منظور پشتین کو پیار سے منا لیں


جائز حقوق نا ملنے پر 31 اگست 2014 کو چاچا کے گھر سے نکل گیا۔ منزل معلوم نہیں تھی۔ کہاں جاؤں گا؟ کہاں رہوں گا؟ کیا کروں گا؟ دن کہاں گزراوں گا؟ رات کیسے بسر ہوگی کچھ پتا نہیں تھا۔ مگر بغاوت کر چکا تھا دہلیز پار کر لی تھی، میٹرو میں بیٹھا دو چار چکر لگائے تنگ آ کر قرطبہ چوک اتر گیا۔ دکانوں کو دیکھتے پیدل چلتے جانے کب شہدا مسجد آ گئی مغرب کی آذان ہو رہی تھی۔

وضو کیا مسجد میں چلا گیا مغرب پڑھی۔ عشاء ہوگئی متولی مسجد بند کرنے آگیا۔ یہاں سے بھی نکال دیا گیا سامنے چمن آئسکریم تھی نوابوں کی طرح اک ٹیبل پر بیٹھ کر آرڈر دیا ویٹر ٹیبل صاف کرنے آیا اس سے پوچھا نوکری مل سکتی ہے؟ مینجر کے دفتر لے گیا بات چیت ہوگئی کل سے ڈیوٹی شروع حکم نامہ مل گیا۔ کل تو ہو ہی جائے گی۔ رات کہاں رہوں گا، پھر سے پریشانی نے آ گھیرا دکان سے باہر نکلا ادھر ادھر دیکھا دو بیزر اتارے مسجد کی پچھلی گلی میں اک دکان کے تھڑے پر نواز شریف کو نیچے بچھایا حمزہ شہباز کو اوپر اوڑھا اور نیند کی وادیوں میں گم ہوگیا۔

سوا چار بجے آنکھ کھلی بھوک ستا رہی تھی چائے کا کھوکھا کھلا ہوا تھا ایک کپ اور کیک رس منگوایا۔ کھا پی کر مسجد گیا اللہ سے کچھ باتیں کی، شام چار بجے ڈیوٹی شروع ہونے سے پہلے تک کا ٹائم ٹیبل بنایا سڑکوں کی خاک چھائی۔ چند دن یہی معمول رہا ایک دن بڑے بھائی کو کہیں سے خبر ہو گئی وہ آئے اور لے گئے۔ اب فرض کیجیئے اللہ نا کرے میں اغوا ہو جاتا کسی دہشتگرد کے ہاتھ لگ جاتا۔ وہ مجھ سے ہمدردی کرتا۔ میرے غم و غصے کا فائدہ اٹھاتا میرے گھر والوں کے خلاف مجھے مزید بھڑکاتا، کچھ بھی فرض کر لیجیئے ۔

جہاں تک خیالات کے گھوڑے دوڑتے ہر صورت میں نقصان ہوتا جس کی تلافی تمام عمر نہیں ہو سکتی۔

منظور پشتین جائز حقوق نا ملنے پر بغاوت کرتا ہے گھر سے نکل کر سڑک پر آتا ہے مطالبات کرتا ہے آواز بلند کرتا ہے۔ اسے نہیں پتا کیسے حقوق ملیں گے اس کی بات کیسے سنی جائے گی کون اس کا درد سمجھے گا۔ وہ غم و غصے میں بولتا جا رہا ہے۔ کبھی لاہور جاتا ہے کبھی خیبر میں اپنا دکھڑا روتا ہے کبھی اسلام آباد کو اپنا درد بتانے کی کوشش کرتا ہے۔

ظاہری سی بات ہے چار لوگ اسے دلاسہ دینے بھی آئیں گے اس کا غم بانٹنے آئیں گے اس کے غصے اور نفرت کو ہوا دیں گے۔ میں نہیں جانتا منظور پشتین کون ہے کہاں سے آیا بلوچستان کے، پختون کے کیا حالات ہیں اس پر بات نہیں کرتے میں لاہور کے آنکھیں دیکھے واقعات بتاتا ہوں فیصلہ آپ پر۔ 28 دسمبر 2011 کو گنگارام سے ایک جوان اٹھایا جاتا ہے تین ماہ لاپتا رکھا گیا چوتھے ماہ علم ہوا فلاں کیس میں اٹھایا گیا ہے، رہائی کے لئے دباؤ ڈالا گیا تو مار دیا بوڑھے والدین بیوہ اور تین سالہ چھوٹی سی بچی ان کا کیا قصور تھا؟

 اس نوجوان کے شب و روز ہمارے سامنے گزرے تھے ایک لمحے کے لئے مان بھی لیا کہ دہشت گرد تھا تو آئین اور قانون کیا کہتا ہے؟ 9 نومبر 2015 میں ہمارے علاقے سے 70 سالہ بزرگ اٹھائے گئے 7 ماہ لاپتا رکھا آٹھویں مہینے پتا چلا فلاں جیل میں ہے دونوں ہاتھ دونوں پاؤں توڑ کر اپاہچ کر دیا۔ کہاں گیا قانون؟ 21 جون 2016 کلمہ چوک سے ایک شخص اٹھایا جاتا ہے پانچ ماہ لاپتا رہتا ہے چھٹے ماہ لاش ملتی ہے۔

یہ وہ واقعات ہیں جو سامنے گزرے ابھی ان کی بات نہیں کی جو بستی سے دور جنگلوں میں ہتھکڑی لگا کر مار دئے گئے ابھی ان 14 کی بات بھی نہیں کرتے جو ایک دن میں مار دئے۔ ابھی لاہور کی بات کی ہے پاکستان کے اضلاغ اور دوسرے صوبوں کی صورتحال دیکھ لیجیئے۔ چیف آف آرمی سٹاف، جج صاحبان اور ارباب اختیار سے عرض ہے ابھی وقت ہے۔ ابھی منظور پشتین ایجنٹ نہیں بنا ابھی اس کا غصہ نفرت میں نہیں بدلا۔ ابھی وہ حق مانگ رہا ہے۔ کل کو چھین لے گا۔ ابھی ان کا غم دکھ درد سمجھ لیں کل کو یہی دہشت گرد بن گئے تو پھر نہیں کہنا غلط ہو گیا۔ اس کو پیار سے سن لیں منا لیں ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).