پانی کا الارم، بھائی خان اور نیوزی لینڈ کی دعوت


\"bakht\"استاد ذوق کا یہ شعر زبانوں پر چڑھ کر بہت پامال ہوچکا ہے مگر یاد آیا ہے تو آپ بھی سن لیجیے :

گلہائے رنگا رنگ سے ہے زینت چمن

اے ذوق اس جہاں کو ہے زیب اختلاف سے

ایسے گلہائے رنگا رنگ کا نظارہ آپ نے بھی اپنی سٹوڈنٹ لائف میں کیا ہوگا ۔ کلاس ، کمرے اوردارالاقامہ ( ہاسٹل) میں کچھ عجیب عادتوں اور طبعیتوں کے ساتھی آکر ملتے ہیں ۔ آج کی محفل میں کچھ ایسے لوگوں کو یاد کرتے ہیں۔

ایک دن رات کو گیارہ بجے صوابی خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے اپنے کلاس فیلو کو دیکھا سونے سے پہلے سرہانے  ٹھنڈے ٹھار پانی کا ایک بڑا مگ بھر کے رکھ رہا تھا ۔ ہم نے وجہ پوچھی تو ہنس کر کہا یہ میرا الارام ہے جو مجھے جگاتا ہے ۔  بات یہ تھی کہ وہ ہمارے دوست نیند کے بہت پکے تھے ۔ ان کے سینے پر بیٹھ کر انہیں جھنجھوڑو یا ٹانگ کھینچ برآمدے میں گھوماتے رہو مجال ہے جوان کے خراٹوں کی ردھم میں فرق آئے ۔ اور تھے وہ خود پوزیشن ہولڈر یعنی کتابی کیڑے ۔ رات کو دیر تک جاگنا مشکل لگتا تھا اس لیے گیارہ بجے سوجاتے اورآدھی  رات کو  اٹھ کر فجر تک پڑھائی کرتے ۔اس لیے وہ سونے سے پہلے اپنے کسی ایسے  دوست سے جو دیر تک جاگتے کہہ دیتے کہ سونے سے پہلے انہیں جگا دیا کرے ۔ مگر انہیں جگانا کارے دارد۔ دوست جگاتے جگاتے عاجز آتے اس لیے وہ یوں ہی چھوڑ کر چلے جاتے ، صبح کو انہیں دوستوں سے شکوہ ہوتا  اور دوستوں کو ان کی نیند سے ۔ اس کا انہوں نے حل یہ نکالا تھا کہ پانی سرہانے رکھتے اور دوستوں سے کہتے کہ جگاتے ہوئے پانی ان کے چہرے پر انڈیل دیں ۔

\"Pakistani

ان کی اس پختہ نیند کی عادت تھی کہ ایک مرتبہ کلاس کے طلبہ نے انہیں بستر سمیت اٹھایا اور دور اساتذہ کے گھر کے سامنے سیڑھیوں کے نیچے فرش پر چھوڑ آئے ۔ فجر کی اذان کے وقت اٹھے تو استاد جی سرپر کھڑے تھے ۔ پوچھا یہاں کیسے آئے اور کس نے یہ شرارت کی ؟ ان شریر دوستوں کا پتہ تھا مگر ٹال گئے اورنام نہیں بتائے ۔

ایک دوست ہمارے بلتستان کے تھے ۔ ابتدا سے چھ برس تک ہمارے ساتھ رہے ۔  کراچی میں بلتی طلبا کو ساتھ ملا کر انہوں نے بلتستان میں اپنے علاقے کے سکول اور مدارس کے طلبہ کے لیے ایک لائبریری بنوائی تھی ، کراچی سے کتابیں اور اخبارات ورسائل بھیجتے تھے ۔ طبعیت کے انتہائی نرم ، شفیق اور رحم دل ۔ دوستوں کا ان کے بغیر وقت نہیں گذرتا تھا ۔ کلاس اور کمرے کے ساتھیوں کے ساتھ طرح کی شرارتیں کرتے ، ان کی شرارتوں کا کوئی برا نہیں منا تا تھا ۔ چھ سال تک انتہائی قریبی دوست رہنے کے باوجود بلتی زبان کا کوئی لفظ ان سے نہیں سیکھ سکے ۔ دس تک گنتی انہوں نے سکھائی جو بمشکل سیکھ لی ۔  ۱۔چِک ۔ ۲۔ نیس۔ ۳۔ثُم۔ ۴۔ فژی۔ ۵۔ غا ۔۶۔تُرُک۔ ۷۔بُدُن۔ ۸۔بگیت۔۹بُگو۔۱۰۔پچو۔  غلط ہو تو کوئی بلتی دوست تصحیح کرے ۔

