کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا


آج کل چونکہ عالمی سطح پر رشوت لینے اور دینے کے موضوعات اتنے گرم ہیں کہ کبھی کوئی سربراہoutتو کوئی سربراہ جیل میں۔ یوں آج کی سیاست کی نئی بوطیقا، کبھی فیس بک کے حوالے سے تو کبھی بے نام کمپنیوں کے نام سے پکڑی جاتی ہے مگر سب سے انوکھا تجربہ گوئٹے مالا جیسے چھوٹے سے غریب اور پسماندہ ملک نے کیا ہے۔

وہ یہ ہے کہ سب کرپٹ افسروں اور سیاست دانوں کو سزا دی گئی ہے کہ سارے لوٹے ہوئے مال کو ایسے واپس کروکہ سڑکیں بنائو، اسکول بنائو، خود محنت کرو اور عوام سے اپنی سزا کا پھل وصول کرو۔ شاید انکے ملک میں بھی علیم خان ہوں، یا پھر وہ لوگ ہوں جو شادی کے جلوس بھی ،موبائل اور ڈالر نچھاور کرتے ہوئے، چلاتے ہیں اسی میں مزا لیتے ہیں۔

ایک دفعہ نصرت فتح علی خاں کے ساتھ امریکہ میں بھی گئی تھی۔ہمارے سارے بڑے فنکار ملک سےجو معاہدہ کرکے جاتے تھے، فنکشن سے ایک گھنٹہ پہلے اس میں 5یا دس ہزار ڈالر کا اضافہ کردیا کرتے تھے۔ یہاں بھی یہی ہوا اور وقت مقررہ سے دوگھنٹے بعد، معاملات طے پائے، خان صاحب نے گانا شروع کیا معینہ وقت ڈیڑھ گھنٹے بعد ختم ہوجانا تھا ۔

دوگھنٹے مزید اضافے کا مطلب تھا کہ ہال کا دگنا کرایہ، مرتا کیا نہ کرتا۔ مقامی منتظمین نے وہ کرایہ اور خاں صاحب کومزید معاوضہ دینے کے لئے ہال سے مدد کی اپیل کی اور منتظمین اپنے کوٹ آگے کرتے ہوئے، سب سے مدد مانگنے لگے، کچھ تھوڑا بہت مداوہ ہوگیا۔

اب خان صاحب نے دوبارہ گانا شروع کیا۔ قوم نے جذباتی ہوکر، ایک ایک ڈالر کے سینکڑوں نوٹ نچھاور کیے۔ ایک صاحب سے جو نچھاور کرنے میں سب سے آگے تھے، میں نے کہا’’ آپ بقایا نوٹ منتظمین کو دیدیں کہ انکا خسارہ پورا ہوجائے گا‘‘۔ پلٹ کر بولے( باجی ایس طرح ویل دین دا سواد ہی ہور اے) ’’ یعنی ایسے ویلیں دینے کا مزا کچھ اور ہے‘‘۔ میرے منہ میں آئی ، پر نوکری کے باعث خاموش رہی ۔ اب فنکار بدل گئے ہیں، منظر اب بھی وہی ہوتا ہے۔

ہمارے یہاں مال مانگنے والوں کی کوئی تخصیص نہیں ہے۔آپ کی داڑھی بھی ہوسکتی ہے اور ٹائی لگی ہوئی بھی ہوسکتی ہے۔ ایک مصدقہ اور کرارا جواب ہوتا ہے‘‘ پیٹ تو سب کے پاس ہے‘‘ مگر ہمارے یہاں یہ جرات کوئی نہیں کرسکتا کہ وہ لیڈران ، جن کی روز پیشی ہوتی ہے، جن کے لیے، سرکاری تام جھام، قوم کے خزانے سے کیا جاتا ہے، جو نااہل ہوکر بھی سرکاری عمارات میں اپنی پریس کانفرنس وہ بھی لکھی ہوئی ، تواتر سے منعقد کرتے ہیں۔

سارے ٹی وی ادارے، بالکل ڈرتےمارے ، گانے بلا تعطل سنایا کرتے تھے۔ آج معلوم نہیں، وہ کس حال میں ہیں کہ شیر پنجرے کے جال میں ہے۔ بقول منیر نیازی ’’ مشرف جیسے فارغ لوگ اپنی غیر موجودگی میں بھی ہمارا وقت ضائع کررہے ہیں۔ چوبیس گھنٹوں میں سے بائیس گھنٹے ، دہرائی جانے والی خبریں اور بے معانی سیاسی موشگافیاں یوں ڈھول کا پول کھلتا رہتا ہے۔

کوئی تو یہ بتائے کہ ہمارے ملک میں9بچے ، روزانہ بنیاد پرکیوں جنسی تشدد اور پھر قتل ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اب جو ممبر سازی کی مہم کے لئے لمبے چوڑے سوالنامے دئیے جارہے ہیں۔ اس میں ایک شق بھی ایسی ہے جس میں پوچھا گیا تو آپ نے کبھی اپنے علاقے کی خدمت کے لئے کوئی کام کیا ، کوئی منصوبہ بنایا، کیا آپ کو علاقے کے مسائل کا علم ہے۔

کوئی تو یہ بتائے کہ ایک طرف حافظ سعید اور اظہر سعید کے ادارے بند کیے جارہے ہیں اور دوسری طرف ایک صوبائی حکومت، شدت پسند لوگوںکو بھاری رقوم آخر کس فائدے کے لئے دے رہی ہے۔ ووٹ لینے ہیں۔ تو پھر کھل کر سامنے آئو کہو کہ ہم طالبان کے خلاف نہیں ہیں۔

’’ فیشن کرنے اور رنگ گورا کرنے میں ہماری لڑکیاں سب سے آگے ہیں، روز ڈاکٹر،اخبار اور میڈیا کے ذریعہ کہتے رہیں کہ چہرے کی جلد خراب کرنے والی کریمیں استعمال نہ کریں۔میں نے گاؤں سے لیکر ، شہرکے اندرون محلوں میں جاکربھی یہی دیکھا ہے کہ چہرے پہ ہلدی ملنے سے لیکر، ہر طرح کی کریمیں دھڑادھڑفروخت ہورہی ہیں۔

ایک دفعہ جب میں پیرس گئی۔ میری ایک دوست نے جو فلمی دنیا سے تعلق رکھتی تھی ، فرمائش کی کہ میرے لئے جھریاں ختم کرنے والی کریم لاکر دینا۔ میں ہنسی کہ مغرب ہوکہ مشرق، عورتیں یہ کیوں نہیں سمجھتیں کہ یہ جھریاں توہم محنت کرکے کماتے ہیں۔ہمیں توان پر فخر کرناچاہیے۔ ہماری میڈم نورجہاں گلے کی جھریاں چھپانے کے لئے گلے پہ رومال باندھتی تھیں اور ہماری عینی آپا، گردن پہ دونوں ہاتھ رکھ کر،فوٹو اترواتی تھیں۔ حجاب آپا سائیڈ کو منہ کرکے تصویر اترواتی تھیں۔

زیبا بھابھی کے پاس کوئی گیدڑ سنگھی ہے کہ ہمیشہ ہی جوان نظر آتی ہیں،ورنہ الزبتھ ٹیلر بھی بڑھاپے سے آنکھ نہیں چرا سکی تھیں۔

خیر عورتوں کی باتیں چھوڑیں، مرد کیا کم فیشن کرتے ہیں بھنوئوں تک پہ کلر لگاتے، بھنویں بنواتے، تھریڈ تک کرواتے اور تین تین رنگ کے بال، ہماری شیریں مزاری کی طرح کرتے ہیں، کرو، ضرور کرو مگر کوئی کام بھی توکرو۔ کراچی میں نوجوان لڑکے لڑکیوں کے کئی گروپ ہیں جو انفرادی اور اجتماعی سطح پر، عوام وہ بھی غریب عوام کی روٹی کا بندوبست کرتے ہیں۔

جیسے سیلانی ٹرسٹ کراچی سمیت پاکستان کے آٹھ شہروں میں،60لاکھ لوگ روزانہ کھانا کھاتے ہیں۔ سیلانی ٹرسٹ والے اب فیصل آباد جیسے صنعتی شہر میں پانی کو فلٹر کرنے کے پلانٹ بھی لگا رہے ہیں کہ نہ سرکار نے اور نہ فیکٹری مالکان نے کسی بھی شہر میں یہ نہیں سوچا کہ فیکٹریوں سے نکلا زہر تو کھیتوں سے لیکر پینے کے پانی کے پائپوں تک جارہا ہے۔ لوگ بیماریوں کا شکار ،یہ پانی پینے سے ہورہے ہیں۔

سرکار نے تو یہ بھی نہیں سمجھا کہ کوئلے کی کانوں میں کام کرنے والےمزدوروں کوحادثات سے بچانے کا کوئی اہتمام کرتے، اب ہرروز خبر آتی ہےآج کان میں دھواں بھرنے سے اتنے مزدور مرگئے،آج کوئلے کی کان کا فلاں دھماکہ ہوا، اتنے مزدور مرگئے ۔ یہ سارے سیاست دان ، ان اذیتوں کے بارےمیں خودکیوں نہیں بولتے، انہیں قوم کے مستقبل کی کیا خبر اگر بہت نہیں تو جدید ٹیکنالوجی ہی سے کچھ سیکھ لیں۔

بشکریہ جنگ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).