آگ لگے ایسے راستے کو


جیسے ہی سینما میں کسی مقبول فلم کے پہلے شو کے لیے ٹکٹ بابو کی کھڑکی کھلتی ہے، لائن ٹوٹ کر جمگھٹے میں بدل جاتی ہے اور ایک ساتھ آٹھ مٹھیاں کھڑکی کے چھوٹے سے موکھے میں گھسنے کی کوشش کرتی ہیں اور دھینگا مشتی بعض اوقات اتنی بڑھ جاتی ہے کہ لات مکی میں بدل جاتی ہے مگر اس عمل کے دوران جن کے کپڑے پھٹ جاتے ہیں یا منہ چبے ہوجاتے ہیں، وہ بھی اسی ہال میں ان ہی کے برابر فلم سے لطف اندوز ہوتے ہیں جنھیں بغیر لائن توڑے بھی ٹکٹ مل گیا تھا۔

جیسے ہی ٹرین آتی ہے ہر مسافر سر پے سامان رکھ کے لپکتا ہے۔ مگر جو مسافر ڈبوں کے اندر پہلے ہی کھچاکھچ ہیں وہ اوروں کو گھسنے نہیں دیتے۔ چنانچہ کوئی کھڑکی کے ذریعے اندر کودنے کی کوشش کرتا ہے تو کوئی دو بوگیوں کو جوڑنے والے پائپ پر کھڑے ہو کر مطلوبہ ڈبے میں گھسنے کی اسکیم لڑاتا ہے تو کوئی آہستہ آہستہ پلیٹ فارم چھوڑنے والی ٹرین کے دروازوں سے لٹک جاتا ہے تو کوئی جاتی ٹرین کو کھڑا کھڑا گالیاں دیتا رہ جاتا ہے۔ وہ مسافر جو کسی نہ کسی طرح اندر پہنچ جاتے ہیں، دو تین اسٹیشن گزرنے کے بعد وہ بھی اگلے اسٹیشنوں پر ڈبے میں چڑھنے والے مسافروں کو ویسے ہی روکتے ہیں جیسے خود انھیں پچھلے اسٹیشنوں پر ڈبے میں گھسنے سے روکا گیا تھا۔

جیسے ہی شادی کے کھانے کی اسٹیل ڈشوں کے نیچے بیرے اسپرٹ لیمپ روشن کرتے ہیں۔ مشاق کھلاڑی کھانے سے سجی طویل میز کی جانب آہستہ آہستہ کھسکنا شروع کردیتے ہیں اور جیسے ہی بیرے ٹنا ٹن کی آواز کے ساتھ ڈھکن اٹھاتے ہیں، پہلا دستہ تیزی سے پیش قدمی کرتے ہوئے ڈشوں میں پڑے کفگیروں پر قبضہ کرکے اچھی اچھی بوٹیوں کا پہاڑ اپنی پلیٹ میں بنا کر وہیں کھڑا کھڑا کھانا شروع کردیتا ہے۔

اور باقی ہجوم کے حصے میں محض شوربا اور ہڈیوں سے لگا تھوڑا سا گوشت ہی رہ جاتا ہے۔ کچھ منچلے تو پوری پوری قاب اغوا کر کے اپنی میز تلک پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یوں کچھ پروفیشنل مہمانوں کے پیٹ حلق تک بھر جاتے ہیں، کچھ صرف بھوک ہی مٹا پاتے ہیں اور کئی بھوک بھی نہیں مٹا پاتے اور گھر جا کے کھانا زہرمار کرتے ہیں۔

جیسے ہی امدادی اشیا کا ٹرک آتا ہے تو مسٹنڈے مصیب زدگان کمزور مصیبت زدوں کو پیچھے دھکیل کر ٹرک گھیر لیتے ہیں۔ رضاکاروں کو بھی چونکہ واپسی کی جلدی ہوتی ہے لہذا وہ ہر بڑھے ہوئے ہاتھ کو مستحق فرض کرتے ہوئے کچھ نہ کچھ تھما کر نکلنے کی سوچتے ہیں۔ جس کے ہاتھ جو لگتا ہے وہ تو لگتا ہی ہے مگر وہ دوسرے سے بھی مزید کمبل، خوراک یا برتن جھپٹنے کی کوشش کرتا ہے۔ کمزور مصیبت کے مارے دور کھڑے بیبس آنکھیں پٹپٹانے کے سوا کچھ نہیں کرسکتے۔

جب باپ مرتا ہے تو تیسرے دن سے سگے بہنوں اور بھائیوں کی آنکھیں بدلنی شروع ہوجاتی ہیں۔ ترکے کے بٹوارے کے بارے میں سوچ سوچ کر خون پتلا اور پھر سفید ہونے لگتا ہے۔ اچھا برا بچپن ساتھ گذارنے والے یہ بچے ٹکے کی چند فانی اشیا حاصل کرنے کے لیے ایک دوسرے کو چھیدنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔

یاد ہے جب مشرقی پاکستان ساتھ تھا؟ پچیس برس تک وہ چیختے رہے، ہمیں ہماری سیاسی نمائندگی کے برابر حقوق دو، ہمارے وسائل پہلے ہم پر خرچ کرو اور پھر وفاق پر، ہم تم سے تمہاری کپاس کا پیسہ نہیں مانگتے بس ہمارے پٹ سن اور چاول کا پیسہ ہم پر لگا دو، بنگالی ثقافت کو بھی پاکستانی ثقافت ہی سمجھو، بنگالی بولنے والے بھی اتنے ہی پاکستانی ہیں جتنے اردو بولنے یا سمجھنے والے۔ ہزار میل کے فاصلے کو گھٹا کر سو میل کرو۔ ایسا نہ ہو کہ یہ ایک لاکھ میل لگنے لگیں۔ انگریز سے ملی آزادی سب میں برابر بانٹو۔ ہم نے گوروں کی زنجیریں اس لیے نہیں توڑی کہ ان کے بدلے کالوں کی غلامی میں آجائیں۔

مگر ہمارا جواب کیا تھا۔ یہی نا کہ ان پستہ قد، کالے، غلط اردو بولنے والے مچھلی چاول کے گولے بنا کر نگلنے والے، ہندو ثقافت کے اسیر نام نہاد مسلمان مخلوق کو ہم شلوار قمیض پہنا جناح کیپ اوڑھا ایک دم سچا پاکستانی بنا کے دم لیں گے۔ ایسے پاکستانی جو اپنے حقوق کے بارے میں بھول کر صرف وفاق کے اشاروں پر چلیں۔ اور پھر آپ نے دیکھا کہ کیا ہوا؟ قرار دادِ پاکستان پیش کرنے والے بنگالیوں کے لیے ہی پاکستانیت ایک گالی ہوگئی۔

آخر انفرادی اور اجتماعی سطح پر ہمارا یہ طرزِ عمل کیوں ہے؟ اتنے جھٹکے کھانے کے باوجود سوچ میں تبدیلی کیوں نہیں آتی۔ ہمارا احساسِ عدم تحفظ کم ہونے کے بجائے وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا ہی کیوں جا رہا ہے۔ ہمیں اپنی ناک سے آگے دیکھنا کیوں نہیں سکھایا جاتا یا ہم اس صلاحیت سے ہی محروم ہیں؟ ایسی کیا نفسیاتی پیچیدگی ہے کہ ہماری نیت ہمیشہ ہماری ضرورت سے آگے ہی رہتی ہے اور قربانی، کشادہ قلبی، نفس پر قابو، ہمسائے کے حقوق کے بارے میں ہوش سنبھالنے سے لے کے قبر تک سنتے سنتے کان پکنے کے باوجود ہمارے رویے ہمارے ہی شاندار لفظی قلابوں کا منہ چڑاتے رہتے ہیں۔

پنجاب میں پرانے لوگ آج بھی یہ محاور بولتے ہیں ” کھادا پیتا واہے دا، باقی احمد شاہے دا ”۔ یعنی جو کھا پی سکتے ہو وہی تمہارا ہے جو بچ گیا وہ احمد شاہ (ابدالی) لوٹ کر لے جائے گا۔ اس ایک مثال سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ ہمارے احساسِ عدم تحفظ کے تاریخی برگد کی جڑیں اس جغرافئیے میں کہاں تک پھیلی ہوئی ہیں۔ اور ہمارا دماغ سوائے اس کے کچھ اور کیوں نہیں ہوسکتا کہ جو ہاتھ لگتا ہے لے اڑو کل کس نے دیکھی۔

اب شاید سمجھ میں آ جائے کہ ”گاؤں بسا نہیں اور چور پہلے آ گئے‘‘ جیسے محاوروں کا مطلب کیا ہے۔ پاک چائنا اکنامک کاریڈوربننے سے پہلے پہلے ہم ایک دوسرے سے گھتم گھتا کیوں ہو چکے ہیں، شک و شبہے کے سانپ دماغوں میں کیوں پھنکار رہے ہیں۔ سچ، آدھے سچ اور جھوٹ میں تمیز روز بروز کیوں مشکل ہوتی جا رہی ہے۔ اب تو چین بھی ان تماشائیوں میں شامل ہو چکا ہے جو یہ منظر دلچسپی سے دیکھ رہے ہیں۔

سڑک پہلے دماغ میں بنتی ہے پھر زمین پر۔ جب دماغ ہی جھاڑ جھنکاڑ سے اٹا ہو تو سڑک چھوڑ پگڈنڈی بنانا بھی مشکل ہے۔ آگ لگے ایسے راستے کو جو جوڑنے کے بجائے اور تقسیم کردے۔ جب ہم ترقی کرنا نہیں چاہتے تو دنیا ہمیں ترقی کروانے پر آخر کیوں بضد ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).