کیا ہمارا معاشرہ مذہبی ہے ؟



میں کچھ ایسا مذہبی انسان نہیں ہوں۔ میں ایسا کیوں ہوں، اس پر اکثر بات کرتا رہتا ہوں۔ مگر سوچتا ہوں کہ میری نظروں کے سامنے اس وقت جتنے خطرناک معاشرے اور قاتل اقوام ہیں، کیا یہ سب بھی مذہبی ہیں۔ مذہب سے میری بے گانگی محض ان چھوٹی چھوٹی بنیادوں پر نہیں کہ اس نے عورت کو کتنے حقوق دیے یا نہیں، وہ انسان کو عبادات کے پھیرے میں باندھتا ہے، خدا کا وجود ہے یا نہیں۔ان سوالات سے بڑھ کر بھی کچھ باتوں کی اہمیت ہے، جنہیں سمجھنا ضروری ہے۔معاشرہ جب سمجھدار ہونے لگے، اس میں بالغ نظری پیدا ہونے لگے تو وہ کسی بھی مذہب، کسی بھی نظریے کا پابند کیوں نہ ہو، آپ کو لوگوں کے حقوق دینے سے انکار نہیں کرتا خواہ وہ عورتیں ہوں یا مرد۔مگر لوگوں کے ذہنوں میں اتنی سی بات نہیں آتی کہ دنیا کا کوئی بھی نظریہ سماجی، علمی، معاشی، جغرافیائی، زمانی تبدیلیوں کے واقع ہوتے ہی اپنی شکل کو بھی تھوڑا بہت تبدیل کرتا ہے اور اس میں کوئی برائی نہیں ہے۔دنیا بھر کے قوانین میں سائنسی ایجادات و سماجی نظریات کے طلوع ہونے سے تبدیلیاں پیدا کرنا انسانوں کی ضرورت رہا ہے۔اصل مسئلہ صرف اس بات کا ہے کہ ہم کس بات کو اہمیت دے رہے ہیں اور ہمیں کس بات کو اہمیت دینی چاہیے۔

میں جس محلے میں رہتا ہوں، اس جیسے سینکڑوں محلے میرے ملک میں ہیں۔ ان سینکڑوں محلوں میں لاکھوں مسجدیں ہوں گی۔ان مساجد میں دن میں پانچ وقت اذان ہوتی ہے، ان اذانوں کی ضرورت کے تعلق سے معاشرہ کبھی سوال قائم نہیں کرتا۔اسے تقدس کی چادر میں لپیٹ رکھتا ہے۔ بیسیوں اذانیں تھوڑے تھوڑے سے وقفے کے بعد ایک ہی وقت کی اذان کو لاﺅڈ اسپیکر پر دوہراتی رہتی ہیں، پوچھا جائے کہ ایسا کیوں ہے، تو جواب ملے گا خلق اللہ کو بلانے کے لیے۔سوال یہ ہے کہ خدا کی اس مخلوق کے پاس موبائل ہے، آپ ایسا کیوں نہیں کرتے کہ ایک ایپلی کیشن بنوائیں، جس میں مختلف فرقوں کی اذانوں کا وقت سیٹ کیا جائے، اور جو شخص جس فرقے سے تعلق رکھتا ہو، اسے اپنے حساب سے منتخب کرلے، لوگوں کی اذان الارم کی طرح ان کے موبائل ہی میں ہونے لگے گی۔ جب سائنس کا استعمال کرنا مجبوری بن ہی گیا ہے تو لاﺅڈ اسپیکر کی مدد لینا ہی کیا ضروری ہے، زمانہ تو بہت آگے نکل گیا ہے، اس سے کام لیجیے۔جسے نماز پڑھنی ہوگی ، آجایا کرے گا۔ اب دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا مذہب اس غیر منطقی عمل کی اجازت دیتا ہے، جس سے بہت سے بیماروں، بوڑھوں اور کمزوروں کو نقصان بھی تو پہنچ سکتا ہے۔ محلے میں جو غیر مسلم رہتے ہوں گے، ان کو زبردستی ان آوازوں کو سننا ہوتا ہوگا۔کیا کوئی عالم اس طرح کے جابرانہ رویے کو صحیح قرار دے سکتا ہے، کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ پیغمبر اسلام نے کبھی اپنی عبادت کے لیے کفار کو کسی قسم کی کوئی تکلیف پہنچائی ہو یا ان کے آرام میں، عام زندگی میں خلل ڈالنے کا کام کیا ہو۔
مذہب میرا موضوع نہیں ہیں لیکن مجھے یہ معلوم کرنا ہے کہ یہ جو مسکینوں، فقیروں، ناداروں کی ایک جماعت اللہ کے نام پر بھیک مانگتی ہوئی، سڑکوں، گلیوں سے نکلتی ہے۔ اس کی روک تھام کا کوئی منصوبہ مساجد کی مختلف کمیٹیوں کے ارکان کے پاس کیوں نہیں ہے، جو اپنے آپ کو خداکے سب سے بہترین مذہب کا محافظ گردانتے ہیں۔اکثر اوقات ان بھکاریوں کے پاس ایک دو پہیوں کی گاڑی ہوتی ہے، جس پر ایک مسکین و معذور شخص بیٹھاہوتا ہے، اس کے ساتھ ایک معصوم بچی ہوتی ہے، وہ گاڑی کوکھینچتا جاتا ہے اور ٹیپ ریکارڈر سے جڑا ہوا لاﺅڈ اسپیکر چیخ چیخ کر اس کی معذوری کی دہائی دیتا جاتا ہے، خدا اور رسول کا صدقہ طلب کرتا ہے۔آخر یہ لوگ کہاں سے آتے ہیں، اتنے منظم طور پر بھیک مانگنے کے لیے انہیں وسائل کون فراہم کرتا ہے،کیا یہ سویا ہوا معاشرہ کبھی ان سے سوال کرنے کی ہمت کرتا ہے، اگر یہ ریکٹ ہے تو نہ جانے کتنے معصوم بچے بچیاں اس کا شکار ہورہے ہوں گے، اس سے فائدہ اٹھانے والوں ، ان کے ہاتھوں پر کھنکتے ہوئے سکوں سے اپنا گھر سجانے والوں کو بالواسطہ کون فائدہ پہنچا رہا ہے، اس حرام فعل کے لیے کیا صرف وہ ریکٹ چلانے والا ہی ذمہ دار ہے۔اگر آپ گناہ کے تصور سے کانپ جاتے ہیں، خدا کے خوف میں مبتلا ہیں تو یہ کون سی بے حسی ہے جو آپ کو ہزاروں بچوں کی زندگی تباہ کروانے کے باوجود خدا کے خوف میں مبتلا نہیں کرتی۔کیا یہی ہے وہ مذہب جو دنیا کے تمام مسلمانوں کو ایک دوسرے کا بھائی بندو بنانے پر زور دیتا تھا، اور اگر یہ وہی مذہب تھا اور آپ اسی کے پیروکار ہیں، تو آپ کی سماجی ذمہ داریاں کیا اس مخملی جانماز کے نیچے جاسوئی ہیں، جس پر صرف سجدہ کرلینے کو ہی آپ نے اپنا ابدی مقصد قرار دے دیا ہے۔

میں ایک روز ہمایوں کے مقبرے کی نزدیک والی سڑک سے گزر رہا تھا، دیکھتا کیا ہوں کہ ایک برقعہ پوش لڑکی، ایک نوجوان کے ساتھ سڑک کنارے بیٹھی ہوئی بڑے انہماک سے محبت کی باتیں کررہی ہے۔یہ منظر دلکش تھا، محبت کو اتنا خوش دیکھ کر میں تو خوش ہوتا ہوں، لیکن اگر آپ مذہبی نقطہ نظر سے اس طرح کی ملاقات کو غیر مناسب خیال کرتے ہیں تومیرا سوال یہ ہے کہ برقعے کے رواج کو عام کرنے سے پہلے، اپنی عورتوں، بہنوں، ماﺅں کو پردہ دار بنانے سے پہلے کیا آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ ہر پردے کے اندر ایک دھڑکتا ہوا دل ہے اور مذہب نے قطعی طور پر اس دل کو نظر انداز کرنے کی اجازت نہیں دی ہے، چاہے وہ کسی عورت کا ہی کیوں نہ ہو۔ مسلم تاریخ سے تو معلوم ہوتا ہے کہ ایسی طلاقیں بھی کروائی ہیں جہاں عورتوں کی زبردستی غیر پسندیدہ مردوں سے شادیاں ہوئی تھیں۔ بلاشبہ یہ حق مرد و عورت دونوں کو حاصل ہے کہ وہ اگر ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں تو ساتھ رہیں اورنہیں کرتے تو الگ ہوجائیں۔پردے کو اپنی سماجی ذمہ داری سمجھنے والوں کو چاہیے کہ اپنے دل اتنے تو فراخ رکھیں کہ ان کی بیٹیاں، بہنیں ، مائیں یا دوسری عورتیں اپنے دوستوں سے گھر پر ہی بہ آسانی بات کرسکیں،ان سے ہنس بول سکیں۔اس کے لیے انہیں چور دروازے تلاش کرنے کی ضرورت نہ محسوس ہو۔ یہ تو بڑی عجیب سی بات ہے کہ اول آپ انہیں وہ حق نہیں دیں گے جو مذہب نے انہیں فراہم کیا ہے، یعنی اپنی پسند سے کسی شخص کا انتخاب کرنا، دوسرے اگر مذہب نامحرم کے ساتھ بیٹھ کر بات کرنے کی اجازت نہیں دیتا تو اب وقت کے ساتھ آپ کو اس میں اتنی تبدیلی واقع کرنے میں کوئی پریشانی نہیں ہونی چاہیے کہ اس قانونی امر کو اسی طرح منسوخ سمجھیں، جس طرح کنیزیں رکھنا، سنگسار کرنا اور ایک سے زیادہ شادی کرنے کو ہمارے نزدیکی معاشروں میں ختم کیے جانے پرباہمی رضامندی سے ایک سمجھوتہ ہورہا ہے۔

باقی تحریر پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2