار نے دی ہیں اس کی ایک جھلک کشمیر میں بھی ملاحظہ کر لیں تو غلامی کا تصور واضح ہوتے دیر نہیں لگے گی۔ “اس کے جواب میں موصوف نے کشمیر کے موجودہ حالات پر نگاہ ڈالنے، جمہوری مظالم کا جائزہ لینے اور آزادی کی جدوجہد میں ٹرپنے والوں کی قربانیوں کا جائزہ لینے کا تکلف گوارا نہیں کیا۔ موصوف کا جواب تھا ” اسے کہتے ہیں ماروں گھٹنا پھوٹے آنکھ“۔ اگر موصوف نے دنیا کی سب سے بڑی کہلائی جانے والی جمہوریت اور سیکولر ازم کی پرچار مملکت کے کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم اور کشمیریوں کی غلامی سے نجات حاصل کرنے کی جدوجہد کا جائزہ لے لیا ہوتا تو نہ گھٹنا مارنے کی نوبت آتی نہ ہی آنکھ پھوڑنے کی۔

کشمیر کے حوالے سے موصوف نے مجھے تحقیق کا مشورہ دیتے ہوئے لکھا کہ” کشمیر کے ہندوستان کے ساتھ الحاق کی سب سے بڑی وجہ اکتوبر 1948 ءمیں قبائلیوں کا حملہ تھا۔ ساتھ یہ بھی کہا کہ ان قبائلیوں نے بلا تقریق مذہب و ملت لوٹ مار کا بازار گرم کیا۔ “تاریخ کو جھٹلانے سے کیا حاصل؟ اگر کبھی فرصت ملے تو شیخ عبداللہ کی آپ بیتی پڑھیے گا وہ اس کے صفحہ272 پر لکھتے ہیں کہ14 اگست 1947 کوسری نگر کے ڈاک بنگلے پر پاکستان کا پرچم لہرا دیا گیا تو جنرل جنک سنگھ کے حکم پر زبردستی پرچم اتار دیا گیا۔ صفحہ 276 پر لکھتے ہیں کہ” جب کشمیر کے عوام نے مہاراجہ سے پاکستان کے ساتھ الحاق کا مطالبہ کیا تو اس نے اسے گستاخی پر محمول کیا اور ان لوگوں کو مزہ چکھانے کے لیے اپنی فوج کے ذریعے ان پر شدید مظالم توڑے۔ گرفتاریوں کا سلسلہ شروع کیا، گھروں کو آگ لگا دی، عورتوں کی بے حرمتی کی گئی۔ “ اب جنرل جنک سنگھ کا تعلق کہاں سے تھا اور مہاراجہ کی فوج میں کتنے قبائلی تھے جنہوں نے کشمیر کے الحاق کو روکا یہ شائد تنقید نگار بہتر جانتے ہوں؟ لندن کے مقتدرہ روزنامہ ٹائمز  10 اگست 1948ء کی رپورٹ کے مطابق جموں کے دو لاکھ سے زائد شہدا ڈوگرہ راج اور ہندستان کی مسلح جتھوں کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اتر گئے تھے؟ اور 90 کی دہائی سے اب تک لاکھوں کشمیریوں کو بے دریغ قتل کرنے والی سیکولر جمہوریت کے علمبردار بن کر کھڑے ہو نا کسی بھی دانا شخص کا فیصلہ تو نہیں ہو سکتا؟

مقبوضہ کشمیر سے معروف بیوروکریٹ خالد بشیر تیس سال مختلف مقامات، اور تحقیقی اداروں کی خاک چھاننے کے بعد کشمیر میں مسلمانوں کے قتل عام پر ایک تحقیق منظر عام پر لائے ہیں۔ ان کے بقول ڈوگرہ آرمی، رانی تارا دیوی اور آر ایس ایس کے بانی گرو گولوالکر کی مرتب کردہ سازش کے نتیجے میں دو لاکھ سے زائد مسلمان کشمیر میں شہید کر گئے گئے ۔ کٹھوعہ، اکھنور، سامبا، ماﺅ گام، جموں، سچیت گڑھ، میں ستر ہزار سے زائد مسلمان شہید ہوئے۔ اس کی تفصیلات تاریخ کی کتابوں اور مختلف آپ بیتوں میں بکھری مل جاتی ہے۔ جموں کی سیاسی شخصیت رشی کمار کوشل کا تعلق شاید قبائلیوں کے علاقے مہمند ایجنسی سے تھا؟ 1953ء میں جب شیخ عبداﷲ گرفتار ہوئے تو بخشی غلام محمد نے ہندوﺅں کے گھروں میں جا جاکر ستم کا شکار 5000 مسلمان لڑکیوں کا پتہ لگایا۔ کیایہ سارے اغوا کار بھی قبائلی تھے؟

1941ء کی مردم شماری کے مطابق میں جموں ضلع کے مسلمانوں کی آبادی ایک لاکھ ساٹھ ہزار افراد پر مشتمل تھی جو صرف بیس برسوں بعد کی جانے والی مردم شماری کے مطابق اکیاون ہزار رہ گئی تھی ۔ 1961ء کی مردم شماری کے مطابق 51 ایسے مسلم گاﺅں کا ذکر شامل ہے جن میں کوئی فرد نہیں رہ گیا تھا۔ ان سارے گاﺅں کے لوگوں کو شاید قبائلی اپنے ساتھ پکڑ کر لے گئے تھے؟ ادھم پور کے رام نگر میں تحصیل دار ادھے سنگھ اور مہاراجہ کے اے ڈی سی کے فرزند بریگیڈیئر فقیر سنگھ نے جو قتل عام رچایا تھا وہ بھی قبائلیوں کے کھاتے میں ڈال دینے چاہیں؟ جناب شکیل صاحب نے اکتوبر 1948ء میں قبائلیوں کے حملے کا ذکر کیا لیکن اکتوبر 1948ء سے پہلے جو مظالم ڈھائے گئے اس میں انہیں باجوڑ کے کس پٹھان کا ہاتھ نظر آتا ہے؟ اگر یہ سب پاکستان کا کیا دھرا ہے تو آر ایس ایس کے ایک لیڈر چونی لال کو توال اور امر ناتھ شرما بخشی کو کس خدمت کے صلے میں مقبوضہ کشمیر کا وزیر بنایا گیا تھا

ذکر تھا بھارت کے عدم برداشت اور تشدد کی علامت کا۔ موصوف کو میری رائے سے اتفاق نہیں۔ اگر بھارت تشدد کی علامت نہیں بنا ہوا تومقبوضہ کشمیر کے شمالی قصبے ہندوارہ میں بھارتی فوج کی فائرنگ سے چند دن قبل دو طالب علموں سمیت ایک بزرگ خاتون کی شہادت کے بعد ہندوارہ اور دوسرے قصبوں میں کشیدگی کی لہر کیوں پھیلی ہوئی ہے؟ وہاں کرفیو کیوں لگا ہوا ہے؟ مقبوضہ کشمیر کی اسمبلی کے رکن انجینیئر رشید نے چند دن قبل کیوں کہا کہ ’یہاں جو ظلم ہو رہا ہے، وہ نازی جرمنی میں یہودیوں پر بھی نہیں ہوا؟

دختران ملت کی سربراہ سیدہ آسیہ اندرابی نے صرف تین دن قبل کیوں کہا ہے کہ بھارت بھر میں کشمیری مسلمانوں کے خلاف نفرت اور جنونیت کی ایک نئی لہر پھیل گئی ہے جس کے تحت یہاں کے لوگوں بالخصوص طلبا کو نشانہ بنایا جارہا ہے جو انتہائی تشویش اور فکر مندی کی بات ہے؟ سید علی گیلانی کیوں کہتے ہیں کہ کشمیری طلبا کو فرضی مقدمات میں پھنسانے اور انہیں مختلف مصائب سے دوچار کرنا بھارت میں معمول ہوچکا ہے؟

سیکولر انڈیا میں فروری 2002ء میں مودی نے وزیر اعلیٰ گجرات ہوتے ہوئے اردو کے پہلے شاعر ولی دکنی جو کہ ولی گجراتی کے نام سے بھی مشہور ہیں کی درگاہ صرف چوبیس گھنٹوں میں مسمار کر کے وہاں سڑک کیوں بنا دی تھی ۔ پھر انہی صاحب نے اپنے دور حکومت میں 230 سے زائد درگاہوں کو نشانہ بنا کر آزاد کے کس سیکولر ایجنڈے کی تکمیل کی تھی؟

