”اکو درد ہے دم دم “ اب عمران خان کیلئے


مینارِ پاکستان پر جو جلسہ تحریک انصاف نے اتوارکی شب برپا کرنا تھا مجھے یہ کالم اس کے شروع ہونے سے قبل ہی لکھ کر دفتر بھیجنا ہے۔ تبصرہ آرائی کی لہٰذا گنجائش نہیں۔ پیر کی صبح شاید ضرورت محسوس ہو۔

فی الوقت اگرچہ میں یہ لکھنے پر مجبور ہوں کہ اس جلسے کے حوالے سے جو نعرہ پہلے چلا اس نے مجھے کنفیوز کیا۔ ”دو نہیں ایک“ کی لائن سُنی تو ذہن میں خیال آیا کہ شاید عمران خان صاحب پاکستان میں آبادی کے بے تحاشہ اضافے سے پریشان ہوگئے ہیں۔ آبادی کے اس دباﺅ کی وجہ سے دنیا کے کئی جید ماہرین کو یہ خدشہ لاحق ہوگیا ہے کہ شاید 2025 ءیعنی آج سے صرف سات سال بعد ہمارے ہاں پانی کی شدید قلت پیدا ہوجائے گی۔ اس قلت کے لئے اس برس کے فروری مارچ نے گویا ہمیں تیار کرنا شروع کردیا ہے۔

معمول کی بارشیں نہیں ہوئیں۔ درجہ حرارت بیشتر علاقوں میں مئی کی طرح کا رہا جب چوٹی سے ایڑی تک پسینہ بہا کرتا ہے۔ برف باری ہمالیہ کے پہاڑوں میں بھی اب کے برس معمول سے کہیں کم ہوئی۔سری نگر کے قلب میں بہتا دریائے جہلم بہت کمزور دِکھ رہا ہے۔ پاکستان تک پہنچتے ہوئے اس میں شاید وہ توانائی نہ رہے جو دریائی پانیوں کو نہروں کے ذریعے سندھ کے آخری مقامات میں لگائی فصلوں تک پہنچانے کے لئے ضروری ہے۔

آبادی میں اضافے سے جڑے خدشات وطنِ عزیز کے لئے نئے نہیں۔ 1960ءکی دہائی میں ان کا تذکرہ شروع ہوگیا تھا۔ اس دہائی کو عمران خان صاحب بھی ترقی کے اعتبار سے پاکستان کی بہترین دہائی تسلیم کرتے ہیں۔ بہت حسرت سے ان دنوں کو یاد کرتے ہیں جب فیلڈ مارشل ایوب خان امریکہ گئے تو ان کا ایئرپورٹ پر امریکی صدر نے خود آکر استقبال کیا اورا نہیں ایک کھلی گاڑی میں بٹھا کر ایئرپورٹ سے وائٹ ہاﺅس تک لے گئے۔ خاندانی منصوبہ بندی ان دنوں ہی پاکستان کی معاشی ترقی کے لئے لازمی تصور ہوئی۔

ایوب خان صاحب کے تقریباً دس سال بعد مگر جب مردِ مومن ہمارے دیدہ ور ہوئے تو افغانستان کو کمیونزم سے بچانے کے لئے انہیں مجاہدین کے لشکروں کی ضرورت محسوس ہوئی۔ آبادی میں اضافے کے بارے میں فکر مندی کا اظہار ربّ کریم کی رحمتوں سے انکار کے مترادف ٹھہرادیا گیا۔ مسئلہ مگر اپنی جگہ موجود رہا۔ اسے حل کرنے کے لئے ”بچے دوہی اچھے“ کی بات چلی۔ ماں بچے کی صحت کے حوالے دے کر لوگوں کو خاندانی منصوبہ بندی کی طرف راغب کرنے کی کوششیں ہوئیں۔ ذکر اس مسئلے کا مگر محتاط زبان ہی میں ہوتا رہا۔ پیغام مو¿ثر انداز میں لوگوں تک پہنچ نہ پایا۔

میں دیانت داری سے یہ سمجھا کہ عمران خان صاحب کی انقلابی طبیعت نے اب اس مسئلے کو جرات مندانہ انداز میں فیس کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ ”دو نہیں ایک“ کا نعرہ لگاکر اسے حل کرنا چاہتے ہیں۔

ہفتے کے آخری تین دن میں ریگولر اور سوشل میڈیا سے اجتناب برتتا ہوں۔ ہفتے کی شام تھوڑی دیر کو ٹی وی لگایا تو ایاز امیر صاحب کی وساطت سے خبر ہوئی کہ عمران خان صاحب دو نہیں ایک پاکستان کی بات کر رہے ہیں۔ امیروں اور غریبوں میں بٹے دو پاکستان کے بجائے سب کے لئے مساوی پاکستان۔ اس پاکستان میں ایچی سن کالج اور ٹاٹ سکولوں والی تقسیم نہیں ہوگی۔ فارم ہاﺅسز اور افتادگانِ خاک سے کٹی ہاﺅسنگ سوسائٹیوںکی کچی بستیوں کے ہجوم میں اشرافیہ کے حلقوں اور پناہ گاہوں کی صورت اُبھرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہوگی۔ قانون سب کے لئے برابر ہوگا۔

ایاز امیر صاحب کی بیان کردہ تشریح نے ذہن صاف کیا تو خبروں سے دریافت یہ بھی ہوا کہ مینارِ پاکستان کے جلسے کے لئے راحت فتح علی خان نے ایک نیا ترانہ بنایا ہے۔ عثمان ڈار نے اسکے بول لکھے۔ ڈار صاحب نے برسوں کی محنت کے بعد اپنے سیالکوٹی شریک خواجہ آصف کو اقامہ کی بنیاد پر عدالت کے ہاتھوں عمر بھر کے لئے انتخابی سیاست کے لئے نااہل قرار دلوادیا ہے۔شریک کی شکست نے ان میں موجود شاعر کو انگڑائی لے کر بیدار ہونے پر مجبورکردیا۔ نصرت فتح علی خان کا ”اِکوورد ہے دم دم….“ اب عمران خان کے لئے ہوا کرے گا۔ ان کی قیادت میں دمادم مست قلندر ہوگا۔

لاہور کے جلسے کی لیکن جو تیاریاں میں نے چند لمحوں کے لئے ٹی وی سکرینوں پر دیکھیں ان سے تاثر یہ ملا کہ کسی جدوجہد کے لئے کمربستہ ہونے کے بجائے ایک جشن کی تیاری ہے۔ نواز شریف کی تاحیات نااہلی کا جشن۔ خواجہ آصف جنہیں عمران خان نے نواز شریف کا سب سے بڑا درباری کہا تھا سیاسی اکھاڑے سے باہر ہوئے۔ ان کے نااہل ہونے کا جشن اور شاید اس بات کا جشن بھی کہ نواز شریف کے نام سے منسوب جماعت کے کئی سرکردہ رہنما اور اعلیٰ سرکاری افسران ان دنوں سپریم کورٹ کے روبرو پیشیوں پر پیشیاں بھگت رہے ہیں۔ ان کی ذلت ورسوائی کا جشن۔

ایسی ذلت ورسوائی کے بعد آئندہ انتخابات کے لئے جو پچ تیار ہوئی ہے وہ ہر حوالے سے عمران خان اور ان کی جماعت کے لئے بہت فیورایبل ہے۔خان صاحب اب باﺅنسر ماریں گے۔ان کے کھلاڑی چھکے لگائیں گے۔ امیدوں بھرے اس موسم میں مینارِ پاکستان پر 29اپریل کی شب لہٰذا جشن منانا ضروری تھا کیونکہ اسی میدان میں اکتوبر 2011ءوالا جلسہ بھی ہوا تھا۔ وہاں کپتان نے تبدیلی کا نعرہ لگایا اور بالآخر پاکستان دو نہیں ایک ہونا شروع ہوگیا۔ ایک ذرا صبر کر فریاد کے نہیں انتظار کے دن تھوڑے ہیں۔

انتظار کے ان دنوں میں لیکن عمران خان صاحب اور ان کی جماعت کو جوش نہیں ہوش سے کام لینا ہوگا۔قومی اسمبلی کی کل نشستیں 342ہیں۔ ان میں سے 272پر براہِ راست انتخاب ہوتے ہیں۔ تحریک انصاف کو آئندہ حکومت بنانے کے لئے ان میں سے کم از کم 135نشستوں کو جیتنا ضروری ہوگا۔ توجہ نشستوں کی اس بھاری بھرکم تعداد کی جانب گئی تو دل مضطر کو تشویش لاحق ہوگئی۔

1985سے 2002ءتک اس ملک کے ہر انتخاب کو بے تحاشہ حلقوں میں جاکر دیکھا اور رپورٹ کیا ہے۔ ربّ کا لاکھ لاکھ شکر کہ ہر بار میرے ذہن میں آئے نتائج درست ثابت ہوئے۔2008کا انتخاب Cover کرنے کی مجھے اجازت نہ تھی۔ جنرل مشرف نے Banکررکھا تھا۔ 2013میں ”سینئر تجزیہ کار“ بن کر ٹی وی سٹوڈیو میں بیٹھا رہا۔ عمر نے اب تھکا دیا ہے۔ دل مگر شدت سے مچل رہا ہے کہ اپنے صحافتی کیرئیر کی آخری اننگز کھیلتے ہوئے جوانی کے دنوں والی تڑپ اور تجسس کے احیاءکی کوشش ہو۔ امید برآنے کے امکانات اگرچہ بہت روشن نہیں۔ آئندہ انتخابات کے لئے ہوم ورک مگر شروع کردیا ہے۔

یہ ہوم ورک کرتے ہوئے احساس ہوا کہ 29 اپریل کی شب مینارِ پاکستان پر جشن مناتے دوستوں کو ”صوبہ جنوبی پنجاب محاذ“ کی اہمیت کا کماحقہ اندازہ نہیں ہے۔ شاہ محمود قریشی کی مذکورہ محاذ کے سرکردہ افراد سے ملاقاتیں کافی نہیں۔ عمران خان صاحب کو بذاتِ خود ایک واضح موقف اپنانا ہوگا۔ پاکستان کو دو نہیں ایک بنانے کے لئے شاید اب پنجاب کو تختِ لہور کی چھتری تلے ایک رکھنا ممکن نہیں رہا۔

غالباً عمران خان صاحب کو اس حقیقت کا احساس ہے۔ سیاسی حوالوں سے ببانگ دہل وہ یہ بات کہہ پائیں گے یا نہیں؟

اپنی جگہ یہ ایک اہم سوال ہے۔ اس کاجواب میرے پاس موجود ہے۔ فی الوقت اسے بیان نہیں کروں گا۔ یہ بات دہرادینے میں البتہ کوئی حرج نہیں کہ عام انتخابات کے روز 135نشستوں پر تحریک انصاف کی فتح کو غیر یقینی بنانے کے لئے اصل رکاوٹ ”صوبہ جنوبی پنجاب محاذ“ کے ”اچانک“ منظرعام پر آنے کی وجہ سے نمودار ہوئی ہے۔ سانپ اور سیڑھی کے کھیل میں یہ محاذ تحریک انصاف کے لئے سانپ بھی ثابت ہو سکتا ہے اور سیڑھی بھی۔ فیصلہ مگر لڈو کے دانے پر آئے نمبر نہیں عمران خان کی حکمت عملی کے ذریعے ہوگا۔ لاہور میں جشن منانے کے بعد اس پر توجہ دینا ضروری ہے۔

بشکریہ نوائے وقت


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).