پنجابی ہو تو پنجابی کیو ں نہیں بولتے؟


بیوی شوہر سے۔ بنٹی کے پاپا، آپ سے ایک بات کرنی تھی۔
شوہر نے جواب دیا۔ ہاں کہو؟
بیوی بولی۔ ہمارے پڑوس میں جب سے نئی فیملی آئی ہے ہمارا بنٹی بگڑسا گیا ہے۔

شوہرنے حیرت زدہ ہو کر پوچھا۔ کیا مطلب؟

بیوی نے مضحکہ خیز انداز میں کہا مطلب یہ کہ ہمارے پڑوسی پینڈو سے ہیں پنجابی بولتے ہیں۔ بھلا آج کل کون پنجابی بولتا ہے۔ (قہقہ لگاتے ہوتے)آج کل تو انگلش کا زمانہ ہے بھئی لجن جب سے ہمارا بنٹی بھی ان کے بچے کے ساتھ کھیلنے لگا ہے اُسکا بول چال بھی بدلا بدلا سا ہے۔

شوہر نے کہا۔ یہ تو اچھی بات نہیں۔ ہم اپنے بچے کے مستقبل کے لئے اتنی منصوبے بنا رہے ہیں اوریہ پنجابی سیکھنے بیٹھ گیا۔ کون بولتا ہے آج کل پنجابی، کرتا ہوں میں اس سے بات۔

دوستو! مندرجہ بالا وہ کہانی ہے جو ہم پنجابیوں کے گھر میں کبھی نہ کبھی ضرور دہرائی جاتی ہے۔ کیا کبھی ہم نے اس بات پر غور کیا کہ ایسا کیوں ہے؟ پاکستان میں بسنے والے تمام افراد علاقائی اور ثقافتی طور پر اپنے پہناوے، بول چال اور رہن سہن کے اعتبارسے کیوں مختلف ہیں۔ بلوچستان میں رہنے والا شخص بلوچی بولے گا، خیبر پختونخوا میں رہنے میں پشتو اور دیگر علاقائی زبانیں بولے گا، اسے طرح سندھ میں رہنے والاسندھی۔ لیکن پنجاب میں رہنے والا پنجابی سے زیادہ اپنی قومی زبان اردو کو ترجیح دیتا ہے۔ اسی طرح علاقائی، ثقافتی اورمذہبی اعتبار سے بھی پاکستان میں متعدد زبانیں بولی جاتی ہیں جیسے کہ سرائکی، کشمیری، مارواڑی، گجراتی، ہندکو، پہاڑی، دہروی وغیرہ وغیرہ۔ اگر ان زبانوں کے بولنے والے ملک کے کسی کونے میں بھی کیوں نہ چلے جائیں وہ اپنے ہم زبان سے اپنی علاقائی یا ماں بولی میں بات کرے گا۔ لیکن پنجابی دوسرے پنجابی کو دیکھ کر پنجابی میں بات نہیں کرے گا۔

بچپن میں جب ہم اپنے والدین کے ساتھ گاؤں جاتے تھے تو وہاں ہمارے شہری پہناوے اور خصوصاً ہمیں اردو بولتا دیکھ کر گاؤں کے لوگ بالخصوص بچے حسرت بھری نگاہوں سے ایسے دیکھتے تھے جیسے ہم لاہور سے نہیں امریکہ، یورپ یا لندن سے آئے ہیں۔ اور واپس آکر اگر ہم ایک آدھ جملہ پنجابی کا سیکھ لیتے تو والدین ڈانٹ دیتے کہ خبردار پنجابی بولی تو۔ انگلش میڈیم میں کس لئے پڑھا رہے ہیں آپ کو۔ اُس دور میں کم از کم گاؤں دیہاتوں میں رہنے والی پنجابی تمام کنبہ ہی اپنی علاقائی زبان یعنی پنجابی میں بات کرتے تھے۔ لیکن آج ایسا بالکل نہیں ہے۔ ماں باپ چاہے آپس میں پنجابی بولیں لیکن اپنے بچے کو پنجابی بولتا کبھی نہیں دیکھ سکتے۔ الٹا اگر کوئی بولنے کی کوشش بھی کرے تو اس کو ڈانٹ دیا جاتا ہے۔

ویسے پنجابی بولے جانے پر ہم اتنا خوف زدہ کیوں ہیں؟ کون ہے اس کا ذمہ دار؟ والدین؟ تعلیمی اور پالیسی ساز ادارے؟ حکومتِ وقت؟ ہمارا معاشرہ؟ یا وہ لوگ جن کے بارے میں ہمارے بڑے ہمیشہ سے کہتے آئے ہیں“۔ لوکی کی کہن گے“۔ کبھی ہم نے سوچا کہ اگرساری زند گی ایک انگریز ماں باپ کی اولادپختون، بنگالی یا سندھی کے گھر پلے بڑھے تو وہ بھی اس گھر میں رہنے والوں جیسا رنگ ڈھنگ اختیار کرے گا، اور انگریزی نہیں بلکہ اس گھر میں بولی جانے والی زبان بولے گا۔ لیکن یہ کلیہ بھی پنجابیوں پر لاگو نہیں ہوتا۔

ذیادہ دُور نہ جائیں تواپنے ہمسایہ ملک بھارت میں رہنے سکھ برادری کو ہی دیکھ لیں۔ یہ برادری کہیں بھی ہواپنی ثقافت کو نہیں بھولتی بلکہ اس کے فروغ کے لئے ہر ایک فرد پیش پیش نظر آتا ہے۔ دنیا کے کسی کونے میں بھی چلے جائیں پنجابی پنجابی کو دیکھ کہ اپنی ماں بولی میں بات کرتا ہے۔ لیکن یہ روایت بھی بارڈر پار پاکستانی پنجابیوں میں نہیں پائی جاتی۔ بلکہ اگر کوئی غلطی سے پنجابی بولتا پایا جائے تو اس کو دوسرا پنجابی ہی اس حقارت کی نگاہ سے دیکھتا ہے جیسے اس شخص نے کوئی قابلِ شرم کام کر ڈالا ہو۔ دیکھو کتنا پینڈو ہے پنجابی میں بات کر رہا ہے۔ ہمارے بچے تو انگریزی میڈیم میں پڑھتے ہیں ہم نہیں بننے دینگے ان کو پینڈو۔

میرے دادا ابو کی شادی پنجابی گھرانے میں ہوئی جبکہ وہ پٹھان تھے۔ یہ روایت انہوں نے میرے والد سمیت تمام بیٹے بیٹیوں کی شادیوں کے لئے برقرار رکھی۔ لہذا پنجاب میں رہنے اور پنجابیوں میں شادی ہوتے ہوتے سب پنجابی ہو گئے۔ لیکن پنجابی زبان تو پھر بھی نہ بولی گئی۔ اور اگر بولی بھی گئی تو صرف والدین کی پیڑھی تک۔ میرے ذہن میں اکثر یہ سوال اُٹھتا ہے کہ آخر کیوں؟ کیا یہ زبان بولناہمارے لئے شرمناک بات ہے؟ ہم کوشش کرتے ہیں کہ پنجابی بولنا تو دور کی بات ہمارا لہجہ تک پنجابی نہ ہو۔ اور اس ناپسندیدگی میں پنجابی ہی پنجابی کو رد کرتادکیائی دیتاہے۔ میں نے یہ تک سنا ہے کہ اس شخص سے پروگرام کی نظامت نہیں دینی چاہیے کیونکہ اس کا لہجہ بہت پنجابی ہے۔ بھئی واہ! کیا انصاف ہے۔ لہذا اگر ہمارا لہجہ پنجابی ہے تو ہم کسی سے کمتر ہو گئے۔ پنجابی لہجہ ہونا یا پنجابی بولا جانا صلاحیت، علم اور ہنر کے ہونے یا نہ ہونے تو طے تو نہیں کرتی۔ کیا کبھی کسی نے ایک پختون کو، سندھی کو، فارسی کو اردویا انگریزی بولتے سُنا ہے۔ ان کے لہجے سے سو فیصد ان کی ماں بولی کی جھلک ملتی ہے جوکہ ان کے لئے قابل فخر بات ہے توایک پنجابی کے لئے کیوں نہیں؟

ہم کتنے روپے خرچ کر کے انگریزی، جرمن اور اب تو چینی زبان بھی سیکھ رہے ہیں تا کہ ہم دوسری قوم کے ساتھ اس کیثقافت بانٹ سکیں، اس سے روابط بڑھا سکیں۔ لیکن اپنی ماں بولی کو سیکھنے سکھانے بولے جانے کے لئے ہم نے کیا کوششیں کی؟ یہاں میرا استفسا ر ہے نہیں کہ دوسری زبانیں نہ سیکھی جائیں بلکہ صرف اتنی التجا ہے کہ اپنی ثقافت کو مرنے سے بچایا جائے۔ یقین جانئے۔ اگرپنجابی قوم نے اپنی ثقافت بچانے کے لئے اب کچھ نہیں کیا تو چند سالوں میں۔ جی ہاں گنتی کے چند سالوں میں پنجابی زبان درحقیقت کیا ہے؟ لکھنا تو دور کی بات بولی کیسے جاتی ہے اس کے لئے ہمیں تاریخ کی کتابیں کھولنی پڑیں گی؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).