ابلیس کے لیے منصفانہ سماعت کا حق


اکثر آپ نے امریکی فلموں میں یہ منظر دیکھا ہو گا کہ جب کوئی پولیس والا کسی ملزم کو موقع واردات سے گرفتار کرتا ہے تو ہتھکڑیاں پہناتے ہوئے یہ جملے ضرور کہتا ہے کہ ”تمہیں خاموش رہنے کا حق حاصل ہے، جو کچھ بھی تم اپنے دفاع میں کہو گے اسے عدالت میں تمہارے خلاف استعمال کیا جا سکتا ہے، تمہیں وکیل کرنے کا حق بھی حاصل ہے، اگر تم وکیل کرنے کے متحمل نہیں ہو سکتے تو سرکار اپنے خرچے پر تمہیں وکیل فراہم کرے گی۔“ اسے Miranda Warning کہا جاتا ہے، اس کا ماخذ امریکی عدالت عظمیٰ کا ایک فیصلہ ہے جس کے مطابق پولیس پر یہ لازم ہے کہ وہ گرفتاری کے وقت ملزم کو اس کے حق دفاع کے متعلق صراحت سے بتائے۔

اسی طرح فلموں میں یہ بھی دکھایا جاتا ہے کہ پولیس جب کسی شخص کو مقدمے میں تفتیش کے لیے طلب کرتی ہے تو وہ شخص فقط اتنا کہہ دیتا ہے کہ میرے وکیل سے بات کرو اور پولیس اسے مجبور نہیں کر سکتی کہ وہ اپنا یہ حق استعمال نہ کرے۔ اسی طرح یہ منظر بھی میں نے امریکی فلموں میں ہی دیکھا ہے کہ پولیس جب کسی کو گرفتار کر کے حوالات میں بند کرتی ہے تو اسے ایک فون کال کرنے کی اجازت ضرور دیتی ہے تاکہ وہ اپنے دفاع کے لیے وکیل سے رابطہ کر سکے، تھانہ یا جیل جو بھی جگہ ہو، وکیل اپنے موکل سے تنہائی میں ملاقات کر سکتا ہے اور پولیس اس میں کوئی مداخلت نہیں کرتی۔

آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ سب فلمی باتیں ہیں کیونکہ اسی امریکہ نے اپنی سرزمین سے باہر گوانتانامو جیل بھی بنائی تاکہ اس قسم کی قانونی ’قباحتوں‘ سے بچ کر وہ تمام ہتھکنڈے استعمال کیے جا سکیں جو ہمارے جیسے ملکوں میں پولیس اپنے ملزمان سے ’سچ‘ اگلوانے کے لیے استعمال کرتی ہے۔ اسی طرح امریکہ میں سفید فام پولیس والوں کا سیاہ فام امریکیوں کے ساتھ متعصبانہ رویہ اور مسلمانوں کے خلاف نسلی امتیاز بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔

مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ امریکہ کا نظام انصاف ناکارہ ہے، حقیقت یہ ہے کہ تمام تر خباثت کے باوجود امریکی عدالتی نظام میں ملزم پر چاہے جتنا بھی سنگین الزام کیوں نہ ہو، اسے دفاع کے حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا، وہاں عام امریکی کو منصفانہ سماعت کا حق مل ہی جاتا ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ منصفانہ سماعت کا حق آخر ہے کیا؟

بظاہر منصفانہ سماعت کا حق کا مطلب یہ ہے کہ ملزم کو گرفتار کر کے اس پر مقدمہ چلایا جائے اور پھر سزا دی جائے لیکن یہ ادھوری تشریح ہے کیونکہ مقدمے تو فسطائی حکومتوں میں بھی چلائے جاتے ہیں۔ ہٹلر اور سٹالن نے بھی عدالتوں کے تحت ہی ملزمان کو سزائیں سنائی تھیں، آمرانہ حکومتیں بھی فوری سماعت کے بعد فوجی عدالتوں کے ذریعے سزا سناتی ہیں، گزرے وقتوں میں بادشاہ بھی کسی کا سر قلم کرنے سے پہلے اس سے دو چار باتیں پوچھ لیا کرتے تھے جسے سماعت کا حق کہا جاتا تھا، ان میں سے جو بادشاہ زیادہ انصاف پسند ہوتے تھے انہوں نے قاضی عدالتیں بھی قائم کر رکھی تھیں، اس زمانے کے لحاظ سے یہ بات قابل تحسین تھی۔

مگر آج کے دور میں سماعت کے منصفانہ حق کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہے کہ جس عدالت کے سامنے مقدمے کی سماعت ہو وہ عدالت قانون کے تحت قائم کی گئی ہو، آزاد اور خود مختار ہو، سماعت کھلے بندوں انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے کی جائے، ہر شخص اس عدالت کے سامنے جوابدہ ہو، قانون سب پر یکساں انداز میں لاگو کیا جائے اور فیصلے کے خلاف اپیل کا حق دیا جائے۔ یہ تمام شرائط پوری کرنا آسان کام نہیں مگر مہذب ممالک نے اس ضمن میں مختلف طریقے وضع کر رکھے ہیں، مثلاً چند یورپی ممالک میں پولیس اور استغاثہ سے علیحدہ ایک محکمہ قائم ہے جس کا کام صرف جرم کے شواہد اکٹھے کرنا ہے، ضروری نہیں کہ یہ شواہد ملزم کے خلاف ہی ہوں، اس محکمے کا کام صرف اس بات کا تعین کرنا ہے کہ کیا ملزم پر جرم کا الزام عائد کیا جا سکتا ہے یا نہیں۔ یہ محکمہ کسی بھی صورت میں اس بات کا فیصلہ نہیں کرتا کہ ملزم نے جرم کیا یا نہیں بلکہ صرف سفارش کرتا ہے کہ ملزم پر مقدمہ بنتا ہے یا نہیں، اگر مقدمہ عدالت میں چلا جائے تو پھر اس محکمے کا کام ختم ہو جاتا ہے۔

ہمارے ہاں ایسا کوئی محکمہ نہیں بلکہ یہ کام پولیس کرتی ہے اور عدالت میں چالان پیش کر کے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتی ہے کہ اس نے ملزم کو قانون کے مطابق گرفتار کیا لہذا اسے پھانسی کی سزا ہی سنائی جائے۔ یہیں سے انصاف کا خون شروع ہوتا ہے۔ پولیس کے سامنے ملزم کے بیانات کو ریکارڈ کر کے میڈیا پر نشر کیا جاتا ہے، حتٰی کہ بی بی سی جیسا ادارہ بھی پولیس کے عدالت میں پیش کردہ چالان کو بنیاد بنا کر ملزم کے خلاف خبر چلا دیتا ہے اور یہ نہیں دیکھتا کہ اس سے منصفانہ سماعت کا حق متاثر ہوتا ہے۔

نور مقدم کیس میں بی بی سی سمیت تمام چینل اور اخبارات یہی کام کر رہے ہیں۔ اگلے روز سب نے یہ خبر نشر کی جسے پڑھ کر میرے بھی رونگٹے کھڑے ہو گئے کہ نور مقدم کو قتل کرنے کے بعد جب ظاہر جعفر نے باپ کو فون کیا تو والد نے کہا کہ ’گھبرانے کی ضرورت نہیں، ہمارے بندے آ رہے ہیں، جو لاش ٹھکانے لگا کر اسے وہاں سے نکال لیں گے۔‘ اس خبر کا ماخذ پولیس کا عبوری چالان تھا جو اس نے عدالت میں پیش کیا، یہ چالان اس مبینہ بیان کی بنیاد پر بنایا گیا تھا جو ظاہر جعفر نے پولیس کے سامنے دیا جس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہوتی۔ لیکن پڑھنے والے یہ باریکیاں نہیں جانتے۔ ان کی نظر میں ظاہر کا باپ ابھی سے قتل میں معاونت کا مجرم بن گیا ہے، ممکن ہے وہ واقعی مجرم ہو اور ممکن ہے کہ وہ نہ ہو مگر جب تک منصفانہ سماعت نہیں ہوگی ہم نہیں جان پائیں گے۔

منصفانہ سماعت کے حق کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ ملزم کے پاس اپیل کا حق ہو اور اپیل کی سماعت بھی انصاف کے انہی اصولوں کے تحت ہو نی چاہیے جو بین الاقوامی طور پر مسلمہ ہیں۔ کوئی بھی ایسا ٹرائل، جس میں اپیل کا حق نہیں دیا جاتا یا یہ اس حق کو حاصل کرنے کے لیے علیحدہ سے ایک مقدمہ کرنا پڑتا ہے، منصفانہ سماعت کے اصولوں پر پورا نہیں اترتا اور ایسے ٹرائل کے نتیجے میں سنائے جانے والے فیصلے قانون کی نظر میں کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ اس کی مثال ایسے ہے جیسے کسی ملک کی سب سے بڑی عدالت میں ہی مقدمہ شروع ہو جائے اور وہیں ملزمان کو سماعت کا موقع دے کر ان کے خلاف فیصلہ سنا دیا جائے اور اس کے خلاف اپیل بھی نہ کی جا سکے۔ ایسی صورت میں سماعت کا حق تو مل گیا مگر منصفانہ سماعت نہیں ہوئی۔

جب بھی کوئی شخص کسی بھیانک یا سنگین جرم کا مرتکب ہوتا ہے اور اسے تفتیش کے نتیجے میں گرفتار کر لیا جاتا ہے تو معاشرہ کسی عدالت میں مقدمہ شروع ہونے سے پہلے ہی اس کی پھانسی کا خواہش مند ہوجاتا ہے اور لوگ اسے سنگسار کرنے کا مطالبہ شروع کر دیتے ہیں۔ یوں معاشرے میں ایک ہیجانی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے اور بغیر کسی مقدمے کے تمام ’ثبوت‘ ملزم کے خلاف انصاف کے پلڑے میں رکھ دیے جاتے ہیں، انصاف کے اس پلڑے کو برابر کرنے کے لیے ضروری ہے کہ مقدمے سے پہلے ہر شخص کو معصوم تصور کیا جائے اور پھر منصفانہ سماعت کے نتیجے میں ہی کوئی رائے قائم کی جائے۔

اگر ایسا نہیں کیا جاتا تو ہر وہ شخص ہی مجرم بن جائے گا جسے پولیس موقع واردات سے گرفتار کرے گی اور عدالت میں اس کے خلاف چالان جمع کروائے گی۔ مجرم چاہے زینب کا قاتل عمران ہو، اجمل قصاب ہو، کلبھوشن یادیو ہو یا ظاہر جعفر اور اس کا خاندان ہو، منصفانہ سماعت کا حق اگر نہیں دیا جائے گا تو نہ صرف مقدمے کی شفافیت پر اثر پڑے گا بلکہ انصاف کا خون بھی ہو گا۔ سفاک مجرمان کو اگر قرار واقعی سزا دینی ہے تو due process of law کا اصول ہر حال میں لاگو کرنا ہو گا۔ کسی انسان نے چاہے جتنا بھی شیطانی کام کیوں نہ کیا ہو، منصفانہ سماعت کا حق اس سے نہیں چھینا جا سکتا، ابلیس کو اگر منصفانہ سماعت مل سکتی ہے تو انسان کو کیوں نہیں!

 

یاسر پیرزادہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 490 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments