اگر پاکستانی امریکی بن جائیں اور امریکی پاکستانی تو کیا ہو گا؟


گزشتہ کچھ دنوں کی نسبت آج دن خاصا گرم تھا اور کام بھی عام دنوں کی نسبت کچھ زیادہ تھا، یا پھر یوں کہیے کہ یہ سب موسم کا اثر تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نیوز اینکر کے لیے کام کبھی کم یا زیادہ نہیں ہوتا البتہ خبریں، ان کی اہمیت اور نوعیت ہم پر بھی اثر رکھتی ہیں۔ آج خبریں بھی موسم کی طرح گرما گرم تھیں، میں نے اپنا سٹینڈ بائے مکمل کیا اور سٹوڈیو سے نکل کر سی این آر یعنی سنٹرل نیوز روم کی جانب جانے لگی، اس مختصر سفر میں ایک ساتھی اینکر نے مجھے جوائن کر لیا، جو پہلے ہی اپنا کام مکمل کرچکی تھیں۔

ہم دونوں نیوز روم پہنچے تو ہمیشہ کی طرح افراتفری کا عالم تھا۔ رن ڈاؤن ڈیزائن کیا جا رہا تھا، اہم اور ٹاپ سٹوریز کے او سی چیک ہورہے تھے۔ نیوزپیکیجنگ سائیڈ پر نگاہ دوڑائی تو پیکیج پروڈیوسر این ایل ای کے سر پہ کھڑا پیکیج دیکھ رہا تھا۔ دوسری جانب نظر گئی تو انٹرنیشنل ڈسک پر ایک صاحب اپنے انٹرنیشنل نیوز چنک سے متعلق رن ڈاؤن پروڈیوسر کو بریفنگ دے رہےتھے۔ پیچھے نظر گئی تو سوشل میڈیا والے گزشتہ بلیٹن کے کچھ حصے سوشل ویب سائٹس پر اپ لوڈ کر تے نظر آئے۔

تمام صورتحال کو دیکھ کر میرا سر چکرانے لگا۔ میں اور ساتھی اینکر اپنے ڈسک کی طرف مڑے اور کرسی سیدھی کر کے بیٹھ گئے۔ میں نے ساتھی اینکر سے دیوار پر لگی ایک سکرین جس پر انٹرنیشنل نیوز چینل پر خبریں آن ائیر تھی اشارہ کیا۔ میں نے اس سے کہاہم سارا دن کس طرح کی عجیب وغریب خبریں پڑھتے ہیں۔ کبھی کسی کی نیب پیشی پر گلا پھاڑتے ہیں، کراچی میں آئے روز ڈکیتی کی وارداتوں پر نیوزچنک کرتے ہیں، تو کبھی بچوں بچیوں سے ہونے والے شرمناک عمل کے بارے میں سوال اٹھاتے ہیں۔ خصوصاً زیادتی کا شکار بچے بچیوں کے معاملات ہمیں اندر سے کتنا ہلا کر رکھ دیتے ہیں۔

مجھے یاد ہے کہ زینب قتل پر شاید ہی کوئی نیوز اینکر ہو، جو اپنے جذبات پر قابو رکھ پایا ہو، مجھے یاد ہے کہ میں زینب قتل کیس کے حوالے سے خبر پڑھتے ہوئے بہت جذباتی ہوگئی تھی۔ پاکستانی نیوز چینلزکی نیوز کا سی این این، بی بی سی یا ڈی ڈبلیو جیسے نیوزاداروں کی خبروں کے ساتھ تقابلی جائزہ کیا جائے تو ذہن میں سوال اٹھتا ہے کہ ان کے اینکرز تو ایسے چیخ کر خبریں نہیں سناتے، وہاں ایسی خبریں بھی نہیں آن ائیر ہوتی! عالمی نیوز چینلز پر تو جوتا کھانے پر، کسی سیاست دان کی جانب سے دوسرے کو الٹے سیدھے ناموں سے پکارے جانے پر مزاح کا رنگ دے کر نیوز پیکیجز تیار نہیں کیے جاتے اور نہ ہی سنجیدہ نیوز پیکیج کی ابتدا بالی وڈ کے گانوں سے کی جاتی ہے۔

ہم ہمیشہ انٹرنیشنل میڈیا کی سنجیدگی اور سادگی پر بحث کرتے ہیں، لیکن عملی طور پر خود ایسا نہیں کرتے؟ میرے اس نقطہ نظر پر ساتھی اینکر نے جواب دیا کہ فروا بی بی ان کے مسائل ہمارے سماج اور معاشرت سے مختلف ہیں۔ امریکہ اور یورپ وغیرہ ترقی یافتہ ممالک ہیں اور ہم ترقی پذیر ممالک کی فہرست میں شمار ہوتے ہیں۔ میں نے اس بات پر اپنی ساتھی اینکر مہوش سے دلچسپ و عجیب سوال کردیا، میں نے کہا کہ اگر پاکستانی اپنے دماغ امریکیوں کے دماغ سے بدل دیں تو کیا ہوگا؟ میرا یہ سوال سن کر وہ مسکرانے لگی۔ اسنے جواب دیا کیا بات کرتی ہو؟ ایسا کیسے ممکن ہے؟ فرض کرو کہ ایساہو بھی جائے تو اس سے کیا تبدیلی آجائے گی؟

میں نے سنجیدہ مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا، مہوش اس تبدیلی سے اس سماج میں بہت مثبت تبدیلیاں آجائیں گی۔ اگر پاکستانیوں کے 200813818 ذہن امریکیوں کے 326766748 اذہان سے بدل دیےجائیں یعنی تمام امریکی شہری پاکستان منتقل ہوجائیں اورپاکستانی شہری امریکہ چلے جائیں تو سارا منظر ہی بدل جائے گا۔ ساتھی اینکر نے مسکرا کر کہا! مثال کے طور پر؟ میں نے کہا جیسے کہ وہ یعنی امریکی اپنا ملک ترقی یافتہ شکل میں چھوڑ کر پاکستان آجائیں اور ہم پاکستانی اسی حالت میں اپنا ملک ان کے حوالے کرکے امریکہ منتقل ہو جائیں۔ افسانوی خیال کو آگے بڑھاتے ہوئے میں نے کہا کہ جب وہ یہاں آئیں گے تو سب سے پہلے وہ پاکستان کو اسلامی جمہوریہ سے سیکیولر یا لبرل ملک میں تبدیل کردیں گے، اس سے مذہبی فرقہ واریت رنگ و نسل اور ذات پات پر مبنی تمام لڑائی جھگڑوں کا خاتمہ ہو جائے گا، بٹ، گجر، تھیبو، سردار، بلوچ، ارائیں، پشتون وغیرہ کے اناپرستانہ کھیل سے نکل کر پاکستان ایک قوم کی شکل اختیارکر لے گا جہاں تمام انسان برابر ہوں گے۔ سب امریکی ہوں گے۔ ہر شہری کو برابر کے حقوق حاصل ہوں گے۔ انفراسٹرکچر پرتیزی سے کام شروع جائے گاہوگا، انسان کے بنیادی فلاحی حقوق پر خصوصی توجہ دی جائے گی۔ پاکستانی فلاحی اور انسانی ریاست کے طور پر آگے بڑھنا شروع ہو جائے گا۔

چیف جسٹس صاحب جس تعلیمی نظام کی بہتری کی بات کر رہے ہیں، امریکی یہاں آکر تعلیم کو سستا، معیاری اور انسانی بنادیں گے۔ کیونکہ پاکستان اب ایک فلاحی انسانی ریاست ہوگا اس لئے جو 22.6 ملین غریب پاکستانی بچے غربت کی وجہ سے اسکولوں سے دور ہیں، وہ بھی اشرافیائی بچوں کی طرح برابری کی بنیاد پر تعلیم حاصل کریں گے۔ صحت کے شعبے میں انقلاب آجائے گا۔ سرکاری اسپتالوں کی حالتِ زار بہتر ہوجائے گی۔ جعلی ادویات کے گھناونے کاروبار کا خاتمہ ہوجائے گا۔ انشورنس سسٹم کی بدولت صحت اور تعلیم کے جدید نظام سے سب مستفید ہو سکیں گے۔ پانی کا مسئلہ جو پاکستان سمیت گلوبل ورلڈ کا ایک بہت بڑا ایشو ہے، اس سے نمٹنے کے لئے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے چھوٹے بڑے ڈیمز تعمیرکیے جائیں گے۔

کراچی، لاہور، کوئٹہ سمیت پاکستان کے تمام شہروں اور قصبوں میں جدید معیاری فلٹریشن پلانٹس نصب کیے جائیں گے تاکہ انسانوں کے بنیادی حق یعنی صاف پانی کے مسئلے پر کسی حد تک قابو پایا جاسکے۔ یقیناً امریکی سمندر کے کھارے پانی کو جدید مشینوں سے ٹریٹ کر کے قابل استعمال بنادیں گے۔ اس سے یہ ہوگا کہ پاکستان کے سب سے بڑےشہر کراچی کے لاکھوں انسانوں کو صاف پانی نصیب ہوسکے گا۔ بجلی کے غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کا تکلیف دہ نظام کا خاتمہ ہوجائے گا، بجلی کی طلب پوری کرنے کے لیے مختلف طریقوں سے بجلی پیدا کی جائے گی۔ لبرل اور سیکولرعدالتی نظام رائج ہوجائے گا جس سے تمام انسانوں کو حقیقی اور سچا انصاف مہیا کیا جائے گا۔ نسل در نسل چلتے مقدمات ترجیحی بنیادوں پر نمٹائیں جائیں گے۔ لاہور پیرس یا لندن نہیں بلکہ لاہور نظر آئے گا۔ مطلب یہ کہ جدید تعمیرات میں بھی لاہوری ثقافت جھلکتی نظر آئے گی۔

ٹوٹی پھوٹی گلیاں اور سڑکیں ترجیحی بنیادوں پر ٹھیک کی جائیں گی۔ سیوریج سسٹم کو جدید بناکر لوگوں کو بدبو اور گندگی کی تکلیف سے نجات مل جائے گی۔ عوام کے حقوق کے تعین کی خاطر نیا اور جدید لبرل عمرانی معاہدہ عمل میں لایا جائے گا۔ خواتین، مردوں، بچوں، خواجہ سراؤں سب کو بنیادی انسانی حقوق ان کی دہلیز تک پہنچائیں جائیں گے، یہاں تک کہ جانوروں کے حقوق کا بھی تحفظ یقینی بنایا جاے گا۔ ملک کی حقیقی انسانی ثقافت کو بحال کیا جائے گا۔

جس انسانی سوچ کو یہاں تجربے سے پہلےہی نسل، علاقے، مذہب، خاندان اور سوسائٹی کے تالے لگا کر قید کردیا جاتا ہے اس انسانی سوچ کی حوصلہ افزائی کی جائے گی۔ یہاں پر امیر ترین یعن ارب پتی کرپٹ، چور، ڈاکو سویلین اور جرنیل حکمران نہیں ہوں گے بلکہ مائکروسافٹ کا بانی ہوگا۔ سوچ کی آزادی یہاں پر البرٹ آئن سٹائن جیسے سائنسدانوں کو پیدا کرنے کا سبب بنے گی۔ زہین بچے اور بچیاں تجرباتی سائینس کے ذریعے گراہم بیل بنیں گے۔ یہاں کی زمین چومسکی جیسے دانشور پیدا کرے گی۔ جدید یونیورسٹیاں تعمیر ہوں گی جہاں جدید اور لبرل نظام تعلیم نافذ ہوگا۔ جس کی وجہ سے یہاں کہ لاکھوں بچے اور بچیاں تھامس ایڈیسن بنیں گے۔ پارلیمانی نظام حکومت کی جگہ صدارتی نظام نافذ کیا جائے گا۔ کابینہ کا سائز مختصر ہوجائے گا، سی پیک منصوبہ تضادات اورلڑائی جھگڑوں کے چنگل سے نکل کر خوبصورت انداز میں مکمل ہوجائے گا۔

کھیل کے میدان شاد و آباد ہوں گے، نئے نئے اور تخلیقی کھیل متعارف کرائےجائیں گے۔ جدید ٹکنالوجی پر مبنی فلمیں، ڈرامے اور ڈاکومنٹریاں بنیں گی۔ جس سے انٹرٹیمنٹ کی دنیا میں تخلیقی خوبصورتیوں میں اضافہ ہوگا۔ سوچ کے بدلنے سے اور آزادانہ تخلیقی شعور اور آگہی سے یہاں کے نوے فیصد مسائل ارتقائی انداز میں حل ہوجائیں گے۔

پاکستانی امریکہ کے شہری بنکر کیا کریں گے، یہ ایک دلچسپ سوال ہے۔ پاکستانی وہاں جاتے ہی اپنے مطلب کے قوانین کا نفاز کریں گے، یہ ایسے نام نہاد قوانین ہوں گے جس پر مسلمانوں کے مذہبی فرقوں کی لڑائی ہوگی۔ پاکستانی وہاں جاتے ہی وہاں کے موجودہ نظام کو اسلامی پارلیمانی نظام سے تبدیل کردیں گے۔ رہوڈ اور آلاسکا کو ملا کر کل باون سٹیٹس ہوں گی یعنی تمام بڑی جماعتیں اتفاقِ رائے سے اپنا اپنا وزیراعلی منتخب کریں گی۔ اس سارے انتخابی عمل میں ہارس ٹریڈنگ کا گھناونا کھیل ہوگا، کیونکہ پاکستانیوں کو سب کچھ پلیٹ میں سجا سجایا ملے گا تو سب سے پہلے طاقتور ہی سب کچھ سنبھال لیں گے۔

