الحمد للہ مقصد پورا ہو رہا ہے


ملک میں سیاسی رہنمائی کے جس مقدس مشن کا آغاز کیا گیا ہے اس کی بھرپور تفہیم دکھائی دینے لگی ہے۔ میڈیا میں کل پی ٹی ایم کے جلسہ کا بلیک آؤٹ کرنے کا مشن پورا ہونے کے بعد اب ملک کے بڑے سیاسی رہنماؤں تک یہ بات پہنچا دی گئی ہے کہ قوم و ملک کے بہترین مفاد کے بنیادی اصولوں سے انحراف برداشت نہیں ہو گا۔ اسی لئے نواز شریف اور بلاول بھٹو زرداری یکساں طور سے اس بات پر تلملا رہے ہیں کہ سپریم کورٹ حکومتوں کی نااہلی کو سامنے لانے کی بجائے عدالتوں میں مقدمات نمٹانے کی ضرورت کیوں محسوس نہیں کرتی۔ کیا وجہ ہے کہ چیف جسٹس صاحب صاف پانی، صحت اور تعلیم کے شعبوں میں بہتری کے لئے سرکاری عمال اور سیاسی لیڈروں کو عدالتی چابک سے ہانک رہے ہیں۔ لیکن خود عدالتوں میں تاخیر کا شکار اٹھارہ لاکھ سے زائد مقدمات کو نمٹانے کے لئے کوئی حکمت عملی سامنے لانے کے لئے تیار نہیں ہیں۔

حیران کن طور سے یہ بات نواز شریف اور بلاول بھٹو زرداری نےا یک ہی طریقے سے کہی ہے لیکن ان کے طرز عمل سے یہ واضح نہیں ہوتا کہ ملک کی سیاسی جماعتیں یہ سمجھنے کے لئے آمادہ ہیں کہ ملک میں فوج کی رہنمائی میں قومی ایجنڈے پر ہونے والی کارروائی کو کیسے روکا جاسکتا ہے ۔۔۔ جو ان دونوں کے نزدیک ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے ذریعے سیاسی حکومتوں پر نکتہ چینی کے ذریعے پوری کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اب یہ بات کسی خفیہ مشن کا حصہ نہیں ہے کہ ملک کے سیاسی منظر نامہ کو ایک خاص ڈھب سے خاص عناصر کے ذریعے چلانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ شیخ رشید نے چند ہفتے قبل ملک میں جوڈیشل مارشل لا نافذ ہونے کے بارے میں جو دھماکہ خیز انکشاف کیا تھا، اس کے بعد سے چیف جسٹس متعدد بار اس بات کو مسترد کر چکے ہیں کہ ملک میں جوڈیشل مارشل لا لگایا جاسکتا ہے۔ ان کے مطابق ملک کا آئین اس قسم کے اقدام کی اجازت نہیں دیتا ۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے گزشتہ روز لاہور میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے واضح کیا کہ اگر ملک میں جمہوریت کو کسی قسم کا خطرہ لاحق ہؤا تو وہ اکیلے نہیں بلکہ سپریم کورٹ کے تمام سترہ جج استعفیٰ دے دیں گے۔ نہ جانے چیف جسٹس کو بار بار یہ بات کہنے کی ضرورت کیوں محسوس ہو رہی ہے ۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی واضح نہیں ہے کہ چیف جسٹس کیوں کر اپنے تمام ساتھیوں کے دلوں کا حال جان چکے ہیں کیوں کہ سترہ ججوں نے کسی مشترکہ فیصلہ یا سماعت میں جمہوریت کا تحفظ کرنے کے لئے اس قسم کا حلف لینے کی کوئی ضرورت محسوس نہیں کی ہے۔ عام طور سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ چیف جسٹس سمیت سپریم کورٹ کے تمام جج آزادانہ رائے رکھتے ہیں اور ایک ہی ادارے کا رکن ہونے کے باوجود وہ کسی بھی معاملہ پر اختلاف رائے رکھ سکتے ہیں ۔ اسی لئے سپریم کورٹ کے فیصلے کثرت رائے سے طے پاتے ہیں اور اختلاف کی صورت میں اقلیتی جج اپنی رائے کا اظہار کرنے کے لئے اختلافی نوٹ لکھ کر اپنے دلائل اور مؤقف کو واضح کردیتے ہیں۔ اس صورت میں جوڈیشل مارشل لا یا سیاست میں فوج کی مداخلت کے معاملہ میں چیف جسٹس کی جو بھی رائے ہو، وہ اسے اپنے ساتھی ججوں پر مسلط کرنے کا اختیار نہیں رکھتے۔

چیف جسٹس دراصل قوم کو یہ یقین دلانا چاہتے ہیں کہ ملک کے جج فرض شناس اور خود مختار ہیں۔ وہ آئین کا احترام کرتے ہیں اور تمام فیصلے قانون کی حدود میں رہتے ہوئے کرنے کے پابند ہیں۔ لیکن گزشتہ چند ماہ کے دوران جوں جوں چیف جسٹس ثاقب نثار نے حکومتی امور میں دلچسپی لینا شروع کیا ہے، وہ عدالتی کارروائی کے دوران ریمارکس اور احکامات کے ذریعے مرکزی حکومت کے علاوہ صوبائی حکومتوں کی کارکردگی کو مسترد کرتے ہوئے یہ کہنے کی کوشش کرتے رہے ہیں کہ یہ حکومتیں ووٹ کے ذریعے ملنے والا اختیار عوام کی بہبود کے لئے استعمال کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ اس لئے کبھی وہ وفاقی وزرا کو بلا کر ان کی سرزنش کرتے ہیں اور کبھی صوبائی حکومتوں کی کارکردگی، ملک میں صاف پانی کی عدم فراہمی، ناقص تعلیمی نظام اور صحت کے حوالے سے سہولتوں کو ناکافی اور کمتر قرار دے کر مسترد کرتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ سو موٹو اختیار کے تحت ان معاملات کی نشاندہی کرکے وہ اپنا آئینی فریضہ ادا کررہے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ جسٹس ثاقب نثار کا یہ مؤقف آئینی تشریح کے لحاظ سے درست ہی ہو لیکن چونکہ اس معاملہ پر نہ تو پارلیمنٹ نے غور کرنے کے بعد کوئی واضح حکمت عملی اختیار کی ہے اور نہ ہی افتخار چوہدری سے لے کر ثاقب نثار تک چیف جسٹس کے عہدے پر فائز ہونےاور سو موٹو کے اختیارات سے استفادہ کرنے کے باوجود کسی چیف جسٹس نے اس بات کی ضرورت محسوس کی گئی ہے کہ اس نازک اور اختلافی معاملہ کو صرف چیف جسٹس کی صوابدید تک محدود کرنے کی بجائے اسے فل کورٹ کے سامنے رکھا جائے تاکہ سپریم کورٹ کے تمام جج مل کر یہ فیصلہ کرسکیں کہ بنیادی حقوق کے تحفظ کے لئے سو موٹو کا اختیار کتنا وسیع اور اور کس قدر محدود ہے۔ موجودہ صورت حال میں یہ حق اس قدر جامع اور لامحدود بنایا جاچکا ہے کہ چیف جسٹس کسی بھی معاملہ میں سوموٹو کے نام پر کوئی بھی حکم جاری کرنے کو جائز سمجھتے ہیں۔ اسی اختیار کے تحت وہ ہسپتالوں کا معائینہ کرنا ضروری سمجھتے ہیں اور وزیروں یا سرکاری افسروں کےساتھ توہین آمیز لب و لہجہ اختیار کرنا جائز سمجھتے ہیں۔

چیف جسٹس کے اسی رویہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سابق وزیر اعظم اور مسلم لیگ (ن) کے رہبر نواز شریف نے آج احتساب عدالت میں پیش ہونے کے دوران میڈیا سے باتیں کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک میں جسٹس ثاقب نثار نے بدترین آمریت قائم کی ہوئی ہے۔ وہ خود اپنی باتیں تو کرتے ہیں اور حکومت کے کاموں میں کیڑے نکالتے ہیں لیکن نہ تو کسی دوسرے کو جواب دینے کا موقع دیتے ہیں اور نہ ہی اپنے اصل کام پر یعنی سائلین کی پٹیشنز پر جلد فیصلے کرنے کے لئے کوئی طریقہ کار وضع کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ انہوں نے اس بدترین جوڈیشل مارشل لا قرار دیا اور کہا کہ موجود پارلیمنٹ اپنی وقعت کھو چکی ہے۔ اب آئیندہ پارلیمنٹ سے ہی توقع باندھی جا سکتی ہے۔ کچھ اسی قسم کی بات پیپلز پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی کی ہے اور کہا ہے کہ چیف جسٹس ضرور ہمارا کام کرنے کا شوق پورا کریں لیکن اپنا کام بھی کریں یعنی زیر غور مقدمات کو نمٹانے کی ضرورت محسوس کریں۔ نواز شریف کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس ہسپتالوں میں جاکر خراب حالات کا جائزہ تو لیتے ہیں لیکن انہیں کبھی ان لوگوں کے پاس جاکر ان کی حالت کو بھی دیکھنا چاہئے جن کے مقدمات عدالتوںمیں کئی کئی دہائیوں سے زیر غور ہیں۔ نوا ز شریف کا کہنا ہے کہ ان کے خلاف فیصلہ کرنے کا تہیہ کرلیا گیا ہے تاکہ ان کو وزارت عظمیٰ سے معزول کرنے والے پانچ ججوں کو درست ثابت کیا جاسکے۔ نواز شریف اور بلاول بھٹو نے بیک وقت جوڈیشل ایکٹو ازم کے بارے میں ایک سی بات کرتے ہوئے، سپریم کورٹ کو اپنا کام احسن طریقے سے کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے دراصل یہ مطالبہ کیا ہے کہ وہ حکومتی امور میں دخل اندازی کا چلن تبدیل کریں۔ تاہم دونوں لیڈر اسی سانس میں ایک ایک دوسرے کی پارٹی پر حرف زنی کرنا بھی نہیں بھولے۔

