جنسی ہراسانی کا مشکل کیس


گزشتہ دنوں ”می ٹو“ کمپین کے بعد جنسی ہراسانی کے معاملات تواتر سے اٹھائے جانے لگے ہیں۔ میشا شفیع اور علی ظفر کا کیس بھی ان میں سے ایک ہے۔ جنسی ہراسانی کا معاملہ اٹھانے والی خاتون یا بعض صورتوں میں مرد پر سب سے بڑا اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ یہ الزام اس وقت کیوں نہیں لگایا گیا جب یہ واقعہ ہوا تھا؟ دوسرا اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ کیا ثبوت ہے کہ واقعی یہ واقعہ ہوا بھی ہے؟ تیسرا پوائنٹ یہ اٹھایا جاتا ہے کہ اس عورت کا تو رہن سہن ایسا ہے یا خیالات ویسے ہیں تو اسے کیا فرق پڑتا ہے کہ کوئی اس سے جنسی چھیڑ چھاڑ کر لے۔ لیکن آخر میں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا جھوٹا الزام لگا کر مردوں کو نشانہ بنانا بھی ممکن ہے؟ علی ظفر کی والدہ نے بجا طور پر کہا ہے کہ ”عورت کی طرح مرد کی بھی عزت ہوتی ہے، اس کی بھی فیملی ہوتی ہے“۔ ایک جھوٹا الزام کسی مرد کی سماجی زندگی اور کیرئیر تباہ کر سکتا ہے۔

سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ جنسی ہراسانی کا ارتکارب بیشتر صورتوں میں تنہائی میں اس وقت کیا جاتا ہے جب ارد گرد کوئی تیسرا شخص نہ ہو۔ ایسے میں مظلوم کے لئے الزام ثابت کرنا تقریباً ناممکن ہوتا ہے کیونکہ فیصلہ الزام لگانے والے کے الفاظ اور انکار کرنے والے کے الفاظ پر ہوتا ہے جن کو عدالت برابر وزن دے گی۔ فیصلہ کرنے کا واحد طریقہ یہ ہوتا ہے کہ کئی متاثرہ فریق سامنے آ جائیں اور اس طرح کئی الگ الگ گواہیاں مل کر یہ ثابت کریں کہ ملزم اس طرح کی حرکتوں کا عادی ہے۔ غالب امکان ہے کہ عدالت میں میشا اور علی ظفر کے کیس کا فیصلہ بھی انہیں اضافی گواہیوں کی موجودگی یا عدم موجودگی پر ہو گا۔

پھر یہ معاملہ بھی ہوتا ہے کہ جنسی ہراسانی کا شکار بننے والی شخصیت اس بات سے خوفزدہ ہوتی ہے کہ اگر اس نے یہ معاملہ پبلک کیا تو وہ یہ ثابت نہیں کر پائے گی اور الٹا اسے تضحیک کا نشانہ بنایا جائے گا۔ مردوں کے غلبے والے معاشرے میں یہ بھِی ہوتا ہے کہ جب کوئی خاتون یہ کہے کہ اس سے فلاں نے جنسی ہراسانی کی ہے تو بقیہ مرد اس عورت کو ایک آسان شکار سمجھنے لگتے ہیں۔ اس لئے خواتین یہ معاملہ اٹھانے سے کتراتی ہیں۔

دیر سے معاملہ اٹھانے کی کیا وجوہات ہوتی ہیں؟ بنیادی وجہ ہوتی ہے خوف یا خود کو ہی اس واقعے کا الزام دینا۔ یہ رویہ صرف ہمارے دیسی معاشرے سے مشروط نہیں ہے۔ سنہ 1991 جنسی ہراسانی کے معاملے میں ایک ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوا جب صدر جارج بش نے کلیرنس تھامس نامی ایک قانون دان کو سپریم کورٹ کا جج مقرر کرنے کی کوشش کی۔ انیتا ہل نامی ایک خاتون پروفیسر نے الزام لگایا کہ کلیرنس تھامس نے انہیں اس وقت جنسی ہراسانی کا نشانہ بنایا تھا جب وہ ان کے ماتحت کام کر رہی تھیں۔

اس پر امریکی سینیٹرز کی جانب سے انیتا ہل کو یہ سننا پڑا ”اس عورت نے محض شہرت پانے کی خاطر ایک شریف آدمی پر غلط الزام لگایا ہے۔ یہ شہرت پانے کے لئے کسی حد تک بھی گر سکتی ہے۔ کہیں یہ اتنی زیادہ جنس زدہ تو نہیں ہے کہ جاگتے میں بھی جنسی خواب دیکھتی ہو؟ کہیں یہ ایک ایسی مریضہ تو نہیں ہے جسے کسی مشہور شخص سے جنسی تعلق کا جنون ہو؟ اگر اس کا الزام درست تھا تو یہ اتنے عرصے کیوں نہیں بولی؟ یہ کیوں ان واقعات کے بعد اس شخص کے ساتھ ساتھ رہی؟ “ کچھ مزید خواتین بھی تھامس کلیرنس کے خلاف الزامات لے کر سامنے آئیں مگر انیتا ہل کے ساتھ ہونے والے سلوک کی وجہ سے پیچھے ہٹ گئیں۔ تھامس کلیرنس کو سپریم کورٹ کا جج مقرر کر دیا گیا اور وہ اس وقت بھی امریکی سپریم کورٹ کے جج ہیں۔ اس کیس کی تفصیل آپ میرے مضمون ”جنسی ہراسانی کا مطلب بدل ڈالنے والی عورت“ میں دیکھ سکتے ہیں۔

اس کیس کے نتیجے میں امریکی قوانین میں تبدیلی آئی۔ دفاتر اور اداروں میں جنسی ہراسانی سے بچنے کے لئے قوانین بنے۔ جنسی ہراسانی کے الزام کو سنجیدگی سے لیا جانے لگا۔ معاملہ سمجھ آنے کے بعد جو لوگ یہ کہتے تھے کہ ”اس وقت یہ کیوں نہیں بولی تھی“ کمزور پڑنے لگے۔

ایسا ہی ایک تواتر سے اٹھنے والا معاملہ پادریوں کی جانب سے بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا تھا۔ کئی بچے چالیس پچاس برس بعد بھی یہ بتانے کا حوصلہ نہیں کر پائے کہ ان کو بچپن میں ان کے چرچ کے پادری نے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا تھا۔ کون تھا جو ایک مقدس مذہبی شخصیت کے بارے میں ایک ننھے بچے کی بات پر یقین کرتا؟ مگر گزشتہ چند دہائیوں میں چند افراد نے حوصلہ کیا۔ ان کے پاس کوئی ثبوت نہیں تھا کہ چالیس پچاس برس پہلے ان کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ لیکن جب ایک شخص نے آواز اٹھائی تو پھر دوسروں کو بھی حوصلہ ہوا اور سینکڑوں کی تعداد میں گواہیاں اکٹھی ہونے لگیں کہ فلاں پادری نے واقعی ایسا کیا تھا۔ شروع میں چرچ معاملے کو دباتا رہا۔ آخر کار چرچ کو ایکشن لینا پڑا۔ پوپ نے معذرت کی۔ کیتھولک چرچ کی تاریخ میں کسی پوپ کی جانب سے ذاتی طور پر انٹرنیٹ سے بھیجا جانے والا پہلا پیغام چرچ میں ہونے والی اس زیادتی پر معذرت کا تھا جو پوپ جان پال دوئم نے نومبر 2001 میں بھیجا۔ اس کے بعد پوپ بینیڈکٹ اور پوپ فرانسس بھی معذرت کر چکے ہیں۔ اس کے نتیجے میں چرچ کے قوانین میں تبدیلیاں کی گئیں۔ بہت سے افراد کو ہرجانہ دیا گیا۔ 2002 کے اواخر تک چرچ نے معاملہ سیٹل کرنے اور قانونی فیس کی مد میں ایک ارب ڈالر سے زیادہ کی ادائیگی کی تھی۔

میشا کے کیس میں ایک اور پہلو بھی سامنے آ رہا ہے۔ وہ یہ کہ میشا اور علی ظفر کی ایسی تصاویر دکھائی جا رہی ہیں جن میں وہ ایک دوسرے کے قریب ہیں۔ گویا انیتا ہل کے معاملے کی طرح یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ میشا شہرت کی متلاشی ہے یا خود ہی جنس میں دلچسپی رکھتی ہے۔ ان دونوں کے کیس کا فیصلہ تو عدالت میں ہو گا، اور اس میں اہم عنصر یہی ہو گا کہ دوسری خواتین اس معاملے میں سامنے آتی ہیں یا نہیں۔ لیکن یہ سمجھنا کہ کوئی عورت مختصر لباس پہنتی ہو یا کسی تقریب میں ساتھ ہو تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ جنسی چھیڑ چھاڑ کی اجازت دے رہی ہے، درست نہیں ہے۔ یہ وہی رویہ ہے جس میں ریپ کے مجرم کی صفائی یہ کہہ کر دی جاتی ہے کہ ریپ ہونے والی خاتون، بچے یا بچی نے ایسا لباس پہنا ہوا تھا کہ مجرم خود پر قابو نہیں پا سکا اور اصل مجرم ریپ ہونے والا فرد ہے۔

انسانی شعور اب اس حد پر پہنچ چکا ہے کہ میریٹل ریپ پر بھی قوانین بن چکے ہیں اور شوہر کو بیوی سے اس کی مرضی کے خلاف جنسی تعلق قائم کرنے پر بھی سزا دی جاتی ہے۔ بنیادی چیز واضح مرضی ہے اور اس بنیاد پر کسی سے جنسی ہراسانی کو جائز قرار نہیں دیا جا سکتا ہے کہ اس خاتون کے خیالات ایسے ہیں یا اس کا کیریکٹر ایسا ہے تو ہر شخص کو خود بخود یہ حق حاصل ہو جاتا ہے کہ اس سے جنسی چھیڑ چھاڑ کرے یا اس کا ریپ کرے۔

علی ظفر اور میشا شفیع کے کیس کا فیصلہ تو عدالت کرے گی۔ علی ظفر نے بالکل درست فیصلہ کیا ہے کہ معاملہ سوشل میڈیا پر لڑنے کی بجائے عدالت کا رخ کیا ہے اور ادھر معاملہ صاف ہو جائے گا۔ ایک طرف چند دوسری خواتین سامنے آ رہی ہیں جو یہ دعوی کر رہی ہیں کہ علی ظفر نے ان سے بھی چھیڑ چھاڑ کی تھی اور دوسری طرف یہ بات بھِی پھیلائی جا رہی ہے کہ میشا شفیع کا ایک پروگرام میں علی ظفر کے برابر معاوضہ دینے کا مطالبہ تھا۔ سچ کیا ہے اس کا فیصلہ عدالت ہی کر سکتی ہے۔

بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں صحیح قانون کو بھی غلط طور پر اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنے کا رجحان موجود ہے۔ ہر معاشرے میں کسی مرتے ہوئے شخص کے نزعی بیان کو حتمی سچ سمجھا جاتا ہے لیکن ہمارے خطے کی اعلی عدالتوں کے ججوں کے کمنٹس ریکارڈ پر موجود ہیں کہ اس خطے کے لوگ مرتے وقت بھی دشمن کو پھنسانے کے لئے جھوٹا نزعی بیان دے دیتے ہیں اس لئے محض نزعی بیان کی بنیاد پر سزا دینا محفوظ نہیں ہے۔ ویمن پروٹیکشن بل کی مانند کئی دیگر قوانین بھی ہیں جو بنائے تو اچھِی نیت سے گئے تھے مگر ان کی جذباتی نوعیت کے پیش نظر ان کا غلط استعمال آسانی سے کرنا ممکن ہے۔

بات دفاتر اور اداروں میں جنسی ہراسانی کی روک تھام کے لئے بنائے گئے ویمن پروٹیکشن بل کی ہو تو یہ غور کرنا ہو گا کہ اب پاکستان میں ویمن پروٹیکشن کے نفاذ کے بعد اس بل کو بھی بعض معاملات میں اسی طرح اپنی کرپشن چھپانے اور مخالف سے جان چھڑانے کے لئے استعمال کیا جانے لگا ہے۔ کیا وقت نزع جھوٹی گواہی دینے والے معاشرے میں اس کا کوئی حل ہمارے پاس موجود ہے؟ شاید نہیں۔ یہاں ایماندار افراد بھی اپنی ایمانداری کی سزا اس قانون کے غلط استعمال کے ذریعے پاتے رہیں گے۔ اس طرح کے معاملات میں عدالت کو یہ پہلو بھی دیکھنا چاہیے کہ کیا ملزم اس ادارے یا الزام کنندہ کے ساتھ کسی دوسرے مالی یا انتظامی تنازعے میں ملوث تو نہیں ہے جس کی وجہ سے اس پر ہراسانی کا الزام عائد کیا گیا ہے؟
نوٹ: اس مضمون میں بیان کیے گئے خیالات مصنف کے ذاتی ہیں اور ان سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اسی بارے  میں

جنسی ہراسانی کا مطلب بدل ڈالنے والی عورت

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar