اسلام میں اقلیتوں کے حقوق اور ہم


پاکستان ایک اسلامی ملک ہے جس کی چھیانوے فیصد آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ یہاں کا سرکاری مذہب اسلام ہے۔ دوسری طرف ہمارے پڑوس میں دنیا کا دوسرا بڑا گنجان آباد سیکولر ملک بھارت ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ ان دونوں ہمسایہ ملکوں میں اقلیتوں کی زندگی حصہ بقدر جُثہ اجیرن بنی ہوئی ہے۔ مثال کے طور پر بھارت میں آرایس ایس، بجرنگ دل اور شیوسینا جیسی انتہا پسند ہندو تنظیمیں مسلسل وہاں کے مسلمانوں، عیسائیوں، سکھوں اور نچلی ذات کے ہندو دلتوں پر مسلسل حملہ آور ہوتی ہیں۔ یہ انتہا پسند تنظیمیں گائے کا گوشت کھانے کے جھوٹے الزامات کی آڑ میں وہاں کی اقلیتوں کو پھانسی چڑھانے بلکہ آگ میں جلانے کی سزا تک دیتے ہیں۔ ریاست ایودھیہ میں چھبیس سال پہلے بابری مسجد کی شہادت کا المناک واقعہ، گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام اور سمجھوتہ ایکسپریس جیسے واقعات وہاں پر ہونے والے مظالم کی مشہور مثالیں ہیں۔

اسی طرح پاکستان میں گزشتہ طویل عرصے سے مسیحیوں کے گرجا گھروں پر کیے گئے حملوں میں سینکڑوں افراد ہلاک اور گھائل ہوئے ہیں۔ صرف بلوچستان جیسے کم آبادی والے صوبے میں بھی گزشتہ پانچ مہینوں میں مسیحی کمیونٹی پر تین حملے ہوئے، جس میں مجموعی طورپر پندرہ کے قریب مسیحی برادری کے لوگ ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے۔ جس طرح یہاں پر ٹی ٹی پی، جماعۃ الاحرار اور دولت اسلامیہ جیسی دہشتگرد تنظیموں کے لوگ ان اقلیتوں کو وقتاً فوقتاً نشانہ بناکر غازی بننے کی کوشش کرتے ہیں تو وہاں پر آر ایس ایس، بجرنگ دل اور دیگردہشتگر د تنظیمیں مودی سرکار کی خاموش تائید سے وہاں کی اقلیتوں پر گوناگوں مظالم ڈھاتے ہیں۔

دہشتگرد تو ویسے بھی دہشتگرد ہیں جن کا حقیقت میں کوئی مخصوص مذہب نہیں ہوتا، البتہ ماتم تو میرے دیس کے ان لوگوں کی عقل پر ہونی چاہیے جو اپنا تعلق اسلام جیسے مذہب کے ساتھ قائم کرنے کے باوجود اقلیتوں کو حقوق دینے میں سنجیدہ نظرنہیں آتے۔ یہ لوگ یہاں کی اقلیتوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے بارے میں”عذر ِگناہ ‘‘کا مصداق بن کر یہ بھونڈی دلیل پیش کرتے ہیں کہ اقلیتوں کے ساتھ ایسی زیادتیاں تو بھارت میں بھی ہورہی ہیں۔ یہ نادان ایسے دلائل سے اپنے آپ کو بہلاتے ہیں لیکن یہ بھول جاتے ہیں کہ آرایس ایس اور بجرنگ دل جیسی تنظیمیں اگر وہاں کی اقلیتوں پرمظالم ڈھاتے ہیں تو اُن سے یہی توقع تو کی جاسکتی ہے؟ ان کے پاس نہ قرآن کریم کی شکل میں ایک مستند آسمانی آئین موجود ہے اور نہ ہی محمد ﷺ جیسی ہستی کو انہوں نے اپنا امام بنایا ہوا ہے کہ ان کی تعلیمات کی لاج رکھیں۔

دنیا اقلیتوں کے حقوق کے دفاع کی امید تو اس پیامبر کے پیروکاروں سے کرتی ہے جس نے جانوروں کے حقوق کی تعلیمات سے بھی اُمت کو آگاہ کیا ہے۔ اقلیتوں پر حملوں کو تو وہاں باعث شرم سمجھا جانا چاہیے، جہاں لوگ ابوبکر ؓ اور عمر بن خطاب ؓ کو اپنے اسلاف کہہ کر فخر محسوس کرتے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب شام (جس میں اس وقت موجودہ بیت المقدس بھی شامل تھا ) پر جب عمرؓ بن خطاب کی خلافت میں مسلمانوں کی حکمرانی قائم ہوئی، تو وہاں پر عیسائی مذہب کے لوگ اقلیت میں تھے۔ کمال دیکھیے کہ وہاں اقلیتوں کے حقوق پر نہ کسی کو ڈاکہ ڈالنے کی جرات ہوئی نہ ہی ان سے جبراً مذہب تبدیل کروایا گیا بلکہ خلیفہ ثانی نے معاہدہ بیت المقدس کی صورت میں ان کے ساتھ ان الفاظ میں یہ تاریخی عہد نامہ کیا۔ ’بسم اللہ الرحمن الرحیم، یہ وہ امان نامہ ہے جو اللہ کے بندے عمرامیرالمومنین نے ایلیاء ( بیت المقدس)کے باشندوں کو دیا ہے۔ انہیں ان کی جانوں، ان کے مال، ان کے کلیساوں، ان کی صلیبوں کوتحفظ دیاہے۔ چاہے وہ بری حالت میں ہوں یا اچھی حالت میں اور ان کے تمام اہل مذہب کو بھی یہی تحفظ حاصل ہے۔ ان کے کلیساوں میں کوئی نہیں رہے گا، نہ ان کو گرایا جائے گا، نہ ان میں کوئی کمی کی جائے گی اور نہ ان کے مال میں کوئی کمی کی جائے گی، اور نہ ان کے دین میں ان پر کوئی زبردستی ہوگی، اور نہ ان میں سے کسی کو تکلیف پہنچائی جائے گی۔ اس تحریر پر گواہ ہیں خالد بن ولید، عمروبن العاص، عبدالرحمن بن عوف اور معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہم، جو کہ سنہ 15ہجری میں لکھا گیا‘‘۔

اسلامی ریاست میں مسلمانوں کے بیچ رہنے والے غیر مسلموں کے لئے یہ وہ رعایت تھی جس کا عملی نمونہ خلیفہ دوم حضرت عمرؓ نے اپنی سلطنت میں پیش کیا تھا۔ یاد رہے کہ ذمی کا لفظ عربی زبان میں ان غیر مسلم قوموں کے لئے استعمال کیا جاتاہے جو مسلمان تو نہ ہوں لیکن اسلامی مملکتوں میں سکونت پذیرہوں۔ اسلامی حکومت جس طرح ذمیوں سے ان کی جان ومال اور آبرو کی حفاظت کے بدلے جزیہ (ٹیکس) وصول کرتی ہے، اسی طرح صاحب نصاب مسلمان سے زکواۃ اور عُشر وصول کرتی ہے۔ دوسری طرف اسلامی حکومت نہ صرف غیر مسلموں کی جان و مال اور عزت کے تحفظ کی ذمہ داری لیتی ہے بلکہ ان میں سے جو لوگ غریب اور نادار ہوں، ان کو بیت المال سے امداد بھی فراہم کرتی ہے۔ اقلیتوں سے اس معاہدے میں گویا سب سے مقدم امر یہ تھا کہ ان کی جان، مال اور عزت کو مسلمانوں کی جان ومال کے برابر قرار دیاگیاتھا۔ یعنی اگر کوئی مسلمان کسی ذمی کو ناحق قتل کرتا تو حضرت عمر اس کے بدلے مسلمان قاتل سے قصاص لیتے۔

اپنی مذہبی رسوم اداکرتے وقت ان ذمیوں کو مکمل آزادی حاصل تھی یہاں تک کہ یہ لوگ ایک اسلامی ریاست کے اندر ناقوس بجا سکتے تھے اور سر عام صلیب نکال سکتے تھے۔ ایک دفعہ حضرت عمر فاروقؓ نے ایک یہودی بوڑھے کو اپنا جزیہ ادا کرنے کی خاطر بھیک مانگتے دیکھا توخلیفہ ثانی انہیں اپنے ساتھ گھر لے گئے اور کچھ نقدی دینے کے ساتھ ساتھ بیت المال کے داروغہ کو یہ بھی لکھ بھیجا کہ ایسے معذوروں کے لئے بیت المال سے وظیفہ مقرر کیا جائے کیونکہ اس ”انما الصدقات للفقراء والمساکین‘‘(صدقہ اور خیرات فقیروں اور مسکینوں کے لئے ہے) کی آیت کریمہ میں فقراء سے مسلمان جبکہ مسکین کے لفظ سے یہودی اور عیسائی مراد ہیں‘‘۔

غیرمسلم ضعیفوں کے حقوق کے بارے میں عمر ؓ نے یہ بھی فرمایا ”خداکی قسم یہ انصاف کی بات نہیں کہ ان لوگوں (ذمیوں ) کی جوانی سے ہم نفع حاصل کریں اور بڑھاپے میں ان کو نکال دیں۔ بتانا یہ مقصودہے کہ جس آسمانی آئین میں اقلیتوں کے حقوق کی پاسداری کا ہم نے عہد کیاہوا ہے، تو ہمیں اس کی لاج رکھنی ہوگی۔ اس دیس میں قلیت خواہ یہودی یا عیسائی ہو یاپھر ہندو اور سکھ ہو، سب کو ان کے جائز حقوق فراہم کرنا ہماری ذمہ داری ہے، نہ کہ ہمسایہ ملک میں ان کے ساتھ ہونیوالی زیادتیوں کی آڑ میں یہاں بھی ان سے حساب برابرکرنا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).