جنسی ہراسانی، جنسی استحصال۔ سلیبرٹی اور عام عورت!


سب سے پہلے تو ذہن میں کچھ دیر اس لفظ ’جنسی ہراسانی‘ کو رکھیے۔ اس کی شکار عورت، جس کی مرضی کے خلاف اس کو جنسی تعلق کی دعوت دی گئی ہو، یا اس کی مرضی کے بغیر اس سے دست درازی کی گئی ہو، بے حد تکلیف سے گزرتی ہے۔ اس تکلیف کا تعلق جسم سے زیادہ ذہن سے ہوتا ہے۔ عورت جب بھی کسی مرد کے ہاتھوں خود کو جنسی طور پہ غیر محفوظ سمجھنے لگتی ہے تو اس کا اظہار دو صورتوں میں ہوتا ہے۔ ایک صورت تو یہ کہ ایسے مرد سے، جس کی ایسی کوئی پیشکش عورت کو ناگوار گزرتی ہے، وہ اس مرد سے فوری طور پر دوری اختیار کر لیتی ہے۔ اس سے کراہیت محسوس کرتی ہے۔ دوسری صورت ایکسپلائٹیشن یا استحصال کی ہو سکتی ہے۔ ایسی صورت میں کہ جب وہ کسی ایسے تجربے سے گزر تی ہے، اپنی کسی مجبوری یا ضرورت کے تحت، تو ایسے میں عورت کا خاموش رویہ یا اس کی ناخوشی کسی نظر سے پوشیدہ نہیں رہ سکتی۔ ہراساں کرنے والے کے ساتھ ہنستی کھیلتی عورت ایک ایسا تضاد ہے جس پہ سوال اٹھایا جا سکتا ہے۔ یعنی ہراسانی کی ہر دو صورت میں عورت کا ردِ عمل بڑا فطری ہے جو بلا امتیازِ رنگ و نسل، دنیا کی ہر عورت پہ اپلائی ہوتا ہے۔

ایک معنی خیز نظر سے لے کر لفظی دل لگی اور چٹ چیٹ کی فلرٹیشن سے لے کر کام کی جگہ پر جنسی استحصال اور کبھی کبھی جنسی ہراسانی۔ آج کی عورت بہت کچھ جھیل رہی ہے۔ اس بات سے تو کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ عورت کو کسی بھی جگہ، کسی بھی رتبے میں یا کسی بھی عمر میں مرد کی طرف سے پسندیدگی، چاہت، یا جنسی تعلق کی دعوت درپیش ہو سکتی ہے۔ اس بات کو ایک فطری اصول کی طرح مان لینے میں کوئی حرج نہیں۔ بلکہ اس کو مان لینے سے عورت اپنے لئے کچھ اصول وضع کرنے۔ اپنے گرد کچھ حصار قائم کرنے۔ اور حقائق کو بہتر انداز سے سمجھنے کے قابل ہو جاتی ہے۔ فی زمانہ کم تعلیم یافتہ خواتین بھی خاصی پر اعتمادی سے ایسے معاملات سے نبرد آزما ہوتی نظر آتی ہیں جو کہ ایک بے حد حوصلہ افزاء اور قابلِ فخر صورتحال ہے۔ مگر دوسری جانب ہمارے یہاں ایلیٹ کلاس کی، اعلیٰ تعلیم یافتہ اور خاصی بولڈ خواتین کو جنسی ہراسانی کے مسائل درپیش ہیں۔ ۔ ایسیا واویلا عورت کی مزید تضحیک کرتا نظر آتا ہے کیونکہ عام آدمی یہ سمجھنے سے قاصر رہتا ہے کہ ان کے معاملے میں جنسی احترام کی حد کہاں سے شروع ہوتی ہے۔ ایسی خبروں سے عورت کی طاقت کو نقصان پہنچتا ہے۔ تعلیم یافتہ اور با اختیار ہو اور اپنی جگ ہنسائی کرے، اب عورت ایسی بھی کمزور نہیں!

ایسی خواتین جو تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ خود مختار اور اکپریسو ہیں۔ جو اپنے اپنے شعبے میں شاندار کام کر رہی ہیں۔ بے حد کامیاب ہیں۔ اپنی ایک شناخت رکھتی ہیں۔ شعبہ جات بھی وہ کہ جہاں آپ کا بے خوف و خطر اور بے باک کام کرنے کا ہنر ہی آپ کی کامیابی کی دلیل بھی ہے اور آپ کے تحفظ کی ضمانت بھی۔ ۔ ایسے میں اچانک کسی مرد پر چار سال یا دو سال پہلے کی گئی جنسی ہراسانی کا الزام دھر دینا، بے حد مضحکہ خیز بات ہے۔ شکایت عائشہ گلالئی کی عمران خان کے خلاف ہو یا میشا شفیع کی علی ظفر سے متعلق۔ قابلِ غو ر بات یہ ہے کہ ان خواتین نے کیا رویہ اختیار کیا؟ کیا ایسے مرد سے فوری طور پہ دوری اختیار کی جس نے انھیں جنسی طور پہ ہراساں کیا یا ان خواتین نے خود اپنا استحصال کیا۔ کسی بھی مقصد کو حاصل کرنے کی غرض سے۔ پہلا رویہ ہمیں نظر نہیں آتا اور دوسری صورت میں اگر کمپرومائز کیے گئے تو اس پہ اب سوال اٹھانا چہ معنی دارد؟ جب ایک عورت ان شرائط کو مان لے، جن سے وہ اپنا مقصد حاصل کرنا چاہتی ہے، وہ مقصد خواہ شوبز میں انٹری کا ہو ( شوبز کی اکثر خواتین کے بیان کے مطابق)، کسی اعلیٰ جاب کا حصول ہو، یا درونِ خانہ کوئی فائدہ حاصل کرنے کا معاملہ۔ تو حرمت کے سوال سے تو معاملہ باہر ہو ہی گیا۔ بات میں وزن تب ہوتا ہے جب بر وقت کی جائے اور عزتِ نفس کو مفا دات پر فوقیت دی جائے۔

عورت اور مرد کے دوستی جیسے تعلق میں بہر حال ایک باہمی کشش توکارفرما ہوتی ہے جو اس تعلق کی بنیاد ہوتی ہے۔ اس میں عموماً کسی منفی رجحان کا دخل نہیں ہوتا۔ مگر کبھی یوں ہو بھی جاتا ہے کہ یہ کشش قربت میں اضافے کا باعث بن جائے۔ آجکل کے بڑھتے رابطوں کی دنیا میں یہ کشش بہت سوں کو far distance relationship میں بھی باندھے رکھتی ہے۔ ایسے میں کسی ایک فریق کی طرف سے ( جو کہ اکثر مرد ہی کی طرف سے ہوتی ہے) جنسی پیش رفت ہو سکتی ہے۔ ایسا اکثر قریبی ورکنگ ریلیشن شپ میں بھی ہو جایا کرتا ہے۔ مگر چونکہ دوستی یا قربت کا رشتے کی وجہ سے ایک دوسرے کے مزاج سے واقفیت ہوتی ہے تو اس کا ردِ عمل بھی مناسب انداز میں دے دیا جاتا ہے۔ عورت ایسے میں واویلا کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتی۔ ایسی باتوں کو ہینڈل کرنے کا سلیقہ ہر با شعور عورت جانتی ہے۔ کتنا درگزر کرنا ہے۔ کہاں خفگی دکھا کر اپنی حد کا احترام کروا لینا ہے۔ اور کہاں اپنے ضبط کو سنبھالنا یا توڑ دینا ہے۔

جنسی ہراسانی کے معاملے میں ایک تیسرا رویہ بھی ہوا کرتا ہے جس کا مشاہدہ میری طرح ممکن ہے اور لوگوں نے بھی کیا ہو۔ اس رویے میں صرف عورت کے مزاج کی پیچیدگیاں ہوا کرتی ہیں، جنسی ہراسانی قطعی نہیں۔ اکثر توجہ کی طالب خواتین مرد کی جانب سے کسی ایسے اشارے کی قطعاً غیر موجودگی میں بھی، ہر مرد سے نمایاں احتیاط برتتی نظر آتی ہیں اور نتیجہً خواہ مخواہ مرد کی ذات کو مشکوک ٹھہرا دیا کرتی ہیں۔ کبھی کبھی محض کسی دوسری عورت سے حسد کا جذبہ ایسے الزامات کی بنیاد بن جاتا ہے۔ کبھی خود کو دوسری عورت سے بالاتر اور پر کشش بتانا مقْصود ہوتا ہے۔ مگر سب سے خطرناک اور اسی قدر بے سود عمل۔ بمثلِ زلیخا، یکطرفہ محبت کی تکمیل کے لئے جنسی ہراسانی کے الزام کا سہارا لینا۔ وجہ کچھ بھی ہو، یہ تیسرا رویہ جہالت اور سوچ کے بہت نچلے درجے سے متعلق ہے۔

ہم جس آج میں جی رہے ہیں اس کی قدریں گئے زمانوں سے بے حد مختلف ہیں۔ عورت کو جتنی آزادی آج حاصل ہے، ماضی میں کبھی نہ تھی۔ اس آزادی کو اپنی طاقت بنانے کی بات کی جائے تو قابلِ تحسین ہے۔ جنسی ہراسانی تو قدم قدم پہ ہے۔ ایک عام عورت اس سے نپٹ بھی رہی ہے۔ اسے منظرِ عام پہ لانا عقلمندی ہے نہ ہی اس کی پیچیدگی قانونی طور پہ حل کی جا سکتی ہے۔ میرے نزدیک، بات جنسی ہراسانی کی بجائے اگر جنسی استحصال کی کی جا ئے تو آج کی عورت جو اپنی تعلیم اور محنت کی بدولت اکثر جگہ مرد پہ برتری رکھتے ہوئے، پیچھے دھکیل دی جاتی ہے، اس کو اس کا حق مل سکے۔ شوبز کے نامور سیلیبرٹیز، ایسے قصوں میں بھی پاپولرٹی فلرٹیشن کرتے نظر آتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).