پختون تاریخ جو نصاب میں چھپا لی گئی


پختون بچے کے کانوں میں جو پہلی آوازیں پڑتی ہیں وہ پختون بڑوں کی ننگ ناموس کی باتوں کی ہوتی ہیں ۔  جب یہ بچہ سکول جاتا ہے تو  مسلمانوں کی تاریخ  پڑھتا ہے ۔ انگریزوں کی تاریخ پڑھتا ہے مغلوں کے بارے میں جانتا ہے ۔  سب کچھ اس کو پڑھایا جاتا صرف پختون تاریخ نہیں پڑھائی جاتی ۔  پختون رہنماﺅں کے کارناموں سے اسے محروم رکھا جاتا ہے ۔

اسے تزک بابری ، تزک جہانگیری کے بارے میں تو بتا دیا گیا کہ یہ تلوار کے زور پر لکھی گئی کتابیں تھیںمگر حقائق چھپائے گئے کہ اسی دور میں دین اکبری بھی بنایا گیا تھا جب سجدے کرکے محل میں داخل ہوا جاتا تھا ۔ہمارے مورخین نے ہمیں ان مسلمانوں کی ناکامیوں سے دور رکھا اور جتی الوسع چھپانے کی کوشش کی جو کامیابیاں تھیں ان کو آگے لایا گیا تاکہ ہمارا مورال بلند ہو ، تاریخ میں مورخین ایک بات پر راضی نہیں ہوتے ہر مورخ کا اپنا نظریہ ہوتا ہے ، محمد بن قاسم، محمود غزنوی،احمد شاہ ابدالی، مغلیہ دور، درانی کا دور حکومت، ترکوں کی کہانیاں ، طارق بن زیاد، تیمور لنگ اور اس جیسے بہت سے کردار ہیں جو ہمارے نوجوانوں کو ازبر ہیں ان کی کہانیوں سے سب کو شناسائی ہے۔

 کس مقصد کے لئے انہوں نے کوششیں کی تھیں ہر پختون بچے کو یاد ہے کہ ٹیپو سلطان نے کہا تھا کہ شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے اس سے پوچھا جاتا ہے کہ یہ ٹیپو سلطان کہاں کا تھا بچے کا جواب ہوگا کہ میسور کا۔ مگر عمرا خان یوسفزئی یہاں قریبی مالاکنڈ (دیر) میں جندول کا تھا فرنگی اس کو افغان نپولین کہتے تھے۔

فاتح میوند محمد ایوب خان یہاں قریب پشاور میں دفن ہے جن کا نام آج بھی فرنگی پر لرزہ طاری کر دیتا ہے ۔  فرنگی فوج کو میوند میں گاجر مولی کی طرح کاٹ دیا تھا فقیر ایپی‘شیخ ملی کاکاجی صنوبر ،ببرک خان ان سب محترم پختون ہستیو ں کے بارے میں ہمارے بچے کو کوئی معلومات نہیں دی جاتی ہیں۔ اس میں قصور  ہمارے بچوں کا نہیں بلکہ ہمارے سسٹم کا ہمارے بڑوں کا قصور ہے۔

یہ بڑے بہادر کی تلاش میں ھندوستان کے اس پار بنگال پہنچ گیا مگر  پختون لیڈروں کو کوئی اہمیت نہیں دی۔ قصور ہمارے لکھاریوں کابھی ہے جنہوں نے ہر موضوع پر لکھنے کی کوشش کی ہے مگر ان پختون بہادروں کے بارے میں بچوں او ر نوجوانوں کو کچھ نہیں بتایا گیا کچھ ایسی صورتحال ہمارے اخبارات کی ہے جہاں کا یہ رواج جا نکلا ہے کہ اگر سینکڑوں کالموں میں کچھ کالم پختون قوم کے حوالے سے لکھ لئے جائیں تو اسے لسانیت کا رنگ دیکر روک لیا جاتا ہے ۔  ویسے کہا جاتا ہے کہ پاکستان کئی قومیتوں کا ملک ہے ۔ یہاں سب برابر ہیں ۔

پاکستان میں پنجابی کے بعد دوسرے نمبر پر بولے جانے والی علاقائی زبان کے افراد کو بھی مسائل کاسامنا رہتا ہے ، پختون اپنے سماجی مسائل کے سبب جس قدر سختیاں برداشت کرتا ہے اس کا عشر و عشیر بھی کوئی دوسری قوم برداشت نہیں کرسکتی ، قدرتی وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود ، حکومتی عدم توجہ کے سبب وہ نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوتے ہیں اور وہیں جا بستے ہیں جہاں ان کی کئی نسلیں بڑھتی ہیں اور مر کر ادھر ہی دفن ہو جاتے ہیں۔قوم کے بچوں کا اپنے ہیروز کے بارے میں بھی لسانی تفریق کیساتھ برین واش کیا جاتا ہے کہ ان کے ہیرو دراصل کون تھے۔

سر سید احمد خان نے جدید تعلیم سے آراستہ کرنے کیلئے مسلمانوں میں ایک شعور پیدا کرنے کی کوشش کی اور اسی نتیجے میں مقتدر ہستیاں پیدا ہوئیں جنھوں نے قیام پاکستان میں اپنااہم کردار ادا کیا۔جب ان ہستیوں کے تذکرے میں یہ یاددہانی کرانے کیلئے کوشش کی کہ پختون زعما ءبھی اس میں شانہ بہ شانہ تھے تو ان کا شجرہ نسب طلب کئے جانے لگا۔

باچا خان بابا نے ایک ایسی قوم میں تعلیم کا عظیم شعور دیا اور جدید تعلیم کی بنیاد رکھ کر تعلیم کے زیور سے ایسے ایسے ہونہار پیدا کئے جس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔ اسی تعلیمی تحریک سے متاثر ہوکر سیاسی سفر شروع کیا اور خوشحال خان خٹک کی طرح قوم میں غلامی سے آزادی کا علم بلند کیا کہ پاکستان کی تاریخ میں غیر مسلح سرخ پوشوں کو نظر انداز کردیا جاتا ہے۔

پختون جنگ آزادی میں انگریزوں کے خلاف مسلح ہوکر لڑے ، ٹیپو سلطان کا ذکر تو ہے لیکن بالاکوٹ کے پختون ہیروز کے بارے میں بے خبر رکھنے کا کیا جواز ہے۔علامہ اقبال کا ذکر کیا جاتا ہے ، وہ پاکستانی نہیں تھے بلکہ متحدہ ہندوستان کے شہری تھے ، بھارت بھی ان کو اپنا شاعر مانتا ہے اور پاکستان بھی۔رحمان بابا کو کیوں نظر انداز کردیا جاتا ہے۔

سوشل میڈیا پر وطن پال کی بہت گردش کرنے والی ایک پوسٹ نے مجھے لکھنے پر مجبور کیا جس میں گلہ کیا گیا تھا کہ استاد نے مجھے میسور کا حید ر علی اور ٹیپو سلطان پڑھایا لیکن پختون ہیرو عمرا خان جندول کو مجھ سے چھپا لیا ، کیونکہ اس بچارے کو خود پتہ نہیں تھا کہ دیر کے علاقے میں ٹیپو سلطان سے زیادہ زیرک اور بہادر پختون نے فرنگیوں کے خون سے ملاکنڈ رنگ دیا تھا ۔

اسے تو لاہور میں لکھوائی جانے والی کتاب ہاتھوں میں دی جو اس نے ہمیں پڑھائی اور یاد بھی کرائی، اسے کہا گیا تھا کہ مجھے سراج الدولہ پڑھائے اور پشاور میں دفن وہ بہادر پختون فاتح میوند محمد ایوب خان نہ پڑھائے جس نے میوند کے میدان میں فرنگیوں کی ہزاروں پر مشتمل لشکر کو تہ تیغ کردیا ، کیونکہ محمد ایوب پختون تھا اس لئے استاد کو حکم تھا کہ مجھے بابائے اردو عبدالحق پڑھائے لیکن بابائے پشتو خوشحال خان نہ پڑھائے ، اُستاد نے مجھ سے جنگ آزادی کے عظیم ہیرو حاجی صاحب تر نگزئی کو چھپایا اور دہلی اور لکھنو کے پہلوان پڑھائے ۔

