ہمارے گھسے پٹے مشورے


کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے اس معاملے میں ماہر کسی بھی شخص سے مشورہ کرنا ایک اچھی بات ہے۔ اس سے ہمیں ایک رائے بھی مل جاتی ہے اور سوچ کا کوئی ایسا پہلو بھی سامنے آ جاتا ہے جو شاید پہلے ہماری نظروں سے اوجھل تھا۔ جب ہم کسی سے مشورہ لیتے ہیں تو ہم اسے ایک خاص طرح کی برتری دیتے ہیں کہ تم یہ بات شاید بہتر طور سے سمجھتے ہو، اور تم ہمارے نزدیک ہمارے ساتھ اتنے مخلص ہو کہ ہم تم سے رائے یا مشورہ طلب کریں۔

مگر کچھ لوگوں کو مشورہ دینے کی بس ایک عادت سی ہو جاتی ہے اور وہ بن مانگے بھی ہمارے بارے میں اور ہماری صورتحال کے بارے میں رائے یا مشورہ فراہم کر دیتے ہیں اور تبصرہ بھی۔

میں نے جب کبھی بھی اپنی گوری دوستوں سے کوئی تجویز طلب کی تو ان کا انداز حکمیہ یا حتمی نہیں ہوتا بلکہ وہ کچھ اس طرح سے رائے دیتی ہیں کہ اگر یہ صورتحال مجھے درپیش آتی تو میں یہ قدم اٹھاتی یا یہ فیصلہ لیتی۔ وہ مشورہ دے کر بھی آپ کو مجبور نہیں کرتیں کہ آپ اس مشورے کو مانیں بلکہ بس اپنی رائے دے کر آپ پر چھوڑ دیتی ہیں کہ آپ جو بہتر سمجھیں وہی فیصلہ کریں۔ مجھے رائے دینے کا یہ طریقہ ہمیشہ ہی بہت مہذب لگتا ہے مگر ہمارے ہاں عمومی طور پر اپنا مشورہ دوسرے پر ٹھونسا جاتا ہے اور اپنی رائے لاگو کی جاتی ہے کہ بس یہی بات درست ہے اسے ہی مانو اور اسے قبول نہ کرنے یا بحث کرنے کی صورت میں لوگ ناراض بھی ہو جاتے ہیں۔ عموما بہت سی صورتوں میں یہ مشورے انتہائی گھسے پٹے ہوتے ہیں جو بغیر کسی عرق ریزی یا لمبی سوچ کے نسل در نسل دوسروں کو دیے جا رہے ہوتے ہیں، مانگنے پر بھی اور بن مانگے بھی مثلا

کسی بھی موٹے شخص کو تو بن مانگے ہی ہر شخص کا مشورہ کہ تم کچھ کم کھایا کرو۔ اب اس شخص کو کوئی بیماری ہے، کوئی مسئلہ ہے، اس تہہ میں جانے کی نہ فرصت ہے نا ضرورت، بس ایک فربہ اندام شخص سامنے آیا اور کم کھانے کا مشورہ حاضر۔

کسی کو بتائیے، میرے بیٹے کی بہت اچھی نوکری مل گئی ہے
اچھا بس اب اس کی شادی کر دو
( بھئی وہ لڑکا زندگی سے کیا چاہتا ہے، کوئی سیاحت یا نوکری کے ساتھ مزید پڑھائی، یہ جاننے کی ضرورت نہیں)

میری بیٹی کی تعلیم مکمل ہو گئی ہے
اچھا بس اس کی شادی کر دو
(لڑکی کو تو ملازمت کر کے پیروں پر کھڑا ہونے کی ضرورت ہی نہیں)

میرے جوان بیٹے یا بیٹی کو کچھ نفسیاتی مسائل ہیں
اچھا بس اس کی شادی کر دو
( شادی بس تمام مسائل کا شرطیہ علاج ہے)

مجھے کچھ نفسیاتی مسائل اور ڈپریشن ہے
عبادت میں دل لگاؤ
(عبادت کا فائدہ ضرور ہے مگر بعض صورتوں میں ادویات اور تھیراپی بھی تو ضروری ہیں، معالج کو ملے بغیر کیسے تعین ہو؟ )

میں آج کل پریشانی اور ذہنی بے سکونی کا شکار ہوں
خوش رہنے کی کوشش کیا کرو
( اوہ اچھا یہ تو میرے علم میں تھا ہی نہیں)

ماسٹرز کیا ہے مگر نوکری نہیں مل رہی
پی ایچ ڈی کر لو
( ہاں پی ایچ ڈی کے چھے سال تو پلک جھپکتے میں گزر جائیں گے)

بچہ تین سال کا ہو گیا ہے
ارے ابھی تک سکول میں نہیں داخل کروایا تم نے، سکول میں داخل کروا دو
( بچے کی ذہنی صحت، جسمانی صحت اور نشوونما کے لئے کیا ضروری ہے، اس گہرائی میں جانے کی ضرورت نہیں۔ سب بچے تین سال کی عمر میں سکول جاتے ہیں تو آپ کا کیوں نہیں جا رہا؟ )

شادی شدہ زندگی میں مسائل ہیں
بچہ پیدا کر لو
( جیسے جن لوگوں کے بچے ہیں ان کو تو نہ کبھی کوئی مسئلہ پیش آیا نہ ان کا کوئی جھگڑا ہوا)

میاں بیوی میں علیحدگی ہو گئی ہے
صلح کر لو
(ارے بھئی مسئلے کیا اور کس نوعیت کے تھے، کیا آپ جانتے ہیں؟ نہیں؟ تو یہ مشورہ؟ بس ایسے ہی مفت )

میرا میاں مجھے مارتا پیٹتا ہے اور میں نے طلاق لینے کا فیصلہ کیا ہے
یہ کیسے سوچا تم نے، اپنے بچوں کا سوچو، بچے تو تباہ ہو جائیں گے
(جیسے ایک مار پیٹ بھری نا خوشگوار شادی میں تو وہ بہت خوشحال اور خوش ہیں۔ )

شادی شدہ زندگی، نوکری، بچے سب ٹھیک چل رہا ہے
بس اب اپنا مکان تعمیر کر لو
( چاہے ساری زندگی کی جمع پونجی لگا دو، چاہے قرض لے لو، مکان تو اپنا ہونا چاہیے)

چار پیسے جمع ہو گئے ہیں
پلاٹ لے لو
( کوئی اور کاروبار، سیر تفریح، خود پر خرچہ، پلاٹ کے سامنے یہ سب بے معنی اور غیر ضروری ہے)

فلاں بیماری ہے
اچھا اس بیماری میں میں نے یہ دوا لی تھی تم بھی لے کر دیکھ لو

آپ اکثریت کو پوچھ کر دیکھ لیجیے۔ ان سے ہٹ کر شاید ہی کوئی مشورہ ملے۔ ہمارے ہاں نہ تو لائف کوچز ہیں، نہ زیادہ تھیراپسٹ، نہ ماہرین مگر ہرشخص ان کی جگہ لینے کو ہر وقت تیار ہے۔

کسی کو دل سے سچی تجویز یا رائے دینا آسان کام نہیں۔ آپ کو خلوص نیت کی ضرورت بھی ہوتی ہے، علم کی بھی اور اگلے کی صورتحال کو صحیح طور پر سمجھنے کی بھی۔ ان سب چیزوں کے باوجود بھی لوگ عموما وہی مشورہ قبول کرتے ہیں اور اس پر عمل کرتے ہیں جو ان کے دل کو بھاتا ہے تو پھر ایسے میں بہتر تو یہی ہے کہ پہلے تو بس اپنے کام سے کام رکھیں اور پھر اگر کوئی پوچھے تو گھسی پٹی بھیڑ چال چلنے کی بجائے صرف اسی معاملے میں رائے دیں جس کے بارے میں آُپ جانتے ہیں اور وہ بھی اگلے کی صورتحال، شخصیت، مسائل اور وسائل کو ذہن میں رکھتے ہوئے۔

مشورہ دینے کے لئے چیز کو بے شمار مختلف رخ سے سوچنے کی صلاحیت ہونا بھی ضروری ہے اور مستقبل کے بارے میں کسی حد تک ایک اندازہ لگا لینے کی صلاحیت بھی۔ مشورہ کسی کا مسئلہ حل کرنے کے لئے دیں نہ کہ دوسرے پر ایک برتری جتانے یا کنٹرول کرنے کے لئے۔

ویسے بھی یہ مان لینا کہ میں اس بارے میں زیادہ علم نہیں رکھتا ایک غلط رائے دینے سے بہت بہتر ہے۔

مریم نسیم

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مریم نسیم

مریم نسیم ایک خاتون خانہ ہونے کے ساتھ ساتھ فری لانس خاکہ نگار اور اینیمیٹر ہیں۔ مریم سے رابطہ اس ای میل ایڈریس پر کیا جا سکتا ہے maryam@maryamnasim.com

maryam-nasim has 65 posts and counting.See all posts by maryam-nasim