میشا شفیع کی طرف سے جنسی ہراسانی کا الزام اور “ہم سب” کا موقف


معروف اداکارہ، گلوکارہ اور ماڈل میشا شفیع صاحبہ نے پاکستان کے ایک معروف گلوکار اور اداکار محترم علی ظفر پر جنسی ہراسانی کا الزام لگایا ہے۔ انہوں نے سماجی رابطے کے ایک فورم پر الزام لگایا ہے کہ علی ظفر نے ایک سے زائد بار انہیں جنسی طور پر ہراساں کرنے کی کوشش کی۔ دوسری طرف علی ظفر نے میشا شفیع کے الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اس معاملے کو عدالت میں لے جائیں گے تاکہ اپنی بےگناہی ثابت کر سکیں۔ اصولی طور پر ایسے دو طرفہ الزامات کی تصدیق یا تردید کے لئے عدالت ہی بہترین فورم ہے۔ تاہم اس دوران متعدد معروف اور غیرمعروف افراد نے ذرائع ابلاغ پر میشا شفیع اور علی ظفر کی حمایت یا مخالفت میں بیانات کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ سوشل میڈیا پر بھی اس ضمن میں دھواں دھار تحریریں شائع ہو رہی ہیں۔

پاکستان کی بلاگنگ ویب سائٹس میں “ہم سب” اپنے موقر لکھنے والوں نیز پڑھنے والوں کی قابل قدر پذیرائی کے باعث ایک اہم مقام رکھتا ہے۔ مختلف سیاسی اور سماجی معاملات پر ہم سب کی پالیسی بڑی حد تک واضح ہے۔ “ہم سب” سیاسی طور پر سیکولر پلیٹ فارم ہے۔ اس پر ہر شخص کے عقیدے کے حق کا یکساں احترام کیا جاتا ہے تاہم کسی موضوع پر بحث مباحثے کو مذہبی استدلال کے تابع نہیں سمجھا جاتا۔ ہم سب جمہوریت کا حامی ہے اور ہر قسم کی کھلی یا درپردہ آمریت کا مخالف ہے۔ “ہم سب” تمام سیاسی جماعتوں اور رہنماؤں کا یکساں احترام کرتا ہے۔ “ہم سب” ریاست پاکستان سے وفاداری اور آئین کی اطاعت میں یقین رکھتا ہے۔ “ہم سب” ہر قسم کے علمی اور سماجی مکالمے میں اظہار کی آزادی پر یقین رکھتا ہے۔  “ہم سب” مذہب، زبان، جنس، ثقافت، نسل یا ذات پات کی بنیاد پر ہر قسم کے امتیاز کی غیر مشروط مخالفت کرتا ہے۔ ہم سب تمام انسانوں کی نجی زندگی کا مکمل احترام کرتے ہوئے ہر قسم کی جنسی ہراسانی کو ناقابل قبول جرم سمجھتا ہے۔ ہم سب پاکستان کے آئین کی شق دس-الف میں بیان کردہ فیئر ٹرائیل کے مسلمہ معیارات کی روشنی میں جرم ثابت ہونے تک ملزم کی معصومیت، ملزم کے حق دفاع اور شفاف سماعت کی ترویج کرتا ہے۔

آزادی اظہار کی پالیسی کے مطابق ہم سب پر اکثر ایسی تحریریں بھی شائع ہوتی ہیں جو ادارے کی بیان کردہ پالیسی سے اختلافی زاویہ لئے ہوتی ہیں۔ تاہم اگر کسی تحریر میں منافرت، اشتعال انگیزی، تشدد یا کسی پر ذاتی حملے کا احتمال نہ ہو تو اسے پورے احترام کے ساتھ شائع کر دیا جاتا ہے۔ آج مورخہ 20 اپریل کو ہم سب پر محترم ظفر عمران کی ایک تحریر بعنوان ” میشا شفیع کا الزام اور فیمن ازم کی دکان داری” شائع ہوا ہے۔ ظفر عمران ہم سب کے محترم لکھاری ہونے کے علاوہ ادارتی بورڈ کے رکن بھی ہیں۔ چنانچہ کسی دوسرے لکھنے والے کی نسبت ظفر عمران کی تحریر کے مضمرات مختلف ہو سکتے ہیں اور یہ احتمال بھی ہو سکتا ہے کہ ہم سب صنفی مساوات، عورتوں کے حقوق اور جنسی ہراسانی کے بارے میں اپنے موقف سے ہٹ رہا ہے۔ چنانچہ ہم سب کا مدیر مسئول ہونے کے ناتے چند نکات بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔

ہم عورت اور مرد کی سیاسی، قانونی، معاشی اور سماجی مساوات کی تحریک فیمینزم کو گزشتہ صدیوں میں انسانیت کی ایک قابل قدر پیش رفت سمجھتے ہیں۔ ہم مردانہ بالادستی کی تاریخی حقیقت کو اسی طرح قابل مذمت سمجھتے ہیں جس طرح انسانی غلامی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ صنفی مساوات کی تحریک محض عورتوں کی ازادی سے تعلق نہیں رکھتی بلکہ مردوں اور عورتوں سمیت پوری انسانیت کے لئے جسمانی طاقت کے جنگجو اجتماعی نمونے سے ذہنی صلاحیت کے تخلیقی اجتماعی بندوبست کی طرف ایک بنیادی قدم ہے۔ جسمانی خصوصیات کی بنیاد پر انسانوں میں درجہ بندی ختم کئے بغیر انسانی معاشرے میں امن، آزادی اور انصاف کی منزل حاصل نہیں کی جا سکتی۔ فیمینزم کی قابل احترام تحریک میں پاکستان سمیت دنیا بھر کی بہترین عورتوں اور مردوں نے انسانیت کی شاندار خدمت انجام دی ہے۔ اس تحریک کے بارے میں “دکانداری” کا تحقیر آمیز لفظ استعمال کرنا قابل مذمت ہے۔
محترم ظفر عمران لکھتے ہیں کہ “فیمن ازم کی بات کرنا دراصل ایک فیشن ہے۔ آپ فیمن ازم کی بات کر کے مہذب سے لگتے ہیں، اور ایسا لگنا چاہتے ہیں”۔ فیشن کی اصطلاح یہاں بھیڑ چال کے معنوں میں استعمال کی گئی ہے اور ان تمام عورتوں اور مردوں کی توہین کے مترادف ہے جنہوں نے کٹھن حالات میں صنفی مساوات کے لئے شعوری سطح پر قربانیاں دی ہیں۔ ظفر عمران واضح نہیں کر سکے کہ “مہذب” ہونے کی کوشش کرنے میں کیا ہرج ہے۔ نیز یہ کہ  “بنیاد پرست یا دقیانوسی” کہلانے میں کیا خوبی ہے۔ ایک ہی سانس میں “بنیاد پرست” اور “دقیانوسی” کے دو بالکل مختلف الفاظ استعمال کرنے سے اندیشہ ہو رہا ہے کہ شاید محترم ظفر عمران ان اصطلاحات کا تاریخی اور معاشرتی پس منظر نہیں سمجھتے۔ کسی تحریک میں نعرے اور مبسوط موقف کا کردار الگ الگ ہوتا ہے۔ ظفر عمران نے کوئی دلیل نہیں دی کہ کوئی نعرہ “محروم عورت کے لیے مزید محرومیوں کا پیش خیمہ” کیونکر ہو سکتا ہے؟

میشا شفیع نے علی ظفر پر جنسی ہراسانی الزام لگایا ہے۔ اس پر محترم ظفر عمران کو”شوبز سے وابستہ افراد” کے اضطراب کی فکر لاحق ہو گئی ہے۔ یہ درست ہے کہ میشا شفیع اور علی ظفر شوبز سے تعلق رکھتے ہیں۔ لیکن یہ کس نے ، کب اور کہاں کہا ہے کہ جنسی ہراسانی کا شوبز سے کوئی لابدی تعلق ہے۔ کیا جنسی ہراسانی کے واقعات گھروں، گلی کوچوں اور دوسرے پیشہ ورانہ شعبوں میں رونما نہیں ہوتے؟ یہ سوال بھی کرنا چاہیے کہ جنسی ہراسانی کی کس تعریف میں مرد کو لازمی طور پر ملزم اور عورت کو مظلوم قرار دیا گیا ہے۔ جنسی ہراسانی میں عورت اور مرد کی کوئی تفریق نہیں۔ ایسی جنسی پیش قدمی جس میں فریق مخالف کی رضامندی شامل نہ ہو، جنسی ہراسانی کہلاتی ہے۔ اس میں عورت اور مرد کی کوئی تفریق نہیں۔ بھائی ظفر عمران خواہ مخواہ جنسی ہراسانی کا لفظ سنتے ہی گویا مرد پر حفاظتی کمبل ڈالنے کو لپکتے ہیں۔ انسانوں میں جنسی اخلاقیات کے اعلیٰ معیارات قائم کرنے کے لئے جنسی ہراسانی کی لعنت کو ختم کرنے کی ضرورت ہے خواہ ایسا فعل کوئی مرد کرے یا عورت۔

”ڈیجیٹل رائٹس“ کی محترمہ نگہت داد کو تبصرے کا حق ہے تاہم ان کا تبصرہ ہرگز برہان قاطع کا درجہ نہیں رکھتا۔ عینی اور واقعاتی شہادتوں نیز Due process of Law  کے بغیر کسی ملزم کو مجرم قرار نہیں دیا جا سکتا۔ بایں ہمہ، پاکستان کے ترمیمی قانون شہادت مجریہ 1984 کے بارے میں ظفر عمران کی رائے جاننا دلچسپی سے خالی نہیں ہو گا جس میں عورتوں کی گواہی کو مردوں سے نصف قرار دیا گیا۔ نیز زنا بالجبر کے مقدمات میں چار بالغ مسلم مردوں کی گواہی ضروری قرار دی گئی۔

ماڈل اور اداکارہ عائشہ عمر نے اگر میشا شفیع کی جرات کو داد دی ہے تو بھائی ظفر عمران کو اس میں شکایت کا پہلو کیسے نظر آیا۔ دنیا کی آدھی آبادی عورت ہے اور آدھی آبادی مرد۔ معلوم ہوتا ہے بھائی ظفر عمران نے انسانیت کے مردانہ نصف کی ذمہ داری رضاکارانہ طور پر اپنے کندھوں پر اٹھا لی ہے۔ راقم الحروف اپنی موہوم مردانہ شناخت کے علیٰ الرغم ظفر عمران کو اپنا وکیل ماننے سے انکار کرتا ہے۔

محترم ظفر عمران فرماتے ہیں کہ “عورت کی مظلومیت اور مرد کی ظلم کی کہانی ایک ٹیبو کے سوا کچھ نہیں۔۔۔۔ عورت جسمانی طور پہ مرد سے کم زور ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ”کم زور“ سے بڑا ”مکار“ کوئی نہیں ہوتا۔ طاقت ور کو مکر کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی، کم زور اپنا بچاو کرنے کے لیے چھپ کے وار کرتا ہے۔ اسی کو لے کر کے دانش وروں کی رائے اور الہامی کتابوں میں عورت کے”مکر“ کی بات کی گئی ہے۔” ناطقہ سر بگریباں ہے، اسے کیا کہیئے۔۔۔ ظفر عمران صرف یہ صراحت فرما دیں کہ عورت کے “مکر” کی یہ دلیل کسی عورت نے دی ہے یا مردوں نے گھڑی ہے؟

ایک خاصے کا جملہ محترم ظفر عمران سے سرزد ہوا ہے۔ فرماتے ہیں۔۔۔۔ ’عزت نفس‘ کی قربانی دے کر کچھ بھی حاصل کیا جائے، وہ کچرا ہے۔۔۔۔ خدا معلوم یہاں وہ کیا کہنا چاہتے ہیں۔ پدرسری معاشرے میں عورت کی ’عزت نفس‘ کا مفہوم کیسے متعین کیا جائے گا؟

میشا شفیع کی “سماجی اور خاندانی ” حیثیت کا حوالہ طفر عمران نے عبث دیا۔ جنسی ہراسانی ایک ایسا جرم ہے جو طبقاتی، پیشہ ورانہ، نسلی، ثقافتی اور مذہبی حدود کو خاطر میں نہیں لاتا۔ کیسی اچھی بات ظفر عمران نے کہی کہ ” الزام کے تناظر میں کسی ایک فریق کو ’مجرم‘ قرار دینا ہمارا کام نہیں۔” حضور یہی تو عرض ہے کہ آپ اس معمول کی شکایت کو “موازنہ نر و مادہ” میں بدلنے پر کیوں کمر بستہ ہیں؟ آپ خود اپنا موقف سوشل میڈیا پر دے رہے ہیں اور میشا شفیع پر الزام دھرتے ہیں کہ انہوں نے سوشل میڈیا کا سہارا کیوں لیا؟

اپنی تحریر کے آخری حصے میں بھائی ظفر عمران نے اپنے محبوب موضوع یعنی لسانیات میں کچھ نکتہ طرازی فرمائی ہے۔ اس پر بحث کی ضرورت نہیں۔ اللہ تبارک تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ مولانا ماجد دریابادی اور محترم ماہر القادری ہمارے درمیان سے اٹھ گئے لیکن اردو تلفظ اور املا کی حرمت کا پاسبان ظفر عمران بقید حیات ہے۔ کچھ روشنی اس میں تو ہے، ہر چند کہ کم ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).