مجھے جلیانوالہ باغ میں انگریزوں کا ظلم پڑھایا گیا لیکن بابڑہ ، ٹکر اور قصہ خوانی کے بربریت کے قصے چھپا لئے ، جالندھر کا حفیظ کو مجھ سے متعارف کرایا گیا لیکن اکوڑہ خٹک کے اجمل خٹک سے شناسائی نہیں کرائی ، الہ آباد کے اکبر الہ آبادی کو پڑھایا لیکن عمر زئی چار سدہ کے عبدالاکبر خان اکبر کو پڑھنے نہیں دیا ، مرزا غالب پڑھائے لیکن حمزہ خان شینواری ، سمندر خان سمندر ، ملنگ جان ، غنی خان نہ پڑھائے ، مجھے شیکسپیر سے روشناس کرایا گیا، فرانسس بیکن کا نثر پڑھا یا گیا مگر پیر روخان کے نثر کو مجھ سے چھپایا۔

مجھے آج کل ملالہ یوسف زئی کے کارنامے پڑھائے جارہے ہیں مگر ملالہ میوند یا ملالہ انا کو چھپایا جو ایک پختون خاتون ہے جنہوں نے پسپا ہوتے ہوئی افغان افواج کو اشعار پڑھ کر جوش دلایا اور جنگ میوند میں فتحیاب ہوئیںیہ آج سے ٹھیک ایک سو تینتس سال قبل کا واقعہ ہے۔ افغانستان کے موجودہ صوبہ قندھار کے قریب علاقہ میوند کے میدان میں برطانوی فوج کے خلاف پختونوں کا لشکر اس وقت کے کمانڈر ایوب خان کی قیادت میں برسرپیکار تھا۔ فضا بندوقوں کی آواز اور تلواروں کی جھنکار سے گونج رہی تھی۔ گولہ بارود کی بارش برس رہی تھی۔

دوران جنگ ایک موقع ایسا بھی آیا کہ پختونوں کے حوصلے پست نظر آنے لگے اور عین ممکن تھا کہ وہ میدان جنگ چھوڑ کر بھاگ جاتے اور اپنی شکست تسلیم کرلیتے۔ کہ ایک خوب صورت پختون دوشیزہ ”ملالئی“ اچانک جنگ کے میدان میں نمودار ہوئی، اپنے دوپٹے سے جھنڈا بنا کر لہرایا اور یہ تاریخی پشتو اشعار گائے (کہ پہ میوند کے شہید نہ شوے گرانہ لالیہ بے ننگے لہ دے ساتینہ)۔میرے محبوب اگر تم آج میوند کے میدان میں شہید نہ ہوئے، تو ساری زندگی لوگ تمہیں بے غیرتی کا طعنہ دیں گے)۔

ملالئی کی یہ آواز جب پختون مجاہدین کے کانوں تک پہنچی، تو ان میں لڑنے کا ایک نیا جوش وجذبہ اور ولولہ پیدا ہوا اور وہ برطانوی فوج پر شیروں کی طرح ٹوٹ پڑے، جس کی وجہ سے برطانوی فوج شکست کھا کر میدان جنگ سے بھاگنے پر مجبور ہوگئی اور پختون جنگ میوند میں فاتح ٹھہرے، اور ملالئی کے مذکورہ ”اشعار“ اور اس کا نام اور کارنامہ پختون تاریخ میں جرات کا انوکھا باب بن گیا ۔

برطانوی فوج کے اس وقت کے جرنیل کا کہنا تھا کہ ہم نے ملالئی کی وجہ سے شکست کھائی، اگر وہ میدانِ جنگ میں اپنا دوپٹہ نہ لہراتی اور ٹپہ نہ گاتی تو ہم یہ جنگ جیتنے ہی والے تھے ۔آگر تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو سامنے آئے گا کہ پختونوں کو ہمیشہ عالمی سازشوں کا حصہ بنایا گیا ،روس اور امریکہ کے خلاف جنگ ہو تو پختون ہی ایندھن بنے ، طالبان کے خلاف امریکی ڈو مور پالیسی ہو تو پختون نشانہ بنے۔

