دل گرفتہ ہیں جگر خون ہوئے جاتے ہیں


سنا ہے ہوا چل پڑی ہے۔ وطن عزیز اس وقت شدید سیاسی حبس سے دو چار ہے۔ملک بھر کی سیاسی جماعتیں انتخابی مہم کی تیاری کے مراحل سے گزر رہی ہیں۔ مسلم لیگ حکمران جماعت ہے وہ اگلے سال کے بجٹ کو اس ہی اسمبلی کے سامنے رکھنے جا رہی ہے۔ ہمارے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اگلے سال کی ترقیاتی رقوم کا فیصلہ بھی خود ہی کرنا چاہتے ہیں۔

اس پر تین صوبوں کے وزراء اعلیٰ حضرات کو اتفاق رائے نہ تھا۔ انہوں نے اجلاس کا بائیکاٹ بھی کیا۔مگر مرکزی سرکار پورے سال کا بجٹ پیش کر چکی ہے۔ اس میں اختلافی معاملہ ترقیاتی بجٹ کا ہے۔ موجودہ اسمبلی میں اب اتنی سکت نہیں کہ وہ کوئی قانون سازی بھی کر سکے۔اصولی طور پر حکمران جماعت اپنے حصے کے پانچ بجٹ پیش کر چکی ہے۔ وہ تمام بجٹ روایتی بجٹ تھے۔ جن میں نوکر شاہی کا زیادہ کردار رہا ہے۔

اس وقت کسی کو بھی اندازہ نہیں ہو رہا کہ انتخابات وقت پر ہو سکیں گے۔ عام خیال یہ ہے کہ ان میں کچھ تاخیر ہو سکتی ہے۔ ہمار ےوزیر خزانہ سیاسی بیماری کے باعث رخصت پر ہیں۔ اس غیر معمولی بجٹ کا اہتمام اور انتظام مشیر معیشت کر رہے ہیں۔ہماری ناپائیدار جمہوریت اپنی حیثیت گنواتی نظر آ رہی ہے۔سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کا بیانیہ ووٹ کو عزت دو ، ہے تو بڑا شاندار مگر سیاست اور ریاست میں ووٹ صرف بنیادی اکائی ہے۔ اس کی عزت اورتوقیر نہیں ہے۔پھر ووٹ کو عزت دو کا نعرہ فقط پنجاب میں مقبول ضرور ہوا ہے۔

کیا اس نعرہ سے نظام کی خرابیاں دور ہو سکتی ہیں۔ سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم اور داماد کیپٹن صفدر آج کل نیب کی عدالت میں مسلسل حاضری دیتے نظر آ رہے ہیں۔ اس وقت نیب کے سربراہ اعلیٰ عدالت کے سابق جج جناب جاوید اقبال ہیں۔ ان کو قانون کی اہمیت کا اندازہ ہے اور وہ جانتے ہیں نیب کا قانون اصلاح طلب ہے۔ مگر سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف نیب کے قانون کو سابق صدر جنرل مشرف کے ساتھ جوڑتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان سے بڑی غلطی ہوئی کہ انہوں نے نیب کے ادارے کو کام جاری رکھنے دیا اور احتساب کے لئے کوئی موثر قانون سازی بھی نہ کر سکے، مگر ساری ذمہ داری صرف حکمران جماعت پر نہیں ڈالی جا سکتی۔

اس وقت ملک کی اعلیٰ ترین عدالت اور اس کے چیف عوامی بہبود کے معاملات پر مسلسل توجہ دیتے نظر آ رہے ہیں او ر عوام کو ان اقدامات سے تبدیلی کی امید نظر آ رہی ہے۔ انہوں نے چاروں صوبوں میں جا کر عوام کے معاملات کے حوالہ سے مختلف اداروں کا جائزہ لیا اور اندازہ ہوا کہ سیاست اور جمہوریت نے نظام کو کمزور کیا اور نوکر شاہی نے عوام کو کوئی بھی حیثیت نہ دی اور من مانی کر کے سیاست دانوں کو بھی اپنے دام میں پھنسا لیا۔ سندھ میں اس وقت پیپلز پارٹی کا راج ہے۔

پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کا جو حال ہے وہ بہت ہی تشویش ناک ہے ۔ آبادی کے دبائو نے حالات کو عوام کے لئے مزید مشکل بنا دیا ہے۔ قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کے لیڈر سید خورشید شاہ کا دعوی ہے کہ کراچی اور سندھ میں جمہوریت خوب پھل پھول رہی ہے اور بے نظیر کے سپوت بلاول زرداری کراچی اور سندھ کے لوگوں کے پسندیدہ سیاسی لیڈر ہیں، مگر ایسا ہے نہیں۔

ملک کے بڑے قومی ادارے جن میں اسٹیل مل، قومی ائیر لائن ،پوسٹل سروس کا محکمہ ، اسٹیٹ بنک کے معاملات، سی بی او کے معاملات پاکستان کی معیشت کے لئے درد سر بنے ہوئے ہیں اور ایک طرف ان میں سے کچھ اداروں کو فروخت کرنے کی منصوبہ بندی بھی ہو چکی ہے۔ مگر سابق حکومتوں کے دور میں کئی اداروں اور بنکوں کو فروخت کیا گیا اور ان سے ہماری بیمار معیشت پر کوئی فرق نہیں پڑا۔

اب ایک نیا وطیرہ یہ ہے کہ صوبے اپنے معاملات اور معیشت کی بہتری کے لئے خود مختار ہو چکے ہیں۔ اور اس تناظر میں وہ غیر ملکی امداد جو اصل میں قرض کی صورت میں ملتی ہے۔ مسلسل لے رہے ہیں جس کی وجہ سے ملک پر قرضوں کا بوجھ معاشی اور معاشرتی مسائل کا باعث بن رہا ہے۔ ترقیاتی اخراجات میں نوکر شاہی کو مکمل آزادی دے دی گئی ہے۔ ترقیاتی معاملات کے لئے صوبے کبھی بھی اپنی اسمبلی سے رجوع نہیں کرتے۔ اور ترقیاتی منصوبے چند شہروںتک ہی محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔

اس وقت پاکستان میں جو سیاسی نظام ہے اس پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔ سابق وزیر اعظم جب ووٹ کو عزت دینے کی بات کرتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے۔یہ نعرہ بھی پیپلز پارٹی کے سابقہ مشہور نعرہ روٹی کپڑا اور مکان کی طرح بے معنی اور بے مقصد ہے۔ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے جب مرضی ہو تو پارٹی بدل سکتے ہیں اور حالیہ دنوں میں اس کا مظاہرہ خوب ہو رہا ہے۔

اس وقت سیاسی لوگوں نے منڈی لگا رکھی ہے مارکیٹ کا بھائوبہت اونچا جا رہا ہے۔ تحریک انصاف کے کپتان نے کرپشن کے معاملات پر اپنی حیثیت خاصی مضبوط بنا لی ہے۔ اور انہوں نے عوامی رابطہ کے لئے نئی منصوبہ بندی شروع کر رکھی ہے۔ تحریک انصاف سے متاثر لوگوں میں نوجوان اور بزرگ حضرات نمایاں نظر آ رہے ہیں اور اس وقت تحریک انصاف کی ہوا چلتی نظر آ رہی ہے لاہور کا جلسہ ان کے لئے ایک بڑا سنگ میل بن سکتا ہے۔

پھر خواجہ آصف کی نا اہلی نے مسلم لیگ کو مزید کمزور کر دیا ہے۔اسلام آباد ہائی کورٹ نے خواجہ آصف کو بڑے دکھی دل کے ساتھ نا اہل قرار دیا ہے اور المیہ بیان کیا ہے کہ ایسے معاملات تو اسمبلی کے اندر ہی طے ہونے چاہئیں۔ مگر اصول اور انصاف کے لئے جب مقررہ راستے نہ ہوں تو لوگ کیا کریں اس وقت سوشل میڈیا پر سیاست دانوں نے ایک بازار سجا رکھا ہے۔ ایک دوسرے پر الزامات کی یلغار ہے ۔ جس میں نجی معاملات کو بھی ہوا دی جاتی ہے۔

ہماری پاکستانی اور اسلامی جمہوریت کے تمام اہم اور معتبر کھلاڑی سرمایہ داروں، جاگیرداروں اور اشرافیہ کے لوگ ہیں۔ قومی اسمبلی میں کوئی بھی غریب اور شریف نظر نہیںآتا اور کچھ ایسا حال ہماری سینیٹ کا ہے۔ اس میں سب سے معصوم جماعت اسلامی کے امیر ہیں جو عمران خاں اور تحریک انصاف کی کمال شفقت سے ایوان کے رکن منتخب ہو سکے ۔اب ایک دفعہ پھر ایم ایم اے سیاست میں اپنا کردار ادا کرنے کی خواہش مند ہے۔ اور مولانا فضل الرحمن نے جماعت اسلامی کو سیاسی طور پر حلیف بنا لیا ہے۔جماعت اسلامی عملی طور پر پیپلز پارٹی کی طرح اپنی حیثیت کھو چکی ہے اور دعویٰ ہے کہ کل کی سیاست میں صرف ان کا کوئی رول نہیں ہو گا۔

اس وقت تمام سیاسی لوگوں کو عبوری حکومت کے لئے اپنی طرف کے اچھے لوگوں کی تلاش ہے۔ جو غیر جانبداری سے ملک کا انتظام چلا ئیں اور انتخابات میں دھونس اور دھاندلی کو کردار ادا نہ کرنے دیں۔مگر مفادات اور نظریات کی وجہ سے اشرافیہ اور سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کو قبول کرنے کو تیار نہیں۔ملک میں جو لوگ کچھ باخبر ہیں ان کا خیال ہے کہ انتخابات کے بعد کسی بھی سیاسی جماعت کو اکثریت ملنی بہت مشکل ہے اور خاصے لوگ اس دفعہ آزاد امیدوار کے طور پر منتخب ہو کر سیاست میں اہم کردار ادا کریں گے .

 اس میں سب سے زیادہ نقصان حکمران جماعت کا نظر آ رہا ہے۔ سابق وزیر اعظم اعلیٰ عدالتی فیصلوں پر جس طرح تنقید کر رہے ہیں۔ اس سے ان کی سیاست اور ریاست دونوں کمزور ہو رہے ہیں۔وہ اردو کے خصوصی محاورے پر عمل کرتے نظر آ رہے ہیں۔’’نہ کھیلوں گا اور نہ کھیلنے دوں گا‘‘ ا سکا سب سے زیادہ نقصان مسلم لیگ حکمران جماعت کے صدر کو ہورہا ہے۔ وقت کم ہے۔عبوری سرکارکے لوگوں کا فیصلہ ہو چکا ہے۔ تمام کے تمام ملک میں کرپشن کے خاتمہ کے بعد ہی جائیں گے اور لوگ بھی کچھ ایسا ہی چاہتے ہیں۔

بشکریہ جنگ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).