عقلی قوتوں کی آبیاری بھی ضروری ہے


ڈا کٹر محمد جاوید

\"javed\" انسان خالق کائنات کی ایسی تخلیق ہے۔ جسے اس کائنات کے شہزادے سے اگر تشبیہ دی جائے تو مناسب رہے گا۔ حضرت انسان کو عقلی قوتوں کا بے بہا خزانہ عطا کیا گیا جس کی بدولت ساری کائنات کو اس کے آگے مسخر کر دیا گیا۔ انسانی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ انسان نے اپنی عقلی صلاحیتوں کی بدولت تہذیبوں اور تمدنوں کو عصر حاضر تک پہنچایا اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔ ہر آنے والا دن گذشتہ سے مختلف اسی لئے ہو رہا ہے کہ انسانی ذہن شب و روز زندگی کی نئی راہیں تلاش کرنے میں سر گرداں ہے۔ انسان کے اندر چونکہ فطری طور پہ یہ وصف موجود ہے کہ وہ خوب سے خوب تر کی تلاش میں رہتا ہے لہٰذا حرکت اس کی فطرت ہے۔ اگر اس کی اس عقلی و فکری حرکت کو روکنے کی کوشش کی جائے تو اس سے جمود پیدا ہو جائے گا اور جمود موت کا دوسرا نام ہے۔
انسان آزاد پیدا ہوا اور فطرت نے اسے ایسی صلاحیتوں سے بہرہ مند کیا کہ وہ اپنی اس آزادی کو بروئے کار لا کر اپنی بقاء کا سامنا پیدا کرے۔ انسان کی آزادی در اصل اس کے فکر اور عقل کی آزادی ہے۔ اگر اس پہ رکاوٹ پیدا کی جائے تو یہ سمجھا جائے گا کہ انسان کی آزادی پہ قدغن لگا دی گئی۔
آج سائنس اورٹیکنالوجی کے میدانوں میں کامیابیاں حاصل کرنے والی اقوام نے اسی فکری اور عقلی آزادی کو اپنے ہاں رائج کر لیا۔ تحقیق کا کلچر پیدا کیا۔ ڈائیلاگ کا ماحول بنایا۔ علم کو اپنے سیاسی اور معاشی نظاموں میں اہمیت دی۔ اسی علم دوستی کے پروان چڑھنے سے ان کے ہاں لائبریریاں آباد ہو گئیں۔ تحقیقی میدان میں اس قدر پیش رفت ہونا شروع ہو گئی کہ دنیا جب سو رہی ہوتی ہے ان کی لیبارٹریاں جاگ رہی ہوتی ہیں۔ یورپ اور امریکہ کی ان اقوام کے افراد نے علم وتحقیق کے لئے اپنی زندگیاں وقف کیں۔ شبانہ روز محنت کی۔ دیانت داری۔ اور اخلاص کی بدولت انہوں نے علم و ہنر کے میدانوں میں اس قدر ترقی کی کہ زندگی کا ہر شعبہ انقلابات سے دوچار ہو گیا۔
ان سے سبق سیکھ کر مشرقی اقوام بھی اب اپنے ہاں اسی طرح کے تعلیمی و فکری نظاموں کو اپنا کر ان کے ثمرات سے مستفید ہو رہی ہیں۔
علم و عقل کا بنیادی جوہر کسی کی میراث نہیں۔ یہ تو ایسی نعمت ہے جو سارے انسانوں کو بیک وقت عطا کی گئی۔ اس میں کسی کو محروم نہیں رکھا گیا۔ کسی کے ساتھ عدم مساوات نہیں برتی گئی۔ کسی کو زیادہ اور کسی کو کم کا مالک نہیں بنایا گیا۔ ایسا کسی طبقاتی سلسلے کا وجود نہیں ہے۔ سب کو خالق کائنات نے پیدائش ہی سے دماغ کی صورت میں ایک سپریم کمپیوٹر کا مالک بنا دیا۔ اب اس نے اس کو کیسے استعمال میں لانا ہے۔ اس پہ چھوڑ دیا۔ اب ترقی و کمال کا سلسلہ ان ہی انسانی گروہوں میں ہونا تھا جو اس قدرت کے
سپریم کمپیوٹر کو استعمال میں لاتے۔ قدرت کے اس انمول عطیے کو جن اقوام نے استعمال کرنا سیکھا انہوں نے یقینی کامیابیاں حاصل کیں اور جنہوں نے اس کی قدر نہیں کی فقط دیو مالائی تصورات کو اوڑھنا بچھونا بنا کر عقلی قوتوں کے جن کو بوتل میں بند کرنے کی کوشش کی آج وہ پسماندگی کی دلدل میں دھنسی نظر آ رہی ہیں۔
یہ عقلی قوتیں ایسے ماحول میں پرورش پاتی ہیں جہاں ان کے لئے ساز گار ماحول ہو۔ جیسے پانی کے بغیر مچھلی زندہ نہیں رہ سکتی اسی طرح انسانی عقلی قوتوں کی آبیاری کے لئے بھی خاص ماحول درکار ہوتا ہے۔ اگر ہم اسے تھوڑا مزید واضح کریں تو ایسا تعلیمی نظام چاہئے جو افراد معاشرہ کو سوچنے۔ فکر کرنے اور تخلیق کا مادہ پیدا کرنے کے لئے مناسب مشقیں۔ بہتر سے بہتر سلیبس اور عملی تربیتی نظام مہیا کرے۔ ہر ایسے حربے سے اس تعلیمی نظام کو پاک رکھے جس کی بدولت عقلی قوتوں کی ترقی کا سلسلہ رک جائے۔ سائنس در اصل انسان کی انہی عقلی قوتوں کا کرشمہ ہے۔ انسان کے اسی سپر کمپیوٹر نے ان دیکھی دنیاؤں کو بے نقاب کر دیا۔ دماغ کی ان صلاحیتوں کو بروئے کار لائے بغیر کائنات کی گتھیوں کو سلجھانا مشکل ہے۔ قرآن نے اسی حقیقت کو بیان کیا ہے۔ اس نے عقلی قوتوں کو دعوت فکر و تدبر دی ہے کہ اس کائنات کے ذرہ ذرہ پہ غور کریں۔ اس سے انسانیت کے لئے فائدے تلاش کریں۔ اور ان ساری نعمتوں تک رسائی حاصل کریں جو خالق نے اس کائنات میں رکھ دی ہیں۔
آج جن معاشروں میں زوال کی کیفیت ہے۔ اس کی سب سے اہم وجہ ان کے غیر سائنسی تعلیمی نظام ہیں جو انسانوں کی عقلی قوتوں کو بھر پور طریقے سے پرورش دینے اور استعمال کرنے سے قاصر ہیں۔ سوچنے کی آزادی نہیں۔ اظہار رائے پہ قدغنیں ہیں۔ عقل کی بجائے ان دیکھے تصورات پہ زیادہ یقین کیا جاتا ہے۔ حقیقی زندگی سے جڑنے
کی بجائے غیبی و ہوائی قلعے تعمیر کئے جاتے ہیں۔ سوچ و فکر کی حدیں متعین کر دی گئیں ہیں۔ سینکڑوں سال پہلے کے لکھی ہوئے فلسفوں نے دماغوں کو قیدی بنا دیا ہے۔ ماضی کی خوش فہمیوں کے نشے میں نوجوان نسلوں کو ڈبویا جا رہا ہے، سمندر میں غرق پرانے تمدن کے جہاز کے ملبے سے چمٹنے کی تلقین کی ناکام کوششیں ہو رہی ہیں۔ نوجوانوں کے ذہنوں کو عقلی استدلال اور عقلی تجربوں سے محروم رکھ کر ذہنی جبر کا شکار کیا جا رہا ہے۔ ذہنی نشوونما کے فطری عمل میں جمود نے زوال کے تمام راستوں کو ہموار کر دیا ہے۔ افراد معاشرہ کو فرسودہ سیاسی، معاشی اور تعلیمی نظاموں کے ذریعے \”شاہ دولہ کے چوہے\” بنا دیا گیا ہے۔ کنوئیں کے مینڈک بن کر۔ کنوئیں کو ساری کائنات مان کر ایسے ایسے فلسفے گھڑے جا رہے ہیں جن کا حقیقی انسانی دنیا کی ترقی سے کوئی لینا دینا نہیں۔ درس و تدریس میں سمجھنے اور سمجھانے کی بجائے ذہنی جبر کا کلچر عام ہے۔ علمی سرمایہ داری اور پروہت ازم نے نوجوانوں سے جرات سوال کا حق بھی چھین لیا ہے۔ عام طور پہ تو حالت یہ ہے بھینس کو عقل کے مقابلے میں بڑا قرار دیا جاتا ہے۔ سائنس کی افادیت اور اہمیت پہ لیکچر تو دئیے جاتے ہیں لیکن تعلیمی نظام میں سائنسی طریقہ تعلیم کا سخت فقدان ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج علمی۔ فکری و شعوری زوال کا کوڑا آج ہمارے معاشروں پہ برس رہا ہے۔ یاد رکھنا چاہئے قدرت کا قانون اٹل ہوتا ہے اس کے آگے کسی کی نہیں چلتی۔ جو بھی فطری قوانین کے مطابق زندگی کو ڈھالے گا وہی فطری ترقی کو پائے گا۔ جو بھی ان فطری اصولوں اور قوانین سے رو گردانی کرے گا وہ زوال سے ہمکنار ہو جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
5 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments