ادب کے نام پر بےحیائی


سب سے پہلے (ترقی پسندوں کے ) لٹریچر کو لیجیے جو دماغوں کو تیار کرنے والی سب سے بڑی طاقت ہے۔ اس نام نہاد ادب، دراصل بے ادبی میں پوری کوشش اس امر کی کی جا رہی ہے کہ نئی نسلوں کے سامنے اس نئے اخلاقی فیصلے کو مزیدار بنا کر پیش کیا جائے اور پرانی اخلاقی قدروں کو دل اور دماغ کے ایک ایک ریشے سے کھینچ کر نکال ڈالا جائے۔ مثال کے طور پر میں یہاں اردو کے نئے ادب سے چند نمونے پیش کروں گا۔ ایک مشہور ماہ نامے میں، جس کو ادبی حیثیت سے اس ملک میں کافی وقعت حاصل ہے، ایک مضمون شائع ہوا ہے جس کا عنوان ہے “شیریں کا سبق”۔ صاحب مضمون ایک ایسے صاحب ہیں جو اعلیٰ تعلیم یافتہ، ادبی حلقوں میں مشہور اور ایک بڑے عہدے پر فائز ہیں۔ مضمون کا خلاصہ یہ ہے کہ نوجوان صاحب زادی اپنے استاد سے سبق پڑھنے بیٹھی ہیں اور درس کے دوران میں اپنے ایک نوجوان دوست کا نامہ محبت استاد کے سامنے بغرض مطالعہ و مشورہ پیش فرماتی ہیں۔ اس “دوست” سے ان کی ملاقات کسی چائے پارٹی میں ہو گئی تھی۔ وہاں کسی لیڈی نے تعارف کی رسم ادا کر دی، اس دن سے میل جول اور مراسلت کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ اب صاحب زادی یہ چاہتی ہیں کہ استاد جی ان کو اس دوست کے محبت ناموں کا “اخلاقی جواب” لکھنا سکھا دیں۔ استاد کوشش کرتا ہے کہ لڑکی کو ان بیہودگیوں سے ہٹا کر پڑھنے کی طرف راغب کرے۔

لڑکی جواب دیتی ہے کہ “پڑھنا میں چاہتی ہوں مگر ایسا پڑھنا جو میرے جاگتے خوابوں کی آرزوو ¿ں میں کامیاب ہونے میں مدد دے۔ نہ ایسا پڑھنا جو مجھے ابھی سے بڑھیا بنا دے۔ ” استاد پوچھتا ہے، “کیا ان حضرت کے علاوہ تمھارے اور بھی کچھ نوجوان دوست ہیں ؟” لائق شاگرد جواب دیتی ہے، “کئی ہیں، مگر اس نوجوان میں یہ خصوصیت ہے کہ بڑے مزے سے جھڑک دیتا ہے۔ ” استاد کہتا ہے کہ “اگر تمھارے ابا کو تمھاری اس خط و کتابت کا پتہ چل جائے تو کیا ہو؟” صاحب زادی جواب دیتی ہیں، “کیا ابا نے شباب میں اس قسم کے خط نہ لکھے ہوں گے، اچھے خاصے فیشن ایبل ہیں۔ کیا تعجب ہے اب بھی لکھتے ہوں، خدانخواستہ بوڑھے تو نہیں ہو گئے ہیں۔ ” استاد کہتا ہے “اب سے پچاس برس پہلے تو یہ خیال بھی ناممکن تھا کہ کسی شریف زادی کو محبت کا خط لکھا جائے۔ ” شریف زادی صاحبہ جواب میں فرماتی ہیں، “تو کیا اس زمانے کے لوگ صرف بد ذاتوں سے ہی محبت کرتے تھے ؟ بڑے مزے میں تھے اس زمانے کے بد ذات اور بڑے بدمعاش تھے اس زمانے کے شریف۔ ” شیریں کے آخری الفاظ جن پر مضمون نگار نے گویا اپنے ادیبانہ تفلسف کی تان توڑدی ہے، یہ ہیں : “ہم لوگوں (یعنی نوجوانوں ) کی دہری ذمے داری ہے، وہ مسرتیں جو ہمارے بزرگ کھو چکے ہیں زندہ کریں، اور وہ غصہ اور جھوٹ کی عادتیں جو زندہ ہیں، انھیں دفن کر دیں۔ “

ایک اور نامور ادبی رسالے میں اب سے ڈیڑھ سال پہلے ایک مختصر افسانہ “پشیمانی” کے عنوان سے شائع ہوا تھا جس کا خلاصہ سیدھے سادے الفاظ میں یہ تھا کہ ایک شریف خاندان کی بن بیاہی لڑکی ایک شخص سے آنکھ لڑاتی ہے، اپنے باپ کی غیر موجودگی اور ماں کی لاعلمی میں اس کو چپکے سے بلا لیتی ہے۔ ناجائز تعلقات کے نتیجے میں حمل قرار پا جاتا ہے۔ اس کے بعد وہ اپنے اس ناپاک فعل کو حق بجانب ٹھہرانے کے دل ہی دل میں یوں استدلال کرتی ہے : “میں پریشان کیوں ہوں، میرا دل دھڑکتا کیوں ہے، کیا میرا ضمیر مجھے ملامت کرتا ہے، کیا میں اپنی کمزوری پر نادم ہوں ؟ شاید ہاں۔ لیکن اس رومانی چاندنی رات کی داستان تو میری کتاب زندگی میں سنہرے الفاظ سے لکھی ہوئی ہے۔ شباب کے مست لمحات کی اس یاد کو تو اب بھی میں اپنا سب سے زیادہ عزیز خزانہ سمجھتی ہوں۔ کیا میں ان لمحات کو واپس لانے کے لیے اپنا سب کچھ دینے کے لیے تیار نہیں ؟ پھر کیوں میرا دل دھڑکتا ہے، کیا گناہ کے خوف سے ؟ کیا میں نے گناہ کیا؟ نہیں، میں نے گناہ نہیں کیا۔ میں نے کس کا گناہ کیا، میرے گناہ سے کسی کو نقصان پہنچا؟ میں نے تو قربانی کی، قربانی اس کے لیے۔ کاش کہ میں اس کے لیے اور بھی قربانی کرتی۔ گناہ سے میں نہیں ڈرتی۔ لیکن ہاں، شاید میں اس چڑیل سوسائٹی سے ڈرتی ہوں، اس کی کیسی کیسی معنی خیز اشتباہ آمیز نظر یں مجھ پر پڑتی ہیں۔ آخر میں اس سے کیوں ڈرتی ہوں، اپنے گناہ کے باعث؟ لیکن میرا گناہ ہی کیا ہے ؟ کیا جیسا میں نے کیا، ایسا ہی سوسائٹی کی کوئی اور لڑکی نہ کرتی؟ وہ سہانی رات اور وہ تنہائی، وہ کتنا خوب صورت تھا۔ اس نے کیسے میرے منھ پر اپنا منھ رکھ دیا اور اپنی آغوش میں مجھے کھینچ لیا، بھینچ لیا۔ اف! اس کے گرم اور خوشبو دار سینے میں کس اطمینان کے ساتھ چمٹ گئی۔ میں نے ساری دنیا ٹھکرا دی اور اپنا سب کچھ ان لمحات عیش پر تج دیا، پھر کیا ہوا؟ کوئی اور کیا کرتا۔ کیا دنیا کی کوئی عورت اس وقت اس کو ٹھکرا سکتی تھی؟ گناہ! میں نے ہرگز گناہ نہیں کیا، میں ہرگز نادم نہیں ہوں۔ میں پھر وہی کرنے کو تیار ہوں …عصمت؟ عصمت ہے کیا؟ صرف کنواراپن؟ یا خیالات کی پاکیزگی؟ میں کنواری نہیں رہی لیکن کیا میں نے اپنی عصمت کھودی؟ فسادی چڑیل سوسائٹی کو جو کچھ کرنا ہے کرلے۔ وہ میرا کیا کر سکتی ہے ؟ کچھ نہیں۔ میں اس کی پرحماقت انگشت نمائی سے کیوں جھینپوں ؟ میں اس کی کاناپھوسی سے کیوں ڈروں ؟ کیا اپنا چہرہ زرد کر لوں ؟ میں اس کے بے معنی تمسخر سے کیوں منھ چھپاو ¿ں ؟ میرا دل کہتا ہے کہ میں نے ٹھیک کیا، اچھا کیا، خوب کیا، پھر میں کیوں چور بنوں ؟ کیوں نہ ببانگ دہل اعلان کر دوں کہ میں نے ایسا کیا اور خوب کیا۔ “

باقی تحریر پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے

سید ابو الاعلیٰ مودودی
Latest posts by سید ابو الاعلیٰ مودودی (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2