کیا ہمارا معاشرہ مذہبی ہے ؟


میرا کہنا ہے کہ اول تو آپ اسے اس کا بنیادی حق نہیں دیں گے اور اگر وہ اس زور زبردستی سے پریشان ہوکر کوئی چور راستہ دریافت کرلے تو آپ اس سے ناراض ہوجائیں گے، اسے ایک بہکی ہوئی، خود غرض، حرافہ قسم کی لڑکی کہیں گے، عورت ذات پر سوال قائم کریں گے، بعض معاشروں میں ایسی عورتوں کو قتل کرنے اور سنگسار کرنے سے بھی دریغ نہ کیا جاتا، تو بنیادی حق کو نظر انداز کردینے کی غلطی کرنے سے کیا آپ مذہب کی بڑی خدمت کررہے ہیں؟ پھر سوچ کر دیکھیے کہ آخر اس سزا کا حق دار اصل میں کون ہے؟

سینکڑوں لوگ ہمارے معاشرے میں بھوک اور ذلت کی زندگی گزار رہے ہیں۔وہ کمزور ہیں، نادار ہیں، شکستہ حال ہیں، غربت میں بسر کررہے ہیں۔میں ایک صاحب کو جانتا ہوں، ان کا جنرل سٹور ہے، وہ پنج وقتہ نمازی ہیں، ضرورت مندوں کو قرض پر سامان دیا کرتے ہیں، لیکن بڑی صاف گوئی اور سچائی سے کہتے ہیں کہ قرض دی جانے والی ہر شے پر وہ مقروض سے ایک یا دوروپیہ زائد لیں گے۔چلیے ان میں اتنی اخلاقیات تو ہے کہ سچ بول کر سود لیتے ہیں۔اور واقعی بے حد مطمئن ہیں کہ وہ کوئی غلط کام نہیں کررہے، گناہ نہیں کررہے۔مجھے بتائیے کہ اگر مولوی صاحبان لوگوں کو مذہب کی بنیادی تعلیمات ڈھنگ سے پہنچا پاتے تو کیا اس قسم کے سود خور پیدا ہوپاتے،پھر جب ایک سود خور سے دوسرا اور دوسرے سے تیسرا پیدا ہوتا ہے تو کس بل بوتے پر یہ پورا معاشرہ چیخ پکار کر کہتا ہے کہ ہم خدا کے سب سے مقرب بندے ہیں۔پھر یہ اتنی ساری مسجدیں کس لیے ہیں، کیا صرف اپنے مسلک کے لوگوں پر کالا سندور سجانے کے لیے، ان کا ماتھا روشن کرنے کے لیے؟ اور چلیے مسجدیں ہیں تو ہیں، لوگوں کی عام ذمہ داری کہاں چلی گئی۔ اگر کسی معاشرے میں ایسے ذمہ دار لوگ پیدا ہوجائیں جو انسانوں کو ان بنیادی تعلیمات سے آگاہ کریں اور معصوم مذہبی لوگوں کا دھیان ان غلطیوں کی جانب دلوائیں تو بہت بڑا مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔

ایک آخری مسئلہ یہ ہے کہ جن فروعی باتوں پر ہم زیادہ دھیان دیتے ہیں، وہ ہمارا مسئلہ نہیں ہونی چاہییں۔ کس لڑکی نے کس لڑکے سے شادی کی؟ کون سی لڑکی جاب پر جاتے وقت ٹائٹ جینز پہنتی ہے؟ کون سا لڑکا امریکی سود خور بینک میں کام کرتا ہے؟ کون میرے مسلک کا ہے، کون تیرے؟ کس کی شادی ٹوٹ گئی، کس کی لگ گئی۔ان سے کیا فرق پڑتا ہے، مان لیجیے کہ دو محبت کرنے والے سڑک پر ، پارک میں، جھیل کنارے یا کہیں اور آپس میں بات کررہے ہیں تو اس سے آپ کو کیا فرق پڑتا ہے، کیا آپ کے گھر کھانا نہیں بنے گا، راشن نہیں آئے گا، معاشرہ تو آپ کی بے وقوفانہ حرکتوں سے بگڑ رہا ہے، چالیس دن کی جماعتیں بنا بنا کر آپ نے جس طرح لوگوں کو ، خاص طور پر مسلمانوں کو نماز پر راغب کیا، اگر اسی طرح انہیں دنیاوی تعلیم پر بھی اکساتے، ان کے لیے کیریر کاﺅنسلنگ کا کوئی راستہ تلاش کرتے، عورتوں کو گاﺅں گاﺅں پہنچ کر انگریزی کی بہتر تعلیم دلواتے تو معاشرہ بدلتا، ضرور بدلتا، اور آپ کا مذہب بھی سرفراز ہوتا، اس کی اچھائی اور آپ کی نیت کی سچائی سے ہم بھی خوش ہوتے اور خدا بھی۔کیا دل کو لگتی بات میرے دوست شہرام سرمدی نے کہی تھی کہ زمانہ جاہلیت میں چودہ سو سال پہلے عورت کو آدھا حق دلوانا بہت بڑی کامیابی تھی مگر میں ان لوگوں کی حمایت کیسے کروں ، جو اب بھی اس آدھے حق کی رسی سے لٹکے ہوئے جھول رہے ہیں۔

یہ پورا معاشرہ ایک عجیب قسم کی بیماری میں مبتلا ہے۔ آسیب، بھوت، جن پر یقین رکھتا ہے، ان کے بارے میں خوف و دہشت سے ایک بری بات نہیں سن سکتا، ان کے وجود سے انکار کو گناہ سمجھتا ہے، جب کہ انسان کو اس کے مذہبی نقطہ نظر (جس کے لیے وہ بنیادی طور پر خود مختار ہے کہ کس نظریے کا انتخاب کرے)کی بنیاد پر گالی دیتا ہے، برا بھلا کہتا ہے، قتل کرتا ہے۔ جب آپ اس بات کے قائل ہیں کہ انسان نے ذرہ بھر شر کیا ہو یا خیر، اس کا حساب خدا انسان سے لے گا، تو آپ کو بدلہ لینے کا حق کون سے آئین نے دے دیا۔آخر آپ ایک ایسا معاشرہ کیوں نہیں پیدا کرتے، جس سے لوگ آپ کے مذہب کو ایک آئیڈیل مذہب سمجھیں، اگر آپ اسی پر یقین رکھتے ہیں تو قرآن کو خود پڑھیے، احادیث کو خود سمجھیے، کسی ملا مولوی کی مدد مت لیجیے، کیونکہ مولوی نہیں چاہتا کہ آپ محلے کی صفائی ستھرائی پر دھیان دیں۔ آپ زکوٰة کے صحیح خیال سے واقف ہوں، عورت پر تشدد نہ کریں، اس کے بنیادی حق اسے دیں، اس پرکسی قسم کی زبردستی نہ کریں، دنیاوی تعلیم بھی حاصل کریں، اپنا کیریر بھی بنائیں، کیونکہ اگر آپ بالغ ہوگئے تو سب سے پہلے اس کی مسند ہی کو خطرہ ہوگا، آپ سوال قائم کریں گے جن کا جواب مولوی کے پاس نہیں ہوگا اور اسے اپنی جگہ چھوڑنی پڑے گی۔ چنانچہ مجھ جیسے کسی غیر مذہبی شخص کو گالی دینے سے پہلے پلیز اپنا معاشرہ مذہبی ہی بنا لیجیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2