آپریشن کا زور ہو تو پختون علاقے بنے ،تعلیمی اداروں کو دھماکوں سے اڑائے جانے لگا تو نشانہ پختون علاقے بنے ، لاکھوں انسانوں نے نقل مکانی کی تو وہ بھی پختون ہی بنے۔سوات ، ملاکنڈ ڈویڑن ، شمالی و جنوبی وزیرستان میںآپریشن کئے گئے بلوچستان میں نفرتوں کا بیج بویا گیا تو وہاں سے آواز اٹھی کہ پختونوں کیلئے ڈیڑھ لاکھ مربع میل پر مشتمل الگ صوبہ درکار ہے۔

سینکڑوں سال سے پختون برصغیر سمیت پوری دنیا میں سفر کرتے ہیں اور اکثر ان ہی علاقوں میں ضم ہوجاتے ہیں اور اسی جگہ کی بود باش اختیار کرلیتے ہیں۔ اگر بم دھماکے ہوتے ہیں تو پختون ہی نشانہ بنتے ہیں ۔لسانی فسادات میں کچی آبادیوں میں رہنے والوں کے گھر جلا دئیے جاتے ہیں ، نسلی عصبیت ، پروفائیلنگ اور سیاسی انتقام کے نام پر پختون سے بڑھ کر کسی نے ستم نہیں سہے ۔

پختون موجودہ حالات میں میں اپنے سسٹم اور اپنے استاد کی جھوٹی تاریخ پر یقین نہیں رکھتا۔ بلکہ سچ کی تلاش میں سرگرداں ہے ۔  ہماری کتابوں میں صرف اس بات کا تذکرہ ہے کہ پختون ایک قوم ہے جو شمال مغربی سرحد (خیبر پختونخواہ)میں رہتی ہے۔ ڈیورنڈ لائن کے مشرق میں پختونوں میں غالب سیاسی جذبات ، بٹوارے کے خلاف ہونے کے اسباب کیا تھے ، اس کے بارے میں نہیں بتایا جاتا ہے ۔

صدیوں سے اکٹھا رہنے والے پختونوں  کو انگریزوں نے اپنی چالبازیوں کی وجہ سے مختلف حصوں میں تقسیم کردیا تھا ۔ جب جنگ آزادی کی تحریک میں ان کی یکجہتی کا معاملہ سامنے آیا ۔ یہ سیاسی ایشو بنا اس پر کیا کیا ہوا اس کے بارے میں کچھ نہیں بتایا جاتا۔ پختونوں کو پابند کردیا گیا تھا کہ پاکستان کو تسلیم کرو یا ہندوستان کو۔پاکستان کو تسلیم کرنا ہی پریکٹکل آپشن تھا۔  اس لئے ریفرنڈم میں پاکستان کے حق میں ووٹ ڈالے گئے۔

، پختونوں کی پاکستان میں شمولیت کے بعد انھیں قومی دھارے میں شامل کرنے کی کوشش نہیں کی گئی ، نیشنل سیکورٹی پالیسی کے تحت فاٹا ، پاٹا کے علاقے بنا دئیے گئے ، پختونوں کو تقسیم در تقسیم کردیا گیا ، قبائلی نظام کے ہاتھوں پختون ترقی کی وہ منازل طے نہیں کرسکے جو لاہور اور کراچی نے کی۔سات سو سال سے زائد پختونوں نے پورے ہندوستان پر بلا شرکت غیرے حکومت کی ہے۔ روس کو شکست دیکر اس کا شیرازہ بکھیر دیا ، امریکی اور اس کے مغرب کے نیٹو افواج کو شکست دیکر امریکہ کو دیوالیہ کرادیا۔

افغانستان سے اب امریکی دم دبا کر بھاگنے کو آئے ہیں اس پختون قوم کے کیلئے کیا مشکل ہے ان کی تاریخ بتاتی ہے کہ یہ نہ جھکے ہیں اور نہ کبھی جھکیں گے مگر جب قوم اپنے اسلاف کو بھلا دیتی ہے تو ان کا نام تاریخ سے مٹ جاتا ہے جس طرح بہت سی تہذیبوں کا صرف نام باقی ہے۔ پختونوں کو مٹانے کے لیے بھی ان کو ان کی تاریخ نہیں پڑھائی جاتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).