سیکولر مودی کے ہاتھوں بھارت کی ریاست گجرات میں زندہ جلائے جانے والے مسلمان کیوں یاد نہیں رہتے؟ وہ تعداد کی الجھنوں میں جکڑے رہتے ہیں کہ ہندوستان کے لوگ کہتے ہیں کہ وہاں پانچ ہزار افراد مارے گئے ہیں بلکہ نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کہتی ہے کہ وہ 2500 ہی تھے۔ کیا خیال ہے قاتل کبھی مانتا ہے کہ اس نے کتنے انسانوں کو جلا کر راکھ کر دیا ہے؟

18فروری 1983ءمیں آسام کے ضلع نو گاﺅں کے قصبہ نیلی میں 10,000بنگالی مسلمانوں کو راتوں رات بے دردی سے قتل کیاگیا تھا سرکاری ذرائع کے مطابق ان کی تعداد 3ہزار سے زیادہ بتائی جاتی ہے ۔ ان حقائق کو مدنظر رکھ کر اگر آپ آزاد اور گاندھی کے عطا کردہ بھارتی سیکولر ازم کے اصلی اور عملی نظام کی کچھ وضاحت فرما دیں تو عنایت ہو گی۔

جناب شکیل صاحب کو میری باتیں اس قدر ناگوار گزریں کہ انہوں نے اسے آزاد پر نا شائستہ حملہ قرار دیا ۔ شیخ محمد عبداللہ مقبوضہ کشمیر کے وزیر اعلی رہے ہیں۔ وہ آزاد کے ہم خیال لوگوں میں سے تھے ۔ انہیں آزاد سے دلی ہمدردی ہے۔ انہوں نے اپنی کتاب آتشِ چنار کے صفحہ 241 پر لکھا ہے ” آزاد عوامی مسائل کا میدانِ کارساز میں سامنا کرنے کی بجائے گوشہ نشینی کو ترجیح دیتے تھے۔ “شیخ عبداللہ آگے لکھتے ہیں”جناح صاحب جہاں مسلم عوام کو اپنی جانب کھینچ لینے میں کامیاب ہو گئے وہاں مولانا آزاد اپنی خلوت گاہ سے غبار ِ کارواں کو دیکھتے رہ گئے۔ ‘ مولانا کی پوزیشن عجیب تھی، فرقہ پرست ہندو انہیں مسلمان سمجھ کر ان پر اعتبار نہ کرتے اور مسلمان انہیں ہندوﺅں کا بچہ جمہورا یعنی شو بوائے قرار دیتے۔ “ کیا شیخ عبداللہ کی اس رائے سے شکیل صاحب اتفاق کریں گے؟ کیا شیخ عبداللہ کے یہ الفاظ بھی تنقید نگار کی نظر پر آزاد پر ناشائشتہ حملہ ہیں؟

ابوالکلام آزاد کو ہندستان کی وکالت کا جو صلہ ملا اس کے حوالے سے شیخ عبداللہ اسی صفحے پر نہرو کی آزاد سے اوپر اوپر سے عزت کا ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ” نہرو آزاد کے جذبات و خیالات کا کس حد تک خیال رکھتے تھے اس کی ہلکی سی جھلک مولانا کی سوانحی کتاب ”انڈیا وِنز فریڈم“ کو پڑھ کر سامنے آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعد میں مولانا آزاد گوشہ نشین ہو کر رہ گئے تھے اور ان سے خال خال ہی کوئی شرف ملاقات کر سکتا تھا۔ “ میں کہوں گا تو شکایت ہو گی، تنقید نگار شیخ عبداللہ کے بارے میں کیا کہیں گے؟ ممکن ہے کہ موصوف کی نظر سے یہ کتاب نہ گزری ہو لیکن اب تو توجہ بھی دلائی ہے میری تحریر پر نتقیص نگاری سے پہلے ایک مضمون شیخ عبداللہ کے اس ناشائستہ حملے پر تو لکھ دیں؟

(جاری ہے)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
21 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments