میشا، علی ظفر اور جنسی ہراسانی


میشا شفیع اور علی ظفر دونوں کا تعلق شو بز سے ہے۔ میشا شفیع کے علی ظفر پر جنسی ہراساں کرنے کا الزامات لگانے کے بعد سوشل میڈیا پر ان کے بارے میں عجیب عجیب باتیں سننے کو آ رہی ہیں۔ اس معاملے کے بارے میں سوشل میڈیا پر کچھ ایسے تبصرے کیے جا رہے ہیں:

علی ظفر نے انڈین فلموں میں بھی کام کیا ہے اور بھارتی اداکاراؤں کے ساتھ دل گرما دینے والے سین کیے ہیں۔ پاکستان میں بھی علی ظفر کو لڑکیوں کی کیا کمی ہے۔ کتنی ہی نوجوان اور خوب صورت حسینائیں ہیں جو علی ظفر کی ایک جھلک یا اس کے ساتھ ایک سیلفی کو ترستی ہیں۔ تو علی ظفر کو کیا ضرورت پڑی تھی کہ میشا شفیع کو ہراساں کرے۔ یہ سچ نہیں لگتا۔ جھوٹ ہے اور شو بز کی لڑکی نے سستی شہرت حاصل کرنے کی ایک کوشش کی ہے۔

یہ جو سنگر اور ایکٹر ہوتے ہیں، خاص طور پر خواتین، گانے والی، اداکاری کرنے والی یا رقص کرنے والی خواتین، ان کو بھلا جسمانی چھیڑ چھاڑ کا برا منانے کا کیا حق ہے۔ میرا مطلب ہے کہ ایک خاتون نے میک اپ اور مختصر لباس کی مدد سے خوب سوہنا بلکہ سیکسی لگنے کی پوری کوشش کی۔ پھر سٹیج پر ہزاروں یا کم از کم سیکڑوں لوگوں کے سامنے آ کر خوب تھرک تھرک کے رومینٹک گانے گائے اور آگے بڑھ بڑھ کر داد سمیٹی اسے اگر کسی نے ہاتھ لگا دیا یا ایسا ویسا کچھ کر دیا تو بھلا ایسی خاتون کا کیا جاتا ہے۔ ایسی خواتین کے لیے جنسی ہراسانی سے پریشانی ایک ڈرامے سے زیادہ بھلا کیا ہو گی۔

اداکارائیں کیمرے کے سامنے ایسے لباس میں آتی ہیں اور پھر ان کا دل کرتا ہے کہ کروڑوں لوگ انہیں دیکھیں۔ یوٹیوب پر اپنے کلپس کے ویوز اور لائیکس دیکھتے تھکتی نہیں اور اتنے مردوں کو اتنے فرینک انداز میں انٹرویوز دیتی ہیں۔ حتی کہ اپنے ”بوائے فرینڈ“ تک کا ذکر کرتی ہیں۔ ہر بڑی سڑک پر سائین بورڈز پر بڑے خاص انداز سے کھڑی ہوتی ہیں اور اس پر فخر بھی کرتی ہیں۔ تو اس کردار کے باوجود پھر جنسی ہراسانی کی شکایت بھی کرتی ہیں۔ ان سے بھلا کوئی پوچھے کہ پہلے تو تم یہ سب کچھ مردوں میں جنسی ہیجان پیدا کرنے اور انہیں اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے کرتی ہو اور جب وہ متوجہ ہوتے ہیں تو پھر جنسی ہراسانی یاد آ جاتی ہے۔

صرف یہی نہیں۔ ان کی یہ ساری حرکتیں ان کے گھر کے مردوں سے بھی چھپی نہیں ہوتیں۔ جس کا مطلب ہے کہ غیرت اپنی موت آپ مر چکی ہوتی ہے تو پھر جنسی ہراسانی یا چھیڑ چھاڑ سے پریشانی کیسی۔ یہ سب تو مزے کی چیزیں ہیں۔

میشا شفیع ہی کو دیکھو، اس نے علی ظفر کے ساتھ کیسے کیسے انداز میں گانے گائے ہیں۔ دن رات کے کون سے پہر میں وہ اکٹھے نہیں ہوئے ہوں گے۔ کہاں کہاں گھومے نہیں ہوں گے اور کون کون سی پارٹی میں شامل نہیں ہوئے ہوں گے۔ کیسے کیسے لباس میں ان کے فوٹو موجود ہیں۔ یہ سب کچھ کرنے اور ایسے فوٹو بنوانے اور انہیں سوشل میڈیا پر لگانے کے بعد جنسی ہراسانی کی بھلا کہاں گنجائش بچتی ہے۔

جنسی ہراسانی تو یہ ہوتی ہے کہ ایک لڑکی اگر گھر سے باہر ہے اور اپنے آپ کو مکمل طور پر ڈھانپا ہوا ہے۔ نہایت محتاط طریقے سے سڑک کے ایک کنارے نیچے دیکھ کر جا رہی ہے۔ کسی مرد کو کوئی جنسی دعوت نہیں دے رہی۔ پھر بھی اگر کوئی مرد اسے چھیڑتا ہے تو اس عورت کو کسی حد تک شکایت کرنے کا حق ہے۔ لیکن ایسی لڑکیاں چونکہ شریف ہوتی ہیں اس لیے انہیں مرد چھیڑتے ہیں تو وہ شکایت نہیں کرتیں کیونکہ یہ بے عزتی کا معاملہ ہے اور شریف گھروں کی لڑکیاں ان جھمیلوں میں پڑ کر اپنی اور اپنے خاندان کی ناک نہیں کٹواتیں۔ اور ظاہر ہے ایسی بات آگے بڑھے گی اور لوگ سنیں گے تو جتنے منہ اتنی باتیں۔ کوئی لڑکے کو الزام دے گا تو کوئی لڑکی کو۔ بے عزت تو بہرحال لڑکی اور اس کے خاندان کی ہی ہو گی۔

آپ نے تبصرے دیکھے۔ اب سمجھنے کی بات یہ ہے کہ جنسی ہراسانی کیا ہے اور کیا میشا شفیع کو جنسی ہراسانی کی شکایات کا حق ہے یا نہیں؟ کون سی بات جنسی ہراسانی ہے اور کون سی نہیں ہے؟ اس کا جائزہ لینے کے بعد آپ مندرجہ بالا تبصرے دوبارہ پڑھیں اور اس کے بعد فیصلہ کریں کہ یہ مناسب ہیں یا نامناسب۔

ساری دنیا میں عام طور پر اور پاکستانی معاشرے میں خاص طور پر جہاں عورتوں کے خلاف صنفی امتیاز (gender based discrimination) زندگی کا معمول ہے وہاں جنسی ہراسانی جیسے نازک معاملے کو سمجھنا آسان نہیں ہے۔

کوئی بھی دو بالغ لوگ جو ایک دوسرے کو جانتے ہوں۔ چاہے وہ ایک جگہ کام کرتے ہوں یا کسی بھی وجہ سے ان کی ملاقات ہو۔ ان میں سے کوئی ایک دوسرے کو پسند کرنے لگے اور اس بات کا اظہار کرنا چاہے تو کیسے کرے کہ وہ جنسی ہراسانی کے زمرے میں نہ آئے۔ ایسی صورت میں مؤدب اور باعزت طریقے سے بلا واسطہ اپنی خواہش کا اظہار زبان سے کیا جائے اور اگلے شخص کی مرضی معلوم کی جائے اور اس کی مرضی کا دل سے احترام کیا جائے اور اپنی بات پر اڑ نہ جایا جائے۔ دوسرے فریق کو نہ میں جواب دینے کا پورا حق دیا جائے۔ نہ صرف یہ کہ اس کے انکار پر منفی رد عمل نہ ظاہر کیا جائے بلکہ اس کی ”نہ“ کا احترام کیا جائے تو یہ جنسی ہراسانی کے زمرے میں نہیں آتا۔ ہاں البتہ یہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ آپ جس کے ساتھ ”اظہار محبت“ کر رہے ہیں اس کے اور آپ کے درمیان طاقت کا توازن کیا ہے۔ آپ کی نئی ”محبت“ کی زندگی کی اہم ضرورتیں جیسے کہ تعلیم مکمل کرنے یا روزگار وغیرہ کا انحصار آپ پر ہونا اس بات کو مزید پیچیدہ بنا دیتا ہے۔ ایسی صورت میں آپ کا ڈیسنٹ ”اظہار محبت“ بھی جنسی ہراسانی کی زد میں آ سکتا ہے۔

اس کے علاوہ ”اظہار محبت“ کا کوئی بھی طریقہ اختیار کرنا جنسی ہراسانی ہے۔ وہ خاتون چاہے جو بھی کام کرتی ہو، کیسے بھی کپڑے پہنتی ہو یا جنسی رویوں کے بارے میں اس کی ذاتی رائے کچھ بھی ہو۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہ بات ان لوگوں کے لیے تھی جو ایک دوسرے کو جانتے ہیں۔ کسی اجنبی کے ساتھ ایسا کرنا بالکل الگ بات ہے۔

کسی بھی اجنبی خاتون کے ساتھ ایسی بات کرنا نہایت ہی نازیبا حرکت ہے اور سراسر جنسی ہراسانی ہے۔ اس میں کسی بھی طرح کی کوئی گنجائش باقی نہیں ہے۔

ایک اور بات بھی قابل غور اور دلچسپ ہے کہ آپ اگر مرد ہیں اور سامنے بیٹھی ہوئی خاتون کو آپ اپنی پروپوزل قبول کرنے کی درخواست کر رہے ہیں تو ذرا غور کریں کہ کیا آپ تمام خواتین کو ایسی پروپوزل قبول کرنے کا حق دیتے ہیں۔ یاد رہے کہ تمام خواتین میں آپ کے گھر کی خواتین بھی شامل ہیں۔ اگر آپ کا جواب نہ میں ہے تو پھر آپ کے پاس بھی کسی خاتون کو پروپوز کرنے کا حق نہیں ہے۔

میشا شفیع کی جانب واپس آتے ہیں۔ میشا کے ساتھ اگر جنسی ہراسانی ہوئی ہے تو اسے شکایت کرنے کا پورا حق ہے۔ چاہے وہ کوئی بھی کام کرتی ہے اور اس کام کی وجہ سے اس نے علی ظفر کے ساتھ کیسے بھی فوٹو بنوائے ہیں یا اس کام کے لیے (یا ویسے بھی) وہ جیسا بھی لباس پہنتی ہے۔ ان ساری باتوں سے نہ تو جنسی ہراسانی کی وجہ سے ہونے والی تکلیف کم ہوتی ہے اور نہ ہی اس جرم کی شدت کم ہوتی ہے۔
(میشا کا الزام غلط ہے یا صحیح اس بات کا مجھے کوئی علم نہیں)

سلیم ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سلیم ملک

سلیم ملک پاکستان میں شخصی آزادی کے راج کا خواب دیکھتا ہے۔ انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند۔

salim-malik has 355 posts and counting.See all posts by salim-malik