اس وقت ملک کی اعلیٰ ترین عدالت اور سیاست دانوں کے تنازعہ کے حوالے سے یہ بات کلیدی حیثیت رکھتی ہے کہ معاملات کی سنگینی کو سمجھنے اور حکومتوں کے اختیار میں عدالت عظمیٰ کی مداخلت کو غلط قرار دینے کے باوجود دونوں لیڈر یا ملک کی دونوں بڑی پارٹیاں پارلیمنٹ میں مل کر اس صورت حال سے نمٹنے کے لئے کوئی اقدام کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ پارلیمنٹ ہی ملک کا سب سے بااختیار ادارہ ہے لیکن اب نواز شریف اسے ناکارہ بتا رہے ہیں جب کہ بلاول بھٹو کہتے ہیں کہ ووٹ کے احترام کی بات کرنے والے نواز شریف خود پارلیمنٹ کے اجلاسوں میں شریک نہ ہو کر اسے احترام دینے میں ناکام رہے ہیں۔ اس الزام تراشی میں دونوں لیڈر یہ بھول جاتے ہیں کہ ملک میں اداروں یعنی فوج یا سپریم کورٹ کی طرف سے سیاسی امور  میں مداخلت کی روک تھام کے لئے پارلیمنٹ ہی سب سے مؤثر ادارہ ثابت ہو سکتی ہے ۔ تقریروںمیں چیف جسٹس کو آمر کہنے یا ان کے طریقہ کو مسترد کرنے کی بجائے اگر سیاسی جماعتیں جمہوری روایت اور اختیار کے لئے ایک دوسرے سے اختلافات بھلا کر اصولی معاملات طے کرسکیں تو سپریم کورٹ اور فوج دونوں کو سیاسی رہنماؤں کی بات سننے پر مجبور ہونا پڑے گا۔ آئین سے ماورا اقدامات پر تشویش کا اظہار کرنے کے باوجود جب سیاسی پارٹیاں اپنے گروہی مفادات کے تحفظ کے لئے ان ہی اداروں کو ڈھال بنانے کی کوشش کرتی ہیں تو اس سے جمہوریت بھی کمزور ہوتی ہے اور سیاست دانوں کی پگڑیاں بھی اچھالی جاتی ہیں۔

سیاست دانوں کی اس کم فہمی اور پارلیمنٹ پر عدم اعتماد کی اس صورت حال میں قومی مفاد کے نام پر سیاسی منظر نامہ تیار کرنے کے منصوبے پر پوری شدت سے عمل کیا جارہا ہے۔ اتوار کو لاہور میں پشتون تحفظ موومنٹ نے اگر چہ ضد کرکے موچی دروازے میں جلسہ کرلیا تھا لیکن ملک کے میڈیا کو ان کی بات عوام تک پہنچانے کا حوصلہ نہیں تھا۔ حالانکہ منظور پشتین نے مفاہمتی کمیشن کی بات کرکے قومی سطح پر اعتماد سازی کے لئے ایک ایسی تجویز پیش کی تھی جس پر عمل کرکے دوسری اقوام مشکلات اور بحران سے نکلنے میں کامیاب ہو چکی ہیں۔ تاہم جب تک سیاست دانوں کے گریبان ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہیں، الحمد للہ اس ملک میں قومی مفاد کا منصوبہ خیر خوبی سے تکمیل کے مراحل طے کرتا رہے گا۔ اس طرح سینیٹ کے چیئر مین کے بعد وزارت عظمیٰ کی کرسی پر بھی کوئی ایسا رہنما فروکش ہو سکتا ہے جو اختیار مانگنے کی بجائے حکم سننے کو ہی اپنا سیاسی منشور بتانے میں فخر محسوس کرے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2768 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali