دمے پر قابو کیسے پائیں؟


’’Global Initiative for Asthma‘‘ کے زیرِاہتمام دنیا بَھر میں ہر سال مئی کے پہلے منگل کو ’’عالمی یومِ دَمہ‘‘ منایا جاتا ہے۔ امسال یہ دِن یکم مئی کو منایا جائے گا۔ یہ دِن منانے کا آغاز1998ء میں ہوا۔ تب سے لے کر تاحال کوئی ایک تھیم منتخب کرکے سال بَھر آگاہی مُہم جاری رکھی جاتی ہے، تاکہ ہر سطح تک مرض سے متعلق چیدہ چیدہ معلومات عام کی جاسکیں۔رواں برس 2012ء ہی کا تھیم

’’You can Control, your Asthma‘‘ دہرایا گیا ہے۔ یعنی ’’آپ اپنے دَمے پر قابو پاسکتے ہیں۔‘‘اور سچ بھی یہی ہے کہ کسی مرض کے خاتمے،سدِّباب یا علاج معالجے کے ضمن میں ،جب تک آپ خودکوشش نہیں کریں گے، کام یابی کا حصول ناممکن ہے۔سو،اس یوم کے موقعے پر مرض سے متعلق مضمون پیشِ خدمت ہے۔

دَمہ ایک عام عارضہ ہے، جو سانس کی نالی میں سوزش کی وجہ سے لاحق ہوتا ہے۔ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا بَھر میں ہر تین افرادمیں سے ایک دَمے کا شکار ہے۔مرض لاحق ہونے میں عُمر اور جنس کی کوئی قید نہیں۔ دَمے کی اصل وجہ الرجی ہے۔ جب الرجی کا سبب بننے والے ذرّات پھیپھڑوں کی نالیوں میں داخل ہوتےہیں، تو یہ متوّرم ہوجاتی ہیں اور ان سے بلغم خارج ہونے لگتا ہے،ساتھ ہی نالیاں اس قدر تنگ ہوجاتی ہیں کہ سانس لینا خاص طور پر خارج کرنا سوہانِ روح بن جاتا ہے۔

الرجی کے مختلف اسباب یا عوامل ہیں،جو الرجنز کہلاتے ہیں۔مثلاً گرد وغبار، دھول، مٹّی،پولن،بال و پَر والے جانور، پرندے، لال بیگ، لکڑی پر کھانا، کوئی جذباتی دبائو، لڑائی جھگڑا، سینے کا انفکیشن،تمباکو نوشی،مخصوص ادویہ،دِل کے بعض عوارض،نظامِ ہاضمہ کی خرابی،سخت محنت و مشقّت، مٹّی کا تیل، پرفیومز، پائوڈر کا استعمال،ہائوس ڈسٹ مائٹس( قالین، پردوں اور صوفوں میں افزایش کرنے والےچھوٹے چھوٹے خُرد بینی کیڑے) وغیرہ۔

تاہم ،بعض کھانے پینے کی اشیاء جیسے مونگ پھلی، خشک میوہ جات بھی سبب بن سکتے ہیں، تو بعض کیسز میں گاڑیوں کا دھواں اور اسپرے پینٹ وغیرہ بھی دَمے میں مبتلا کردیتے ہیں۔اسی طرح کئی پیشوں سے وابستہ افراد مثلاًکاروں پر اسپرے پینٹنگ کرنے ، چکیاں چلانے ، آرا مشین سے کٹائی کرنے،بیکریوں اور صابن کی فیکٹریوں میں کام کرنےوالوں میں دَمے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں ۔علاوہ ازیں، اگرEmphysema اور Bronchitisجیسےعوارض مزمن صورت اختیار کرلیں،تو بھی دَمہ لاحق ہوسکتا ہے۔

جب کہ ایسے افراد، جو الرجی کا باقاعدہ طور پرعلاج نہیں کرواتے، بالآخر دَمے کا مستقل طور پرشکار ہو جاتے ہیں۔ عموماً الرجی کی وجہ سے جو دَمہ لاحق ہوتا ہے، اُس میں IgEلیول کافی حد تک بڑھ جاتا ہے،جس کے نتیجے میںنہ صرف دَمےکا دورہ جلدی جلدی پڑتا ہے،بلکہ اس کی شدّت میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے۔واضح رہے کہ جسم میں پانچ اقسام کی اینٹی باڈیز بنتی ہیں، جنہیں آئی جی ای،آئی جی جی،آئی جی ڈی،آئی جی اے اور آئی جی ایم کا نام دیا گیا ہے اور اینٹی باڈیز الرجی، ’’IgE:Immunoglobulin E‘‘ کی ضرورت سے زائدمقدار میںبننے کے باعث پیدا ہوتی ہے۔

آپ اپنے دَمے پر قابو پاسکتے ہیں

دَمے کی خاص علامات کھانسی، سانس میں رکاوٹ اور سانس لینے اورخارج کرنے میں سیٹی کی سی آوازیں آناہیں۔عام طور پر یہ علامات صبح اور شام کے اوقات میں ظاہر ہوتی ہیں، جن کی شدّت کبھی کم، کبھی زیادہ ہو جاتی ہے،تو بعض اوقات یہ ختم بھی ہوجاتی ہیں،جب کہ دیگر علامات میں سینے کی جکڑن اور بار بار انفیکشن، بچّوں میں کھانسی کے ساتھ قے ہونا،سانس لیتے ہوئےناک کے نتھنوں کا پھولنا، بالخصوص بچّوں میں یہ علامت عام ہے،جسم میں کُب نکل آنے کا انداز، دورانِ نیند بے چینی،کوئی کام کیے بغیر تھکن کا احساس، بچّوں میں پسلیوں کے درمیان خالی جگہ بننا،بعض کیسز میں جب بچّہ سانس لیتا ہے،تو پسلیاں اند دھنس جاتی ہیں، دِل کی دھڑکن اور نبض کا تیز ہونا، چلنے پھرنے میں مشکل پیش آناوغیرہ شامل ہیں۔

بعض مریضوں میں ایک وقت میں ایک ،دو علامات، جب کہ کچھ میں ایک وقت میں کئی علامات ظاہر ہو سکتی ہیں۔ اس لیے کسی بھی علامت کے ظاہر ہونے پر تاخیر کیے بغیر مستند معالج سے رابطہ کیا جائے۔ کیوں کہ اگر علاج بروقت نہ ہو، تو پھیپھڑوں کی لچک کم ہوجاتی ہے، جس کی وجہ سے سانس اُکھڑا اُکھڑا رہتا ہے اور تھوڑی سی محنت کے بعد ہی پھول جاتا ہے،جسے Emphysema کہا جاتا ہے۔

دَمے کی تشخیص کے لیے سب سے عام اور مستند ٹیسٹ ’’Spirometry‘‘ ہے۔تاہم،’’Peak Flow meter test‘‘، جس کی بدولت سانس کی نالی کی تنگی کی پیمایش کی جاتی ہے،سینے کا ایکسرےاور خون کے ٹیسٹ بھی مستعمل ہیں۔جب کہ بعض کیسز میں مختلف اقسام کی الرجی کے ٹیسٹ بھی تجویز کیے جاتے ہیں۔دَمے کے کام یاب علاج کے لیے درست اور بروقت تشخیص انتہائی ضروری ہے،کیوں کہ تاخیر نہ صرف پیچیدگیوں کے امکانات بڑھا دیتی ہے،بلکہ علاج کا دورانیہ بھی طویل ہوسکتا ہے۔ علاج معالجے کے ضمن میں عمومی طورپر معالج اِن ہیلریا پھر مخصوص ادویہ تجویز کرتے ہیں،جو دَمے کی شدّت کم کرنے میں اکسیر ثابت ہوتے ہیں۔

ہمارے معاشرے میں یہ تصوّر عام ہے کہ ’’دَمہ، دَم کے ساتھ ہی جاتا ہے‘‘،تو یہ ہرگز درست نہیں۔بدقسمتی سے عموماً گائوں، دیہات اور چھوٹے شہروں میں کسی ماہر معالج سے رجوع نہیں کیا جاتا ہے اور زیادہ تر اتائیوں سے علاج کروایا جاتاہے، جس کے سبب مرض مزید پیچیدہ ہوجاتا ہے،لہٰذا ایک مستند معالج ہی سے علاج کروایا جائے۔

یاد رکھیے، یہ مرض مکمل طور پر ختم نہیں ہوتا ۔تاہم، بہتر علاج کی بدولت اس پر قابو پانا سہل ہے، لیکن اس ضمن میں علاج معالجے کے ساتھ پرہیز اور احتیاطی تدابیر لازماً اختیار کی جائیں،تاکہ ایک عام فرد کی طرح زندگی بسر کی جاسکے۔رہی بات پرہیز کی،تو اِدھر اُدھر کے مشوروں پر کان دھرنے کی بجائےصرف اپنے معالج کی ہدایات پر عمل کریں۔جب کہ احتیاطی تدابیر کے ضمن میں سب سے اہم تویہی ہے کہ ایسے حالات سے بچا جائے، جو دَمے کی شدّت بڑھانے کا سبب بنتے ہیں۔ جیسے آلودہ ماحول سے محفوظ رہا جائے۔ اگر گھر میں قالین، دبیز پردے، پُرانے گدّے اور نرم کپڑوں سے بنے کھلونے ہوں، تو ان کی صفائی ستھرائی پر خاص دھیان دیا جائے، کیوں کہ ان میں ڈسٹ مائٹس پائے جاتے ہیں۔ چوں کہ یہ باریک باریک کیڑے ائیرکنڈیشنڈ کمروں میں تیزی سے افزایش پاتے ہیں، تو اپنا زیادہ وقت ٹھنڈے ماحول میں نہ گزاریں ۔دبیز اور بھاری پردوں کی بجائے ہلکے اور آسانی سے دھوئے جانے والے پردے اور بلائینڈز استعمال کیے جائیں۔

بستر کے گدّے، پلاسٹک یا مائٹس پروف کور سے ڈھانپ سکتے ہیں،جب کہ کپڑے سے تیار شدہ کھلونوں کو یا تو واشنگ مشین کے ذریعے اچھی طرح دھوئیں یا زیادہ بہتر تو یہی ہے کہ انہیں گھروں ہی میں نہ رکھیں۔گھر میں ایسے درخت اور پودے نہ لگائے جائیں،جو الرجی کا سبب بنیںاور ان پر بھی وقتاً فوقتاً جراثیم کُش اسپرے کرواتے رہیں،تاکہ حشرات الارض پیدا نہ ہوں۔ گھر میںاگر پالتو جانور ہیں،تو اُنھیں گھر کے اندورنی حصّے سے دُور ہی رکھا جائے۔تمباکو نوشی سے اجتناب برتیں اور نہ ہی ایسے ماحول میں رہیں،جہاں تمباکو نوشی کی جارہی ہو۔واضح رہے کہ وہ والدین جو تمباکو نوشی کی لت میں مبتلا ہوتے ہیں، اُن کے بچّوں میں تمباکونوشی نہ کرنے والے والدین کے بچّوں کی نسبت دَمے کے زیادہ امکانات پائے جاتے ہیں۔ بدلتے موسموں میں اپنا خاص خیال رکھیں، کمرے میں جب مچھر مار اسپرے کیا جائے، تو کُھلی فضا میں چلے جائیں ،بعض افراد کو پرفیومز اور ہئیر کلرز سے بھی الرجی ہوجاتی ہے، وہ بھی ان کے استعمال میںخاص احتیاط برتیں۔

نیز، اپنے آس پاس کا ماحول بھی صاف ستھرا رکھیں، کیوں کہ آلودگی کے باعث دَمہ ہی نہیں ،دیگر امراض کو بھی پنپنے کا بَھرپو موقع مل جاتا ہے۔اگر گھر کا کوئی فرد دَمے کا شکار ہوجائے، تو اسے چھوت کا عارضہ تصوّرکر کے الگ تھلگ نہ کردیں، کیوں کہ یہ مرض ایک فرد سے دوسرے میں منتقل نہیں ہوتا۔ مریض کے ساتھ کھانے پینے اور ساتھ رہنے میں کوئی قباحت نہیں،لیکن تھوڑی بہت احتیاط ضروری ہے۔دَمے کے مریض متوازن غذا کا استعمال کریں، تاکہ دوروں کا تسلسل ٹوٹ سکے۔نیز،مریض کی غذا کا بیش تر حصّہ تازہ پھلوں اور سبزیوں پر مشتمل ہونا چاہیے۔

بشکریہ؛ روزنامہ جنگ

ڈاکٹر جاوید اقبال

(مضمون نگار، القائم اسپتال، راول پنڈی میں خدمات انجام دے رہے ہیں)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).