\"111\"دورہ حدیث یعنی آخری سال کو کلاس کی تعداد زیادہ ہوجاتی ہے اور بہت سے غیرملکی طلبہ بھی آکر کلاس میں شامل ہوجاتے ہیں ۔ تب بہت سی نئی دوستیاں بنتی ہیں اور نئے مزاج کے لوگوں سے شناسائی ہوتی ہے ۔ پڑھائی کے آخری ایام میں جب سالانہ امتحان قریب تھا ہماری ملاقات اسپین کے طالب علم عبدالباسط{غالبا یہی نام تھا} سے ہوئی ۔ عبدالباسط سے اس کی پاکستان آمد اور اس مدرسے میں آنے کا پس منظر پوچھا تو انہوں نے اپنی کہانی بہت تفصیل سے بتائی ۔  وہ اسپین میں فلسفہ میں ماسٹر کرچکا تھا ۔ اس نے بتایا یونیورسٹی میں  وہاں پاکستان سے آئی ہوئی تبلیغی جماعت سے میری ملاقات ہوئی ۔ میں نام کا مسلمان تھا مگر مجھے اپنے مذہب ، عبادات ، حتی کہ کلمہ کا بھی علم نہیں تھا۔ تبلیغی جماعت کے ساتھیوں کے ساتھ وقت گذارنے کے بعد مجھے دین اور عبادت کی کچھ کچھ سمجھ آنے لگی ، دینی علوم سیکھنے کا میرا شوق بڑھتا رہا ۔ میں نے فیصلہ کیا کہ مذہبی علوم پڑھنے مکہ مکرمہ جاوں گا ۔ میں نے وہاں کے مقامی علماء سے مشورہ کیا تو انہوں نے مشورہ دیا کہ دینی علوم صحیح معنی میں پڑھنے ہیں تو پاکستان چلے جاو۔ میں پاکستان آیا اور رائیونڈ تبلیغی مرکز میں داخلہ لے لیا ۔ داخلہ لینے کے بعد آٹھ سال  تک میں گھر نہیں گیا ۔  فراغت اور دستار بندی کے بعد  میرے ساتھ آنے والے اسپینش طلبہ نے تبلیغ میں سال لگانے کا فیصلہ کیا مگر میں نے علم حدیث میں پی ایچ ڈی کا ارادہ کیا ۔اپنے اساتذہ سے مشورہ کیا تو انہوں نے اسی مدرسہ کا نام بتایا اس لیے میں کراچی آگیا ۔ ابھی علم حدیث میں پی ایچ ڈی کا دوسالہ کورس ختم ہونے کو ہے ، اس لیے اب میں تبلیغ میں ایک سال لگاوں گا اور اس کے بعد گھر جاوں گا۔

\"Pakistani

 نام یاد نہیں آرہامگر نیوزی لینڈ کے اس طالب علم کا چہرہ اور قدکاٹھ آج بھی دماغ میں تازہ ہے ۔  نیوزی لینڈ کے متعلق بات چیت کے دوران ایک مرتبہ بولا کبھی موقع ملے تو ضرور آنا نیوزی لینڈ ، بہت مزہ آئے گا۔ ہم نے تو جواب میں ہوں ہاں کردیا باہر نکل کر میں اور میرے پاکستانی دوست اس کی معصومانہ دعوت اور اپنی حالت پر خوب ہنسے ۔ میرا دوست کہنے لگا \”یار وہ ایسے دعوت دے رہا تھا جیسے اس کا گھر میاں والی یا فیصل آباد میں ہو\”۔

