کشمیر کی لٹی ہوئی کلی سے کرو گے شادی؟


خوف کا احساس بعد میں ہوا مگر اس سے پہلے درد میرے جسم کے ہرحصے پہ تیروں کی طرح برستا گیا۔ میری آنکھیں سے بے اختیار آنسو نکل آئے۔
گردن سے مفلر اور جسم سے بلاؤز کے اُترتے ہی اس کا جسم میرے سامنے تھا۔ دونوں کانوں کے ذرا نیچے سے ایک سرخ نشان نیچے کی طرف چلتاگیا تھا۔ حلق کے پاس سے گھومتا ہوا دونوں چھاتیوں ایک اُبھرا اُبھرا بھدّا سا نشان بن کر رہ گیا۔ جہاں دونوں نپل بے دردی سے کاٹ دیے گئے تھے وہاں پر زخم بھرجانے کے بعد سرخ سرخ آڑھے ترچھے اُکھڑے بکھڑے نشان بن گئے تھے۔

یہ ہے میرا جسم اور یہ کیا تھا ان لوگوں نے میرے ساتھ، مجھے لوٹنے، پامال کرنے اور اجتماعی بلادکار کے بعد۔ کروگے شادی اس کے باوجود؟ اس نے تیکھی نظروں سے مجھے غور سے دیکھتے ہوئے عجیب سے لہجے میں کہا اس کی بھی آنکھوں میں آنسو تھے اورمیں بھی رورہا تھا۔
میں نے اس کا مفلر اُٹھا کر اس کی چھاتیوں پہ رکھا اوردوپٹے کی طرح اس کے کندھوں پر ڈال دیا۔

وہ مجھے میلان میں ملی تھی۔ میں شہر کے سب سے بڑے چرچ ڈوم ڈی میلانو کے ایک جانب سائے میں بیٹھ کر آنے جانے والے لوگوں کو دیکھ رہا تھا۔ میلان شہر میں ڈوم ڈی میلانو شہر کا سب سے بڑا چرچ ہے اور آٹھ سو سال پرانا بھی۔ اس بڑی سی تاریخی عمارت کو دنیا بھر کے سیاح دیکھنے آتے ہیں۔ اس کے باہر ہر نسل اور قوم کے افراد چلتے پھرتے گھومتے نظر آتے ہیں۔ یہ میری عادت سی ہوگئی تھی۔ کبھی چھٹی والے دن اور کبھی عام دنوں میں وقت بے وقت کبھی دوپہر کا کھانا کھا کر یا کبھی شام کو واپس آتے ہوئے میں وہاں بیٹھ جاتا اور آنے جانے والوں کے چہروں پر لکھی ہوئی کہانیوں کو پڑھنے کی کوشش کرتا تھا۔

اس دن وہ میرے سامنے سے گزرتی ہوئی میرے قریب سے ہوکر میرے پاس ہی ڈوم ڈی میلانو کے سائے میں بیٹھ گئی تھی۔ وہ دور سے ہی محسوس کرلینے کے قابل تھی۔ دراز قد، جسم پر چمکتا دمکتا دھکتا ہوا چہرہ، اس پر بڑی بڑی آنکھیں جن کے اوپر گھنی بھنوؤں نے سایہ سا کیا ہوا تھا۔ اس نے گردن میں مفلر ایک خاص طریقے اور سلیقے سے لپیٹا ہوا تھا۔ خوبصورت سی کالر والی قمیض اور اس پر اس نے لانبا سا اسکرٹ پہنا ہواتھا۔ اس کے سیاہ بال اس کے کاندھوں پر چھترائے ہوئے تھے۔ جیسے جیسے وہ چلتی گئی ویسے ویسے میری آنکھیں اس کا تعاقب کرتی گئی تھیں۔ جب وہ ڈوم ڈی میلانو کی سیڑھیوں پر بیٹھ گئی اوراپنے تھیلے نما بیگ سے اخبار نکال کر پڑھنے لگی تو میں حیران رہ گیا۔

اس کے ہاتھ میں کشمیر سے نکلنے والا اُردو اخبار روزنامہ شاردا تھا۔ وہ اردو پڑھ رہی تھی اوریقینی طورپر بظاہر یورپین نظر آنے والی یہ لڑکی درحقیقت شاید برصغیر سے تعلق رکھتی تھی۔ میں اپنی جگہ پر بیٹھا نہ رہ سکا اوراٹھ کر اس کے قریب جا کر بیٹھ گیا تھا۔

”میں انجم ہوں، پاکستان سے میرا تعلق ہے آپ کے ہاتھ میں اُردو اخبار دیکھ کر اپنے آپ کو روک نہیں سکا۔ ‘‘ میں نے اسے مخاطب کرتے ہوئے کہا۔
اس نے اپنی بڑی بڑی پلکوں کے سائے تلے چمکتی ہوئی ذہین نظروں سے دیکھا اور پھر آہستہ سے بولی، ”جی ہاں یہ اُردو اخبار ہے۔ شاردا میں یہی پڑھ رہی تھی اِدھر اُدھر کی خبریں۔ کبھی کبھار فرصت ملتی ہے تو یہاں آکر بیٹھ جاتی ہوں۔ بڑا اچھا لگتا ہے۔ ‘‘

میلان شہر میں مسلمانوں کی دکانوں میں پاکستان، بھارت اورکشمیر سے نکلنے والے اُردو اور دیگر زبانوں کے اخبارات بھی مہیا ہوتے ہیں۔ میں اپنی زیادہ تر خریداری انہی دکانوں میں کرتا تھا اوراکثر و بیشتر ان دوکانوں سے اپنے دیس کے مختلف اُردو انگریزی اخبارات لے آیا کرتا تھا۔ شاردا بھارتی کشمیر سے نکلنے والا اخبار تھا۔
کبھی کبھی یہ اخبار میں بھی پڑھتا ہوں میں نے بات شروع کرنے کے لئے کہا تھا۔ اچھا ہے کشمیر کی تازہ بہ تازہ خبریں مل جاتی ہیں۔
صحیح کہہ رہے ہیں آپ مگر زیادہ دلچسپ خبریں ہفتہ وار چٹان اور روزنامہ روشنی میں ہوتی ہیں۔

یہ اخبار میں نے دیکھے ضرور تھے مگرپڑھے نہیں تھے اور ویسے بھی کشمیر کی خبروں سے مجھے بہت زیادہ دلچسپی نہیں تھی۔ جتنی دلچسپی تھی اس کے لئے دوسرے اخبارات میں کافی مواد مل جاتا تھا۔ کیا کرتے ہیں آپ یہاں؟ ”میں تو یہاں پڑھنے آیا ہوں۔ ‘‘ میں نے اسے اپنے بارے میں بتاتے ہوئے اس کے بارے میں سوال کیا۔

”جی میں ایک اسکول میں پڑھاتی ہوں بچوں کو۔ تین سال سے میلان میں رہ رہی ہوں اسکول کے ہی مہمان خانے میں میرے رہنے کا انتظام ہے۔ میرا تعلق کشمیر سے ہے، ہندوستانی کشمیر سے۔ ‘‘ اس نے ایک سانس میں اپنے بارے میں بتادیا تھا۔

”مجھے اندازہ ہوگیا تھا کہ آپ کشمیر کی ہیں یا ہمارے پاکستان کے سرحدی علاقوں سے آپ کا تعلق ہے، اس رنگ ڈھنگ کے لوگ وہاں کے ہی ہوتے ہیں۔ ‘‘ میں نے اسے غورسے دیکھتے ہوئے کہا۔
پھر ہماری دوستی ہوگئی۔ ہم دونوں تھوڑی دیر تک وہیں بیٹھے گپ مارتے رہے۔ اِدھر اُدھر کی باتیں، ہندوستان پاکستان کی سیاست کی باتیں، دونوں ملکوں کے بددیانت سیاستدانوں کے قصے، بمبئی کی فلموں کا قصہ اوراٹلی کی سیاسی کہانیاں۔ اور میلان شہر کے میئر کے اقدامات کہ شہر صاف ستھرا بھی اور ثقافتی مرکز بھی۔ پھر میں نے ہی اسے دعوت دی کہ وہ قریب ہی کیفے گیلریا میلانو میں چل کر کافی پی لے۔ اس نے انکار نہیں کیا تھا۔

مجھے نہیں پتہ چلا کہ میں نے اسے کتنا متاثر کیا مگر میں اس سے زبردست طریقے سے متاثر ہوگیا۔ وہ مجھے بہت سادی سی، پروقار، پُراعتماد اور بہادر لڑکی لگی۔ اس کے بات کرنے کا انداز بڑا جچا تلا تھا اور جو بات بھی کرتی نپے تلے انداز میں کرتی۔ ساتھ میں اس کی ہنسی کا انداز بھی زبردست تھا۔ زیادہ تر ہم لوگ منہ سے ہنستے ہیں، مگر وہ شاید پھیپھڑوں سے ہنستی تھی۔ ایک بھرپور ہنسی دل سے نکل کر ہر ایک کو خوش کردینے والی۔ مجھے اچھی لگی بہت اچھی۔ ہم نے ایک دوسرے کے فون نمبر لے لئے اس وعدے کے ساتھ کہ اگلے ہفتے دوبارہ ملنا ہے۔
اگلے ہفتے ہم لوگ دوبارہ ملے۔ اس نے فون پر کہا تھا کہ میں اس کے ساتھ میلان کا تاریخی میوزیم دیکھنے چلوں اور میں فوراً ہی راضی ہوگیا تھا۔

مضمون کا بقیہ حصہ پڑھنے کے لئے “اگلا صفحہ” کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3