فلٹریشن پلانٹس سے حاصل کردہ پانی بھی مہنگا فروخت ہوگا۔ تیل چونکہ وہاں بھی دوسرے ملکوں سے امپورٹ کیا جاتا ہے، اس لئے مہنگا کردیا جائے گا۔ ہاورڈ یونیورسٹی اور یونیورسٹی آف کیلیفورنیا میں میرٹ سے ہٹ کر بھرتیاں ہوں گی، جہاں مشال جیسے طالبعلم حق کی آواز بلند کرنے پر قتل ہوں گے۔ رنگا رنگ قسم کا تعلیمی نظام نافذ کیا جائے گا جس کی بنیاد حقائق سے زیادہ ماضی کے افسانوں پر مبنی ہوگی۔ غریبوں بچوں اور بچیوں کے لئے سرکاری اسکول سسٹم ہوگا، وہ جو غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی گزار رہے ہیں، ان کے لئے مدارس کا نظام ہوگا جہاں ان کے مذہبی جذبات کا استصال کیا جائے گا۔ اشرافیہ کلاس کے بچوں کے لئے پرائیویٹ نظام تعلیم ہوگا۔

کراچی کے باسی یقیناً امریکہ میں کسی ایسی ریاست کا انتخاب کریں جہاں سمندر ہو مطلب وہاں بھی ساحل سمندر پر کچڑا اور گندگی پھینکی جائے اور سڑکوں گلیوں پر پان کھانے اور تھوکنے کی آزادی ہو۔ چونکہ پاکستانیوں کو وہاں سب کچھ بغیر محنت کے نصیب ہو گا، اس لئے سوچ پر پابندی ہوگی۔ دہشت گردی، انتہا پسندی اور نفرتوں کے کاروبار کو خوب پروان چڑھایا جائے گا۔ غداری اور کفر کی فیکٹریاں تعمیر کی جائیں گی۔ جعلی ادویات کا کاروبار خوب چمکے گا۔ طبی نظام کی بھی کئی اقسام ہوں گی، پراؤیٹ اور سرکاری اسپتال ہوں گے۔ عطائی ڈاکٹرز لوگوں کی زندگیوں سے کھل کر کھیلیں گے۔ نسلی، طبقاتی، مذہبی جنگ و جدل وہاں بھی ہماری ترقی میں اہم رکاوٹ ثابت ہوگا۔ غیرت اور کاروکاری کے نام پر لڑکیاں قتل ہوں گی۔ ونی کی فرسودہ روایات ساتھ رہیں گی۔

ہر دوسرے دن احتجاج اور دھرنے کرکے جمہوریت کو نقصان پہنچایا جائے گا اور قومی املاک کو جلایا جائے گا۔ پاکستانی سویلین و ملٹری حکمران کرسی کی جنگ میں عام عوام کی مشکلات میں اضافہ کریں۔ ادارے کرپشن کی زد میں ہوں گے۔ قومی خزانے کے بارے میں ہر سال بجٹ کے موقع پر کہا جائے گا کہ خالی ہےاور حکمران قرض کا بوجھ رعایا کے کاندھوں پہ ڈالتے جائیں گے۔ امریکہ کی سڑکیں، شاہراہیں اور گلی کوچے غیر محفوظ ہوں گے۔ پاکستانی بٹ، آرائیں، میمن اور خان کے نسلی بھید بھاؤ میں الجھ جائیں گے۔ عمران جیسے درندے زینب جیسی معصوم بچیوں کے ساتھ درندگی کریں گے۔ سائلین سالوں عدالتوں کے چکر کاٹیں گے۔ یعنی پھر وہی خبریں ٹی وی پر چوبیس گھنٹے آن ائیر ہوں گی۔ آپ اور میں ایسے ہی گلا پھاڑ پھاڑ کرپاناما اور زینب کیس کے بارے میں بتا رہے ہوں گے۔

میرے افسانوی بیانیے کی روداد سننے کے بعد مہوش جو بہت وقت سے گہری سوچ میں گم تھی اچانک بولی، اس کا مطلب ہے کہ بات ساری سوچ، شعور اور آگہی کی ہے۔ مغرب اور امریکہ میں سڑکوں، میٹرو بس اور درختوں سے زیادہ ذہنوں پر سرمایہ خرچ کیا جاتا ہے اور یہاں انسانی ذہنوں کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی۔ مہوش نے آخر میں کہا فروا وحید آپ کا افسانوی خیال درست ہے! تبدیلی جدید سوچ، شعور اور آگہی سے ہی ممکن ہے۔ سوچنے اور سوال کرنے کی آزادی ہی سے پاکستان کے مسائل حل ہوں گے۔ مہوش کی بات سن کر میں مسکرائی، اسی دوران پی سی آر سے بلاوا آیا کہ بلیٹن کا وقت ہو گیا ہے، تیار ہو جاؤ۔ یہ سنتے ہی فضا میں ہم دونوں کا قہقہ گونجا اور پھر ہم اسٹوڈیو خبریں پڑھنے چلی گئیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).