اسی سال تھائی لینڈ کے ایک طالب علم سے شناسائی بہت بڑھی ۔ تقریبا روز شام کو چائے پینے ایک ساتھ باہر جاتے ۔  ہم تو انہیں پٹھانوں کی چائے ہی پلاتے اور وہ ہمیں کبھی دعوت دیتے چلو پیزا ہٹ ۔ اور کبھی وہ کے ایف سی میں کھانا کھا کر آرہے ہوتے ۔اور اس قدر پاوں پھیلانے کی اجازت ہماری چادر نہیں دیتی تھی اس لیے ہر بار ٹال ، ٹال دیتے ۔  خاندانی بہت امیر تھے ، ربڑ کے درختوں کے باغات تھے ان کے وہاں تھائی لینڈ میں ۔ میں نے تھائی لینڈ کے مشہور گینگسٹر بھائی خان کا ذکرکیا جس کا تذکرہ ہمارے ہاں ناولوں اور کالموں میں ملتا ہے اور بالی ووڈ میں ان پر فلمیں بنائی گئی ہیں ۔ اسے ہمارے ہاں بھائی خان کی شہرت کا علم نہیں تھا کیوں کہ پاکستانی زبانوں میں سے پشتواور  اردو وہ بچوں کی طرح توتلی زبان میں تھوڑی تھوڑی بول لیتا تھا ۔ وہ بھائی خان کی شہرت کے متعلق تھائی لینڈ میں جس قدر جانتا تھا اس نے بتایا ۔ وہ کہتا تھا ہمارے دادا تھائی لینڈ کے مسلمانوں میں بہت بڑے رئیس تھے اس لیے بھائی خان ہمارے دادا سے ملنے آتے رہتے تھے ۔ ہمارے دوست اپنے تھائی لینڈ کے سارے ہم وطنوں کے واحد متکلم تھے یعنی واحد ترجمان تھے ۔ کیوں کہ جتنی اردو اور پشتو یہ جانتے تھے ان کا کوئی دوسرا ساتھی اتنا بھی نہیں جانتا تھا اس لیے ہر ساتھی کے ساتھ کسی بھی چیز کی خریداری کے لیے اسے ساتھ جانا پڑتا۔

اپنی کلاس میں ایک رشین طالب علم زیلم خان بھی تھا جو شافعی مسلک سے تعلق رکھتا تھا ، شافعی مسلک کے اور بھی طلبہ تھے مگر اپنے مسلک اور فقہ حنفی کا ان کا مطالعہ اچھا خاصا گہرا تھا اس لیے بعض اوقات احادیث میں فقہی مباحث چھیڑ کر اساتذہ سے اچھی علمی بحث بھی کرتے اور بڑی بڑی کتابوں کے حوالے لاکر پیش کرتے ۔

غیرملکی طلبہ کا تذکرہ چل نکلا ہے تو مزید بتاتے چلیں ۔

ہماری فراغت سے  دو چارسال قبل ایک کلاس سے انڈونیشا کے دو طالب علم ایک ساتھ عالم فاضل ہوکر گئے اوروہ  دونوں رشتے میں آپس میں کوئی اور نہیں باپ بیٹے تھے ۔

بعد میں ان کے کلاس فیلو ساتھی نے بتایا کہ بیٹا باپ سے زیادہ محنتی اور پوزیشن ہولڈر تھا ۔ جبکہ باپ اتنا ذہین اور محنتی نہیں تھا۔

ایک بات کی وضاحت کرتے چلیں ۔ یہ سب غیر ملکی طلبہ وہ تھے جو کسی نہ کسی واسطے سے پاکستانی نژاد تھے ۔ اس لیے انہیں پاکستان میں پڑھنے کی اجازت تھی ۔  2001 کے بعد پرویز مشرف نے غیرملکی طلبہ کی پاکستان آمد پر پابندی عائد کردی تھی  جس کی وجہ سے ہزاروں غیر ملکی طلبہ کو اپنی پڑھائی ادھوری چھوڑ کر پاکستان سے جانا پڑا ۔ بعد میں ان میں سے اکثریت نے بھارت  کا رخ کیا اور بھارت کے دینی مدارس میں پڑھنا شروع کیا جبکہ بھارتی حکومت نے ان طلبہ کے لیے اپنی پالیسی مزید نرم کرلی تھی ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
5 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments