کئیر ٹیکر حکومت


ابھی چند دن بعد کئیر ٹیکر حکومت مقرر ہو گی وہ بھی ساری کی ساری نامزد لوگوں پر مشتمل ہو گی اور یہ حکومت کسی کو بھی جواب دہ نہیں ہو گی کہ منتخب حکومت پارلیمنٹ کو جواب دہ ہوتی ہے جب کہ کئیر ٹیکر حکومت بنائی ہی پارلیمنٹ کے ختم ہونے پر جاتی ہے۔

2008ء میں کھرب ہا روپے کا اثاثہ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن کمپنی اور وہ بھی کماؤ پوت اربوں روپے کما کر دینے والا ادارہ جسے ستر سال میں پاکستان کی عوام نے آنہ آنہ جوڑ کر بنایا تھا، شوکت عزیز نے قائم مقام وزیر اعظم کی حثیت سے اونے پونے داموں بیچ دیا اور وہ پیسے بھی آج تک وصول نہیںکیے گئے۔ آج تک کسی نے نہیں پوچھا اور نہ ہی کوئی اسے پوچھ سکتا ہے کہ کس کو بیچا اور اس کے پیسے آج تک کیوں نہیں لئے گئے۔ پی ٹی سی ایل کے پینشنرز کا کیس سالہا سال سے سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے۔ انہیں کوئی یہ بھی پوچھنے کی جرات نہیں کر سکتا کہ پی ٹی سی ایل کے کم و بیش ساٹھ ہزار پینشنرز کو آدھی پینشن کیوں دی جا رہی ہے جس کے متاثرین میں میں خود بھی شامل ہوں۔

کئیر ٹیکر حکومت آتی ہے اور بلا دھڑک سالوں کا کام کر کے جاتی ہے اور یہ حکومت ہمیشہ منتخب حکومت سے زیادہ طاقتور رہی ہے۔ مہذب دنیا میں کہیں بھی کئیر ٹیکر حکومت کا شفاف الیکشن کے نام پر تقرر نہیں کیا جاتا۔ افتخار محمد چودھری نے کچھ پابندیاں لگا کر ان کے اختیارات کو محدود کرنے کی کوشش کی تھی۔ بڑے پالیسی میٹرز بڑے اداروں کے عہدہ داروں کی تقرریاں کئیر ٹیکر حکومت کرتی رہی ہے جیسا کہ بتایا کہ پی ٹی سی ایل جیسا ایک بہت بڑا اور اہم ادارہ شوکت عزیز کی کئیر ٹیکر حکومت نے بیچ دیا تھا۔ اس کو کس کی آشیر باد حاصل تھی؟ وہ کس کا منظور نظر تھا؟ وہ کہاں سے آیا تھا اور کہاں چلا گیا؟ کیا کئیر ٹیکر حکومت کی تقرری پر کوئی اتنا بھی اعتراض اٹھانے کی جرات کر سکتا ہے جتنا کہ مفتاح اسمعیل کی تقرری پر کیا گیا؟

‌مفتاح اسمعیل کا تقرر ایک منثخب حکومت نے کیا ہے اس کا پیش کیا گیا بجٹ پارلیمنٹ منظور کرے گی وہ اسے رَد بھی کر سکتی ہے۔ وزیراعظم اس کی تقرری کےلئے جواب دِہ ہے۔ ہر نئی آنے والی حکومت جانے والی پچھلی حکومت کا احتساب کرتی ہے اور ہمیشہ آنے والی حکومت نے جانے والی حکومت کا احتساب کیا ہے جب کہ ہر حکومت نے اسے انتقامی کارروائی ہی سمجھا۔ یہ جمہوری روایت ہے لیکن کئیر ٹیکر حکومت کا کبھی احتساب نہیں ہوا۔ کبھی بھی نئی آنے والی حکومت بھی کئیر ٹیکر حکومت کا احتساب نہیں کر سکی اور ہی نہ کر سکتی ہے کہ اس میں اتنی سکت ہی نہیں ہوتی کہ وہ ان کا احتساب کر سکے۔

‌حکومتوں کا احتساب سپریم کورٹ کی ذمہ داری نہیں ہے اور ہمیشہ آنے والی ہر حکومت نے ہی جانے والی ہر حکومت کا احتساب کیا ہے ماسوا کئیر ٹیکرز کے۔ کئیر ٹیکرز کے پاس بے انتہا اختیارات رہے ہیں ان اختیارات کو منتخب وزیر اعظم کو بھی استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی گئی اس کی ہر تقرری اور ہر فیصلے کو اسٹیبلشمنٹ کی ایما ہر عدالت میں چیلنج کیا گیا اور زیادہ تر ناپسندیدہ فیصلوں کو رَد کر کے وزیراعظم کو مفلوج بنا دیا گیا۔ سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے سامنے ہیں۔ عوام میں یہ تاثر بن رہا ہے کہ ہر اس عہدہ دار کی تذلیل کی گئی اور کی جا رہی ہے جس کاتعلق سابق وزیراعظم سے ہے اور یہ کام مسلسل کیا جا رہا ہے۔ ملزموں کے بھی کچھ انسانی حقوق ہوتے ہیں ان اختیارات کو جانتے بوجھتے سوموٹو اختیار کی کند چھری سے پائمال کیا جا رہا ہے اور ملزمان کو جہاں تک پوچھا جا رہا ہے کہ وہ کل کہاں بیٹھا چائے پی رہا تھا اور کہا جا رہا ہے کہ آپ کو وہاں نہیں ہونا چاہہے تھا اور وفاقی وزیروں کو ذلیل کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جارہی۔ کیا اسے سیاسی ایجنڈا کہنا غلط ہو گا؟

مغربی روایت یہ ہے کہ پبلسٹی صرف اور صرف سویلین کا حق ہےچوں کہ وہ تنقید بھی برداشت کرتے ہیں۔ ججوں اور جرنیلوں پر چونکہ تنقید نہیں ہو سکتی اس لئے انہیں پبلسٹی کا بھی حق نہیں ہے۔ مغرب میں کسی جج کی ہائی پروفائل کیسز میں بھی تصویر نہیں لگائی جاتی اس جج کا صرف سکیچ لگایا جاتا ہے وہ بھی غیر واضح۔ جب کہ ہمارے اداروں کے سربراہان سب سے زیادہ پبلسٹی کے شائق ہیں حتی کہ چیف جسٹس بھی جو برطانوی روایات سے خوب آگاہ ہیں وہ بھی سیاستدانوں کی طرح بی ہیو کر رہیں ہیں اور ہم نا سمجھی اور تعصب کی اس انتہا پرپہنچے ہوئے ہیں کہ ہم ان اقدامات کو قابل ستائش سمجھ رہے ہیں۔ قوم کو اصل ایشوز کی بجائے نان ایشوز میں الجھایا جا رہا ہے اور یہ کام میڈیا پوری شدومد سے کر رہا ہے اور عوام کو بےوقوف بنایا جا رہا ہے۔

یہ میڈیا کا کمال ہے کہ اس نے ہر شخص کو ایک متعصب شخص بنا دیا ہے کوئی بھی شخص اپنی رائے کے خلاف دوسرے شخص کی رائے سننے کو تیار نہیں اور جب کہ کوئی ایسا فلٹر ہی موجود نہیں ہے جو اس میڈیا انویژن میں لوگوں کو حقائق تک پہنچیں میں مدد دے۔ خاص طور پر نئی نسل کے پڑھے لکھے لوگ ان کے پاس ایسا کوئی ذریعہ ہی نہیں ہے کہ وہ حقائق تک پہنچ سکیں اگر چہ وہ حقائق جاننا چاہتے ہیں وجہ ان کا محدود سیاسی شعور ہے۔ اوپر سے وہ تاریخ سے عدم واقفیت کی وجہ سے تعصب کا شکار اور انہی ایسا سیاسی جماعتوں اور اس کے حمایتی میڈیا نے بنایا ہے۔ شدید قسم کا منفی پروپیگنڈا شروع ہے جس نے نئی نسل کی سوچنے سمجھنے کی صلاحتیوں کو ہی سلب کر لیا ہے۔

اب ہر وہ شخص جو پرو ڈیموکریٹ ہے اپنا موقف اس لئے بیان نہیں کر سکتا کہ اس پر نواز شریف کے حامی ہونے کا الزام لگ جاتا ہے اور ہر اس شخص کو جو پرو اسٹیبلشمنٹ ہے وہ عمران خان کا ساتھی ہے۔ اور وہ اسٹیبلشمنٹ کے غلیظ ہتھکنڈوں کو بھی اپنی فتح سمجھ رہا ہے۔ حالانکہ جو پھندے آج کسی ایک کے لئے بنائے جا رہے ہیں وہی پھندے کسی دوسرے کی گردن میں بھی با آسانی فٹکیے جا سکتے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کبھی نہیں چاہے گی کہ طاقتور عمران خان وزیر اعظم بنے اور عمران خان بھی کبھی نواز شریف بننے کی کوشش نہیں کرے گا۔ اسے بھی ایک پپٹ وزیراعظم بننا ہو گا۔

اسٹیبلشمنٹ کبھی بھی اپنے گھوڑے کو اتنا طاقتور نہیں ہونے دیتی کہ وہ سرکشی پر اتر ائے۔ نواز شریف کی مثال سامنے ہے 1999ء میں اس کے ساتھ کیا ہوا۔ موجودہ حالات میں اسٹیبلشمنٹ کو ایک ہنگ پارلیمنٹ چاہے جس کو وہ مکمل طور پر خود کنٹرول کر سکے۔ اسی کی مسلسل تیاری ہو رہی ہے۔ دو سیاسی جماعتوں کو انتظامی طور پر ختم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ خدا را جمہوریت کی حفاظت کیجئے۔ پاکستان کا مستقبل صرف اور صرف جمہوریت سے وابستہ ہے۔ اداروں نے ناجائز تجاوزات کھڑی کر کے موجودہ حکومت کو مفلوج کر کے رکھ دیا ہے اور گھر کو لگی آگ کی روشنی کو ہم سپیدہ سحر سمجھ رہے ہیں۔ یہ سارا سراب ہے دھوکہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).